موبائل لائبریری: بچے پیدا کر رہے ہیں بچوں میں کتب بینی کا شوق

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-03-2022
موبائل لائبریری: بچے پیدا کر رہے ہیں بچوں میں کتب بینی کا شوق
موبائل لائبریری: بچے پیدا کر رہے ہیں بچوں میں کتب بینی کا شوق

 

 

شاہ تاج خان، پونے

جدید دورجہاں طرح طرح گجٹس اور ایپس اورڈیجٹل گیمس ہم سے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت چھین رہے ہیں، وہیں ڈیجیٹل دور کے اس افراتفری کے ماحول میں کتابوں کی طرف واپسی کی بھی مہم دنیا کے مختلف حصوں میں چلائی جا رہی ہے۔ کیوں کہ کتابیں ہماری سب سے اچھی دوست ہیں، کتابیں جہاں ہمارے ذہنوں میں وسعت پیدا کرتی ہیں، وہیں کتابیں ہمیں جینے کا سلیقہ اور زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھاتی ہیں۔

آئئے آج ہم آپ کو بچوں کے اندر بچے کے ذریعہ کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کی مہم کے بارے میں بتاتے چلیں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ آج نہ تو یوم قومی خواندگی(19 جون) ہےاور نہ ہی یوم عالمی کتاب(23 اپریل) ہے۔ تاہم یہ بچوں کے لیےخاص دن ہے،جی ہاں جب بچے ہفتے بھر اس دو دنوں یعنی بدھ اور اتوار کا انتظار کرتے ہیں۔ 

بچے اس دن کا انتظار کیوں کرتے ہیں، کیوں کہ اسی دن انہیں نصابی کتابوں کے علاوہ دیگر کتابوں کا پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس دن ان کے پاس ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام موبائل لائبریری کا ٹرالی بیگ پہنچتا ہے۔ کتابوں کا ٹرالی بیگ لانے والے بھی بچے ہی ہوتے ہیں۔

awazurdu

بچوں کے لیے ایک بچے کی مہم


جی ہاں!

ریاست مہاراشٹر کے ضلع تھانے کے کولی واڈا کے وسئی گاوں میں بچوں کو موبائل لائبری کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

 موبائل لائبریری

لائبریری لاطینی کے لفظ لائبر سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کتاب ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں پہلی موبائل لائبریری امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا میں 1713ء میں قائم ہوئی تھی۔ تاہم موبائل لائبریری عام لائبریریوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ یہاں کتابیں شیلف میں نہیں تھیلے میں رکھی جاتی ہیں۔

موبائل لائبریری خؤد قارئین کے پاس پہنچتی ہیں۔ منتظر، شہید محبوب، ارمان اورشاہد ہفتے میں دو دن کتابوں کی ٹرالی کے ساتھ اپنے علاقے کے مختلف محلوں میں جاتے ہیں۔اور یہ تمام دوست گھر گھر جا کر بچوں کو بلاتے ہیں اور پھر کسی درخت کی چھاوں میں یا کسی باغ کے نیچے بیٹھ کربچے اپنی دلچسپی کے مطابق ان سے کتاب لے کر پڑھتے ہیں۔

یہاں بچوں کو گھر لے جانے کے لیے بھی کتابیں دی جاتی ہیں۔ گھر پر لے جانی والی کتابوں کا اندراج بھی وہ ایک رجسٹر میں کیا جاتا ہے۔ موبائل لائبریری کے ذمہ داربچے کتاب لینے بچوں کو ایک ہفتے کے اندر کتاب واپس کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ایک ہفتے بعد وہ آتے ہیں اور بچوں سے کتاب لے کرانہیں دوسری کتاب دے کر کسی دوسرے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔

موبائل لائبریری سے کتاب لے کر پڑھنے والے ایک بچے منتظر شیخ کا کہنا ہے کہ بچے ایک ہفتہ بھی اس کا انتظارنہیں کرتے، بلکہ بچے بعض اوقات اسی دن کتاب واپس کر، دوسری کتاب مطالعہ کے کے لیے لے جاتے ہیں۔ موبائل لائبریری کو سنبھالنے والے بچوں میں منتظر سب سے بڑا ہے اور حذیفہ اردو ہائی اسکول، وسئی میں کلاس نہم میں پڑھ رہا ہے۔

awazurdu

بچوں میں کتابوں کا شوق


شہید محبوب منصوری کا کہنا ہے کہ جب ہم پہلی بار موبائل لائبریری کے ساتھ  نکلے تھے توصرف چار بچوں نے کتابیں پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم اب بچوں کی بڑی تعداد ان کی منتظر رہتی ہے۔ 

