مقبوضہ کشمیر کا متنازعہ دورہ : او آئی سی بغیر دانت کا بندر ہے ۔پروفیسر اخترالواسع

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-12-2022
مقبوضہ کشمیر کا  متنازعہ دورہ : او آئی سی بغیر دانت کا بندر ہے   ۔پروفیسر اخترالواسع
مقبوضہ کشمیر کا متنازعہ دورہ : او آئی سی بغیر دانت کا بندر ہے ۔پروفیسر اخترالواسع

 



 

منصور الدین فریدی :آواز دی وائس

تنظیم تعاون اسلامی( او آئی سی) بغیر دانت والا بندر ہے،جو پاکستان کے تشہیر ی ادارہ بن گیا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اس میں شامل بیشتر مسلم ممالک مختلف معاملات میں ہندوستان کے ساتھ رہتے ہیں ۔

 او آئی سی کے متنازعہ دورہ مقبوضہ کشمیر پر یہ ہے ممتاز اسلامی اسکالر  پروفیسر اختر الواسع کا ردعمل ۔ جنہوں نے اس کی سخت مذمت کی اور پاکستان کو آئینہ دکھانے کا  کام کیا ۔

 دراصل پاکستان مقبوضہ کشمیر کے نام پر دنیا کو گمراہ کرنے اور اپنے سفارتی پروپگنڈہ کو ہوا دینے کے لیے کوئی نہ کوئی ہتھلنڈے استعمال کرتا رہتا ہے ،جس کا ایک نمونہ او آئی  کے متنازعہ دورہ سے ملا ہے۔ جس کا ایک وفد مقبوضہ کشمیر کے دورے کے بعد  پیر کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملا ہے  ۔اس دورے کے خلاف حکومت ہند نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ 

پروفیسر اختر الواسع نے او آئی سی کے اس دورے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ در اصل یہ ادارہ بغیر دانت والا بندر جیسا ہی ہے۔جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے عزائم  اور پالیسی  کو فروغ دینا رہ گیا ہے۔ پاکستان اس کا استعمال کررہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ دنیا میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہندوستان ہے لیکن او آئی سی ہندوستان کو رکنیت دینے کو تیار نہیں ۔ساتھ ہی ہندوستان کی رائے  کو اہمیت اور وزن د نیا نہیں چاہتا ہے ۔

 پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ او آئی سی کے اس کردار کے سبب اس دورے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔

 انہوں نے کہا کہ او آئی سی اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے یوں تو عالم اسلام کے بیشتر ممالک اس کے ممبر ہیں جو کہ ہر معاملہ میں ہندوستان کا ساتھ دیتے ہیں ۔اس لیے او آئی سی کو حقیقت پسند ہونا چاہیے  اور کسی بھی ملک کا ۔تشہیری ادارہ نہیں نبنا چاہیے

وائس ایڈمرل شیکھر سنہا نے کہا کہ پی او کے ہندوستانی علاقہ ہے جس پر پاکستان نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔  ہندوستانی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ہندوستان کا نامکمل ایجنڈا ہماری سرزمین واپس لینا ہے۔ وائس ایڈمرل سنہا نے کہا کہ او آئی سی کا ناپسندیدہ دورہ غیر قانونی ہے اور یہ دہشت گرد ریاست پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی حمایت کے مترادف ہے۔

اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ریٹائرڈ میجر محمد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے اس دورے کی مذمت کرنا حق بجانب ہے کیونکہ یہ خطہ ہندوستان کا ہے۔1990 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستانی پارلیمنٹ نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر بشمول گلگت اور بلتستان کو ہندوستان کا حصہ تسلیم کیا تھا۔

حال ہی میں، شمالی فوج کے کمانڈر نے بھی کہا ہے کہ ہندوستانی فوج پی او کے کو واپس لینے کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حال ہی میں امریکہ نے اپنے پاکستانی سفیر کے پی او کے دورے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کا یہ اقدام انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میں وفد کے اس دورے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انہیں پی او کے نہیں جانا چاہئے تھا۔ان خدشات کو دور کرتے ہوئے کہ اس دورے سے او آئی سی کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔

 ہر سال کا تماشہ ہے 

 او آئی سی کا وفد تقریبا ہر سال  پاکستان کا دورہ کرتا ہے ،مقصد مقبوضہ کشمیر کو سرخیوں میں لانا ہوتا ہے ۔ پیر کو اس وفد نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔

جموں و کشمیر میں بدلتے ماحول اور ترقیات سے مایوس پاکستان کے وزیراعظم  شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیرکے حل اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے او آئی سی کے اصولی مؤقف اور مسلسل حمایت کوسراہتے ہیں۔ وہ یہ باتیں اس وقت کررہے ہیں جب مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری اور بد حالی ہے۔  دوسری جانب ہندوستان میں  جموں و کشمیر ترقی کی بلندیوں کو چھو ر ہا ہے ۔ نئی نسل روزگار کی نئی راہوں پر رواں دواں ہے۔

 دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مارچ میں او آئی سی  کے اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فلسطین اور کشمیر کے معاملہ پر ’ہم دونوں امور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ ہم کوئی اثر نہیں ڈال سکے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے جو بھی بات کی جاتی ہے اس کو خود عالم اسلام میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے کیونکہ مسلم ممالک بھی ادارہ کی تشہیری سرگرمیوں سے واقف ہوگئے ہیں ۔ 

ایغور مسلمانو ں پر خاموشی کیوں ؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ملک چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے آواز نہیں اٹھاتا ہے وہ کشمیر کا راگ الاپ رہا ہے ۔حد تو یہ ہوگئی کہ  پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نےفلسطینی عوام اور فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کی بھی تجدید کی۔ اس کو چراغ تلے  اندھیرا ہی کہہ سکتے ہیں کہ سرحد پار چین میں ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم تو نظر نہیں آرہے ہیں لیکن بات فلسطین اور کشمیر کی ہورہی ہے ۔

او آئی سی کی تاریخ

او آئی سی کی بنیاد رکھنے کا سبب کوئی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی تھا۔ ایک بڑے واقعہ کے بعد اس کی بنیاد پڑی تھی ۔ دراصل 21 اگست 1969کو ایک آسٹریلوی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصی میں موجود 800سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی تھی۔ تنظیم تعاون اسلامی

 اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔

او آئی سی کی بنیاد 25 ستمبر 1969کو رکھی گئی تھی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔

یاد رہے کہ 25 ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔

اگر بات کریں  اس ادارے کے مقاصد کی تو اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ :ادارہ صرف پاکستان کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کررہا ہے۔ جو اب دنیا پر عیاں ہوچکا ہے۔