افسرعلی کو انیتا کا،انکورکو اکبر کا گردہ: پیوند کاری میں قومی یکجہتی کا پیغام

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
افسرعلی کو انیتا کا،انکورکو اکبر کا گردہ: پیوند کاری میں قومی یکجہتی کا پیغام
افسرعلی کو انیتا کا،انکورکو اکبر کا گردہ: پیوند کاری میں قومی یکجہتی کا پیغام

 

 

میرٹھ: کبھی کبھی قومی یکجہتی کا پیغام وہاں سے آتا ہے جہاں سے امید نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا ہے جہاں ایک ہندوخاتون نے ایک مسلمان مریض کو اپنی کڈنی دی جب کہ ایک مسلمان نے ہندو مریض کو اپنا گردہ دے کر اس کی جان بچانے کا سبب بنا۔ یوپی کے میرٹھ کے ایک اسپتال میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے گردے کی مشکل پیوند کاری کرکے ایک مریض کی جان بچائی ہے۔ ڈاکٹر اس نایاب ٹرانسپلانٹ پر مبارکباد کے مستحق ہیں، وہ ہندو بہن بھی مبارکباد کی مستحق ہے، جس نے اپنا گردہ مسلمان بھائی کو دے کر اس کی جان بچائی۔ یہی نہیں مسلم بھائی کے خاندان کے ایک فرد نے بھی ہندو بھائی کو گردہ دے کر اس کی جان بچائی۔

میرٹھ کے ایک اسپتال میں کیا جانے والا یہ نایاب کڈنی ٹرانسپلانٹ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ گردے کی پیوند کاری سویپ طریقہ سے کی گئی۔ گردے کے ماہر ڈاکٹر سندیپ کمار گرگ، ڈاکٹر شالین شرما اور ڈاکٹر شرت چندر کی کوششوں سے دونوں مریضوں کو نئی زندگی ملی اور دونوں مریضوں کے خاندان خوش ہیں۔

میرٹھ کے نیوٹیما اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ گردے کی پیوند کاری سویپ طریقہ سے کی گئی تھی۔ گردہ وصول کرنے والے افسر علی اور کڈنی ڈونر اکبر علی، امروہہ کے رہنے والے ہیں، جبکہ دوسرا گردہ لینے والا انکور مہرا اور گردہ عطیہ کرنے والی انیتا مہرا مودی نگر، ضلع غازی آباد کے رہنے والے ہیں۔

دونوں خاندانوں کا تعلق مختلف فرقوں سے ہے لیکن ان تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے خاندان کو گردہ عطیہ کر کے بھائی چارے کی خوبصورت مثال قائم کی ہے۔انھوں نے سماج کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کو پیغام دیدیا ہے کہ ہندواور مسلمان ایک تھے اور ایک رہیں گے۔ مذہب مختلف ہوسکتا ہے کہ مگر انسانیت کا رشتہ اس سے اوپر ہے۔ سبھی ایک آدم کی اولاد ہیں۔

ڈاکٹر سندیپ گرگ نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے دونوں خاندانوں کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ جب مریض کا گردہ مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تب اس کے پاس صرف دو آپشن رہ جاتے ہیں، پہلا مریض کو مسلسل ڈائیلاسز کروانا اور دوسرا گردے کی پیوند کاری کرانا۔ اگر مریض دوسرا آپشن چنتا ہے تو اس کے گھر کا کوئی بھی فرد یا رشتہ دار یا دوست گردہ عطیہ کر سکتا ہے۔ اسے رینل ٹرانسپلانٹ (کڈنی ٹرانسپلانٹ) کہا جاتا ہے۔

رینل ٹرانسپلانٹ کے لیے عطیہ دہندہ (کڈنی ڈونر) کا ہونا ضروری ہے۔ عطیہ کرنے والے کے خون کا گروپ عام طور پر وصول کنندہ (گردے کا عطیہ کرنے والے) کے خون سے مماثل ہونا چاہیے۔ اگر عطیہ کرنے والے اور وصول کرنے والے دونوں کے خون کے گروپ آپس میں مماثل نہ ہوں تو اس صورت حال میں مریض کا سویپ ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔

سویپ ٹرانسپلانٹ میں، عام طور پر دو خاندانوں کے درمیان اعضاء کا تبادلہ کیا جاتا ہے، جو گروپ نہ ملنے کی وجہ سے اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کو اعضاء عطیہ نہیں کر سکتے۔

عطیہ کرنے والے اور وصول کرنے والے کے خون کے گروپ کے میچ نہ ہونے کی صورت میں یا ایچ ایل اے نان آئیڈینٹیکل میچ ہونے کی صورت میں دو یا چار مریضوں کے اہل خانہ کو فون کرکے قواعد کے مطابق ایک خاندان دوسرے خاندان کو گردہ عطیہ کرتا ہے اور دوسرا خاندان، خاندان کے افراد کی باہمی رضامندی سے پہلے خاندان کو گردہ دیتا ہے۔اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔افسرعلی کو انیتا نے گردہ دیا جب کہ انکور کو افسرعلی کے بھائی اکبرعلی نے گردہ دیا۔