راہل گاندھی نے وی بی- جی رام جی بل پر حکومت پر تنقید کی

Story by  اے این آئی | Posted by  Aamnah Farooque | Date 19-12-2025
راہل گاندھی نے وی بی- جی رام جی بل پر حکومت پر تنقید کی
راہل گاندھی نے وی بی- جی رام جی بل پر حکومت پر تنقید کی

 



نئی دہلی/ آواز دی وائس
پارلیمنٹ میں وکست بھارت گارنٹی برائے روزگار و اجیویکا مشن (دیہی) (وی بی جی رام جی) بل کی منظوری کے خلاف اپوزیشن کی بھرپور اور بلند آواز مخالفت بدستور جاری ہے۔ جمعہ کے روز متحدہ اپوزیشن نے بل کی منظوری کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کیا، جبکہ ترنمول کانگریس کے ارکان ایوان کے داخلی دروازے کی سیڑھیوں پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن کے قائد راہل گاندھی، جو اس وقت جرمنی میں ہیں، نے بھی بل کے خلاف آواز بلند کی اور دعویٰ کیا کہ یہ بل ساخت کے لحاظ سے “ریاست مخالف” اور “گاؤں مخالف” ہے۔
راہل گاندھی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ کل رات مودی حکومت نے ایک ہی دن میں منریگا کے بیس برسوں کو منہدم کر دیا۔ وی بی جی رام جی منریگا کی کوئی ‘اصلاح’ نہیں ہے۔ یہ حقوق پر مبنی اور طلب پر چلنے والی ضمانت کو ختم کر کے اسے دہلی سے کنٹرول ہونے والی راشن بند اسکیم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ ساخت کے لحاظ سے ریاست مخالف اور گاؤں مخالف ہے۔ منریگا نے دیہی مزدور کو سودے بازی کی طاقت دی تھی۔ حقیقی متبادل میسر آنے سے استحصال اور مجبوری کی ہجرت میں کمی آئی، اجرتیں بڑھیں اور کام کے حالات بہتر ہوئے، اور اسی کے ساتھ دیہی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و بحالی بھی ہوئی۔ یہی وہ طاقت ہے جسے یہ حکومت توڑنا چاہتی ہے۔ کام کی حد مقرر کر کے اور انکار کے مزید راستے بنا کر وی بی جی رام جی اُس واحد ذریعہ کو کمزور کر دیتا ہے جو دیہی غریبوں کے پاس تھا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ہم نے کووڈ کے دوران دیکھا کہ منریگا کی کیا اہمیت تھی۔ جب معیشت بند ہو گئی اور روزگار تباہ ہو گئے، تو اسی اسکیم نے کروڑوں لوگوں کو بھوک اور قرض میں ڈوبنے سے بچایا۔ اس نے سب سے زیادہ خواتین کی مدد کی—سال بہ سال خواتین نے کل انسانی دنوں کا نصف سے زیادہ حصہ دیا۔ جب کسی روزگار اسکیم کو راشن بند کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے خواتین، دلت، آدیواسی، بے زمین مزدور اور سب سے غریب او بی سی طبقات باہر دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس قانون کو مناسب جانچ کے بغیر پارلیمنٹ سے زبردستی منظور کرا لیا گیا۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ جو قانون دیہی سماجی معاہدے کو ازسرِ نو تشکیل دے اور کروڑوں مزدوروں کو متاثر کرے، اسے سنجیدہ کمیٹی جانچ، ماہرین سے مشاورت اور عوامی سماعت کے بغیر کبھی منظور نہیں کیا جانا چاہیے۔ وزیرِ اعظم مودی کے اہداف واضح ہیں: محنت کشوں کو کمزور کرنا، دیہی ہندوستان—خصوصاً دلتوں، او بی سی اور آدیواسیوں—کی طاقت گھٹانا، اختیارات کو مرکز میں سمیٹنا اور پھر اسے ‘اصلاحات’ کے نعروں کے طور پر پیش کرنا۔
راہل گاندھی نے مزید کہا کہ منریگا دنیا کے سب سے کامیاب غربت کے خاتمے اور بااختیار بنانے کے پروگراموں میں شامل ہے۔ ہم اس حکومت کو دیہی غریبوں کی آخری ڈھال تباہ کرنے نہیں دیں گے۔ ہم مزدوروں، پنچایتوں اور ریاستوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اس اقدام کو شکست دیں گے اور ملک گیر محاذ بنا کر اس قانون کی واپسی کو یقینی بنائیں گے۔ کانگریس کی رکنِ پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اس بل کے بعد یہ اسکیم دم توڑ دے گی، جو نہایت نقصان دہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل انتہائی غریب ترین لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے، کیونکہ اصل منریگا اسکیم جس ڈھانچے کے تحت چلتی تھی—جس میں مرکز 90 فیصد فنڈ فراہم کرتا تھا—وہ دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی اور اُن لوگوں کے لیے سب سے بڑا سہارا تھی جو شدید غربت میں تھے اور روزگار پانے میں دشواری کا سامنا کرتے تھے۔ بیس برسوں تک یہ ایک مؤثر اسکیم رہی جس نے غریبوں، خاص طور پر اُن لوگوں کی مدد کی جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اب بل کی اس نئی شکل میں جب مرکز کی جانب سے فنڈز میں اتنی بڑی کٹوتی کر دی گئی ہے تو ریاستیں اسے برداشت نہیں کر پائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسکیم ختم ہو جائے گی، جو نہایت نقصان دہ ہے۔
۔18 دسمبر کو، سرمائی اجلاس 2025 کے آخری سے ایک دن پہلے، پارلیمنٹ نے وکست بھارت گارنٹی برائے روزگار و اجیویکا مشن (دیہی) (وی بی جی رام جی) بل منظور کیا، جس کے بعد راجیہ سبھا نے بھی لوک سبھا کی منظوری کے بعد اسے پاس کر دیا۔ اس بل کے تحت ہر دیہی گھرانے کو اجرتی روزگار کے 125 دن کی ضمانت دی گئی ہے، جو موجودہ 100 دن سے زیادہ ہے، اور یہ اُن بالغ افراد کے لیے ہے جو غیر ہنرمند دستی مشقت کرنے کے خواہش مند ہوں۔
بل کی دفعہ 22 کے مطابق، مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان فنڈز کی شراکت کا تناسب 60:40 ہوگا، جبکہ شمال مشرقی ریاستوں، ہمالیائی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر) کے لیے یہ تناسب 90:10 مقرر کیا گیا ہے۔