ڈل لیک میں تیر تا ہوا دنیا کا واحد پوسٹ آفس

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-08-2021
کشمیر کا ایک اور عجوبہ
کشمیر کا ایک اور عجوبہ

 


آؤاز دی وائس، نئی دہلی

کشمیر جنت النظیرجبکہ ،سری نگر کے حسن کو چار چاند لگانے والی خوبصورت جھیل یا لیک کا نام ہے ’ڈل‘

اس کو سری نگر کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی۔کیونکہ ڈل لیک میں ’شکاروں کی دنیا‘ سیاحوں کے لیے ایک عجیب و غریب نظارہ اور تجربہ ہوتا ہے۔

در اصل اس ڈل لیک پر ایک دنیا بسی ہے ،شکاروں کی شکل میں اگر تیرتے ہوئے مہمان خانے ہوتے ہیں تو اسی ڈل لیک پر لگنے والا سبزیوں کا بازار بھی اپنی نوعیت کا واحد تیرتا ہوا بازار ہے۔

پچھلے دنوں کورونا کے دور میں  ڈل لیک میں تیرتی ہوئی ایمبولینس نے توجہ مبذول کی تھی۔

 آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں 155،015زیادہ سے زیادہ ڈاک خانے ہیں۔ ان ڈاک خانوں میں سے ایک تیرتا ہوا بھی ڈاک خانہ ہے۔

یہاں آپ ڈل لیک یا جھیل پر چلتے ہوئے تمام باقاعدہ ڈاک خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ پوسٹ آفس یا ڈاک خانہ آثار قدیمہ میں آتا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ  پوسٹ آفس جو نوآبادیاتی دور سے موجود ہے۔

سن 2011 سے قبل تک اسے نہرو پارک پوسٹ آفس کہا جاتا تھا۔

دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستانی ڈاک خدمات سب سے اچھی اور سستی مانی جاتی ہے، اس کے مقابلے میں پرائیویٹ کوریر کافی مہنگا ہے۔ اس لیے ملک کی ایک بڑی آبادی ہندوستانی ڈاک یا انڈیا پوسٹ(India Post) کا استعمال کرتی ہے۔

 اس وقت کے  چیف پوسٹ ماسٹر جان سیموئیل کے مشورے اور کوششوں کے بعد اس پوسٹ آفس کا نام تبدیل کردیا گیا۔

اس میں ایک بہت چھوٹا سا میوزیم بھی ہے، جو کہ ڈاک ٹکٹوں پر مشتمل ہے، وہیں ایک چھوٹی سی دکان بھی یہاں ہے۔

ایک زمانہ میں اس پوسٹ آفس کو بند کر دیا گیا تھا، اس کے بعد فلوٹنگ پوسٹ آفس کو باضابطہ طور پر اگست 2011 میں دوبارہ شروع کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پوسٹ کی گئی ہر چیز پر مہر منفرد ہے ، سیاحوں کی دلچسپی کو دھیان میں رکھتے ہوئے، اس کی تزئین کی گئی ہے۔ 

 ڈیل جھیل میں شکارے پر گھومنے والے اور شکارہ چلانے والے اس کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاح بھی آتے ہیں اپنی ضرورت کے حساب سے ڈاک بھیجتے ہیں۔

 مقامی لوگوں کے لیے یہ پوسٹ آفس سحر انگیز چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ڈل جھیل کے جزیرے 50000 سے زیادہ لوگوں (کسانوں ، مزدوروں ، کاریگروں اور شکار مالکان) کے گھر ہیں جن کے لیے یہ سرکاری سہولت ڈاک اور بینکنگ خدمات کا قریبی ذریعہ ہے۔

یہاں دو دیگر ہندوستانی ڈاک خانے مزید ہیں جس کا استعمال یہاں کے باشندہ کرتے ہیں۔ 

یہ مہاراجہ کے وقت سے لے کر برطانوی دور تک 200 سال پرانا ڈاک خانہ ہے۔اس کے بعد اسے بالآخر تیرتا ہوا ڈاک خانہ کہا گیا۔

awazurdu

یہ 1960 کا منظر ہے جب ڈل لیک میں ایک چھوٹا  ڈاک خانہ تیرتا ہوا نظر آتا تھا

حالاں کہ دنیا بھر میں بھیجی گئی پوسٹوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

فلوٹنک پوسٹ آفس کے پوسٹ ماسٹر فاروق احمد کا کہنا ہے کہ جب سیاحوں کی آمد ہوتی  ہے تو ہمارے پاس بات کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ اس پوسٹ آفس میں ہزاروں لوگ تصاویر لینے آتے ہیں۔ وہ یہاں سے خصوصی کور ، پوسٹ کارڈ اور ڈاک ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔

ڈاکیہ ایک شکارا کی خدمات حاصل کرتا ہے اور خط کو ہاؤس بوٹس تک پہنچا دیتا ہے۔

یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور اب بھی جاری ہے۔

 محمد اسماعیل ایک ڈاکیا ہیں، جو یہاں برسوں سے کام رک رہے ہیں۔ وہ ہر روز جھیل پر رہنے والے لوگوں کو خطوط پہنچاتے ہیں۔ شکارہ لینے اور مختلف ہاؤس بوٹس پر جانے میں وقت لگتا ہے لیکن ایسا کرنے کی دلکشی وہی ہے جو اسے سب سے زیادہ پسند ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ  میں گذشتہ  دس برسوں سے ڈل جھیل میں خطوط پہنچاتا رہا ہوں۔میری صحت کے لیے جھیل پر تازہ ہوا کا سانس لینا بہت اچھا ہے۔ میں ایک دن میں 100-150 خطوط لوگوں میں تقسیم کرتا  ہوں۔

ڈل جھیل کے اندر ایک سی آر پی ایف کیمپ بھی ہے ، وہ بہت سارے خطوط وصول کرتے ہیں اور میں انہیں پہنچا دیتا ہوں۔ یہ خطوط پہنچانے میں مجھے گھنٹوں لگتے ہیں۔ میں صبح کے 11بجے سے اپنا کام شروع کرتا ہوں اور شام کے ساڑھے پانچ بجے  تک میرا کا م جاری رہتا ہے۔