آسام کی دو قدیم مساجد: ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال وراثت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-11-2021
آسام کی دو قدیم مساجد: ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال وراثت
آسام کی دو قدیم مساجد: ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال وراثت

 

 

عارف الاسلام، گوہاٹی

آپ ہندوستان کے جس حصے میں جائیے،آپ کو تاریخی چیزیں ضرور دیکھنے کو ملیں گی، کشمیر سے کنیاکمار تک اور گجرات سے آسام تک، تاریخی چیزوں کا خزانہ موجود ہے۔آج ہم ہندوستان کی انہی تاریخی عمارتوں اور مذہبی عبادت گاہوں میں سے ہے قدیم عبادت گاہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ یہ ذکر دراصل ریاست آسام دو قدیم مساجد پر مشتمل ہے۔

سرحدی ریاست آسام میں ایسی دو مسجدیں موجود ہیں، جو تقریباً چار سو برس قدیم ہے۔ ان دونوں تاریخی مساجد میں نہ صرف  روزانہ نماز ادا کی جاتی ہے بلکہ آسام میں موجود مذہبی اور ثقافتی اتحاد، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی بھی یہ مسجدیں علامت بنی ہوئی ہیں۔

 ریاست آسام کے ناگون ضلع میں کلیابور کے قریب جینتی پور گاؤں میں واقع 16ویں صدی کی دو یادگاریں اب بھی زندہ  ہیں جو کہ آسام کے آہوم دور(Ahom era) کے فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں۔ آہوم بادشاہ سوہنگ منگ(Suhungmung) نےاس علاقے میں کچھ مسلمانوں کو بسایا تھا جو دراصل مغل فوج کے سپاہی تھے،یہ سارے وہ مسلمان تھے،جنہیں جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اس علاقے میں رہنے والے یہ مسلمان جنگی قیدی موریا کے نام سے جانے گئے، مگر وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام قیدی آسام کے مسلم کمیونٹی کا حصہ بن گئے۔ان مسلمانوں قیدیوں کوعبادت بھی کرنی تھی، اس لیے آہوم حکوم کی جانب سے انہیں مسجد بنانے کی اجازت دی گئی، ابتداً عارضی مسجدیں بنائی گئی، اس کے بعد پکی مسجدیں بنائی جانے لگیں۔ سن1570 عیسوی میں پہلی باریہاں کنکریٹ کی ایک مسجد تعمیر کی گئی جو 'بار مسجد' کے نام سے مشہور ہوئی۔

پھر اسی علاقے میں 1575ء میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی جو بودھ گیان مسجدیا ہورو مسجد(Budha Ganyan Masjid or  Horu Masjid) کے نام سے مشہور ہوئی۔آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے بار مسجد کی انتظامی کمیٹی کے انچارج انتاز علی نے کہا کہ آسام میں پھیلے وشنویت کےزمانے میں بنائی گئی اس مسجد کا پس منظر بہت زبردست ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کوئی بھی مسجد وشنوائی تعمیرات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس مسجد کو بنانے کے لیے ڈھاکہ سے معمار لائے گئےتھے۔ ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والے معمار نے اپنے معاونین کی مدد سے ایک خوبصورت مسجد بنوائی تھی۔اس مسجد کا ابتدائی تعمراتی کام وشنوئی عبادت گاہوں کے طرز پر کیا گیا تھا، ایسا کہا جاتا ہے کہ سنگ بنیاد کے وقت یہاں تلسی کے پودے کا بھی استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں مسجد کا جو نقشہ بنایا گیا تھا وہ آج بھی اسی طرں برقرار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد کے مطابق مسجد کے قیام کے وقت بوڈو برادری کے ہرش مودا سمیت مختلف مذاہب کے کمیونٹی لیڈر موجود تھے اور انہوں نے مسجد کی تعمیر میں دلچسپی دکھائی تھی۔آسامی اور اسلامی فن تعمیر کو ملا کر یہ مسجد آسام کی پہلی کنکریٹ کی مسجد تھی، جو کہ جینتی پور کی مسجد کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتی ہے۔

awazthevoice

 

تعمیراتی پہلو کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےعلی نے کہا کہ "مسجد کے اندرونی حصہ کو جواہرات اور رنگین شیشے سے سجایا گیا ہے، اس کے علاوہ مسجد کے اندر قرآن پاک کی آیات کی بھی جگہ جگہ نقاشی کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آسامی نام گھر اور جینتی پور کی مسجد میں بہت سی مماثلت ہیں۔ مسجد کی چھت پردوپیتل کے چھوٹےگنبد لگائے گئے ہیں جو کہ نام گھر میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔انتازعلی نے دعویٰ کیا کہ دنیا میں ایسی کوئی مسجد نہیں ہے، جس کی چھت اس قسم کی بنائی گئی ہو۔اس مسجد کا صدردروازہ خانہ کعبہ کے طرز پر بنایا گیا ہے۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ انتظامیہ نے مسجد کی تعمیر کے لیے علاقے میں موجود ہر مسلم خاندان کوایک مخصوص چپکنے والے چاول ،کالے چنےاورارد دال کا مشترک مواد تیار کرنے کے لیے دیا۔ مسجد کو پاؤڈر اینٹوں، چاولوں اور کالے چنے کے بیسن کے مشترک مواد تیار کیا گیا۔ مسجد کی تعمیر کے لیے درکار اینٹیں موریہ(Maurya) یعنی مسلمانوں نے خود بنائی تھیں۔

اس علاقے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں استعمال ہونے والی اینٹیں آہوم دور میں استعمال ہونے والی اینٹیں ہیں، جو دراصل آہوم محل  میں استعمال میں ہونے والی اینٹوں سے ملتی جلتی ہیں۔

 ہورو مسجد

 کلیابورمیں ہورومسجد یا بدھ گیان مسجد کا فن تعمیر بار مسجد سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ مسجد 1575 میں سکلانگ منگ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ بار مسجد کی چھت کی طرح اس کی چھت پر بھی پیتل کے چھوٹے گنبد ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دونوں مساجد کی تعمیر کے دوران مسالہ بنانے کے لیے چونا پتھر، کالے چنے، میٹھے پانی کی چھوٹی مچھلیاں اور چاول کے آٹے کا استعمال کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سن 1950 کے آسام میں ہونے والے شدید زلزلے میں دونوں مسجدوں کونقصان پہنچا تھا۔ تاہم بعد میں ان کی مرمت کر دی گئی۔آسام کی یہ مسجدیں اتحاد کی بھی علامت بنی ہوئی ہے، جب یہاں سے مسلمان گزرتے ہیں تو نماز ادا کرتے ہیں جب کہ ہندو مسجد کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔

اس علاقے کے نامور سائنسدان ڈاکٹر گکل گوسوامی نے کہا کہ آسام موریا مسلمانوں کی کافی تعریف کی ہے، انہوں نے کہا کہ موریا کمیونٹی نے بہت سارے سماجی اور فلاحی کام بھی کئے، ایک بار ایک آشرم جل گیا تھا اس کے لیے موریا کمیونٹی نہ صرف عطیہ دیا بلکہ جسمانی طور پر بھی محنت کی تھی۔

آج آسام کی یہ مسجدیں ہندو-مسلم اتحاد، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی گواہی دے رہی ہیں۔