موبائل لائبریری کے ذمہ دار بچوں سے پوچھا گیا کہ وہ بچوں سے ملنے کے لیے جگہ کا انتخاب کیسے کرتے ہیں تو ارمان صغیراحمد خان نے کہا کہ ہم اپنے اسکول کے بچوں کا پتہ دیکھ کر علاقے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسی علاقے میں جاتے ہیں اور وہاں موجود سبھی بچوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں دیتے ہیں۔

موبائل لائبریری کا قیام

لاک ڈاؤن نے طرز زندگی پر طرح طرح کے اثرات مرتب کیے ۔ جس میں تعلیم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ تاہم اس دوران کچھ لوگوں یہ بھی سوچا کہ جن چیزوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے،ان کا مناسب حل نکالا جائے، ان چیزوں کو بھی جگہ دینے کی کوششیں شروع ہو گئی۔ اس علاقے میں 18 دسمبر سے 18 جنوری تک "آو کتابوں سے دوستی کریں" مہم چلائی گئی۔ اس مہم کو نہ صرف کامیابی ملی بلکہ اس دوران آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس ایسوسی ایشن (اے آئی ٹی اے، پال گھر) نے ایک موبائل لائبریری کا بھی انتظام کردیا۔ جس کی ذمہ داری مختلف اسکولوں کے چند بچوں کو دی گئی۔

  یہ تمام بچے ساتویں، آٹھویں اور نویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ ضلع پریشد اردو اسکول وسئی کے بچے، ذمہ دار بچوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً لائبریری کا دورہ کرتے ہیں۔ سلمان اور عبدالکلام خوشی خوشی بتاتے ہیں کہ بہت سے بچے ایسے ہیں جنہوں نےموبائل لائبریری کی تمام کتابیں پڑھ لی ہیں۔ اب ہم اپنے گھر کے گارجین/ سربراہ سے کہیں گے کہ وہ ہماری موبائل لائبریری میں نئی ​​کتابیں شامل کریں۔

 دماغ کو متحرک رکھنے کے طریقے

روزانہ ایک کتاب پڑھنے سے دماغ متحرک رہتا ہے۔ جسم کی طرح دماغ کو بھی مضبوط رکھنے کے لیے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ نہ صرف ذخیرہ الفاظ کو وسعت دیتا ہے بلکہ تجزیاتی صلاحیتوں کو بھی فروغ دیتا ہے، کتابیں ہمیں زندگی کے اہم اسباق سکھاتی ہیں اور قاری کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں۔

کتابوں کے مطالعہ کی وجہ سے ہم بیرونی دنیا سے متعارف ہوتے ہیں، بیرونی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔اس سے ہماری یادداشت اور ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔

awazurdu

کتابوں میں غرق بچے 


لائبریری: ایک دانشورانہ تجربہ گاہ

پی این پانیکر نے 1926 میں سناتن دھرم لائبریری قائم کی تھی۔ ہندوستان میں ان کی یاد میں یوم قومی خواندگی یا نیشنل ریڈنگ ڈے منایا جاتا ہے۔ انہیں کیرالہ میں لائبریری تحریک کا بانی کہا جاتا ہے۔ایسی ہی ایک تحریک کی آج پھر ضرورت ہے۔ آج کے زمانہ میں جس طرح بچوں نے کتابوں سے دوری بنائی ہوئی ہے،ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ  بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرایا جائے،بچوں کی پھر سے کتابوں دوستی کرائی جائے۔ یہ چھوٹی سی کوشش بہت ضروری ہے۔

عبدالکلام ساتویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہلے یہ فکر رہتی تھی کہ بچے ٹی وی اور موبائل چھوڑ کر کتابیں پڑھنےآئیں گے یا نہیں! مگر ایسا نہیں ہے، بہت سے بچے ہم سے بار بار ان کے گھر آنے کی درخواست کرتے ہیں اور کتابوں کے مطالعہ میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔

قارئین کی تلاش

جان ڈیوی نےلائبریری کواسکول کا دل کہا ہے۔ کتابوں اور کتب خانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نصابی کتب کے ساتھ ساتھ اگر دوسری کتابیں بھی آپ کے مطالعہ میں شامل ہوں توبہت فائدہ ہوگا۔ ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام موبائل لائبریری بچوں کے لیے صرف ایک چھوٹی سی کوشش ہے اور اسے بچوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، امید کی جانی چاہئےکہ یہ کوشش دوسروں کے لیے بھی تحریک کا باعث بنے۔