عمیر منظر
لکھنؤ ایک شہر نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ادب کا نام ہے۔شعروادب سے ا س کا رشتہ بے حد قدیم ہے۔کتاب کلچر کو جن شہروں نے فروغ دیا ہے اس میں لکھنؤ سر فہرست ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر نے یہاں کے چھاپہ خانوں کے بارے میں اپنے ایک شاگرد کو خط میں لکھا تھا
ہائے لکھنؤ کے چھاپے خانے نے جس کا دیوان چھاپا اس کو آسمان پر چڑھا دیا،حسن خط سے الفاظ کو چمکا دیا
یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔منشی نول کشور سے ان کے تعلق اور دوستی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس پریس سے بہت عمدہ کتابیں شائع ہوتی تھیں۔لکھنؤ میں کتاب کلچر اب بھی زندہ ہے۔ اس کا اندازہ چوتھے گومتی کتاب میلے کے دوران میں ہوا۔چوتھا گومتی کتاب فیسٹول(20تا 28ستمبر 2025)قلب شہر لکھنؤ یونیورسٹی کے کیمپس میں جاری ہے بلکہ اس کا آج اختتامی دن ہے۔لکھنؤ یونی ورسٹی سے متصل ہی عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلمااور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیو رسٹی کا سٹ لائٹ کیمپس بھی ہے۔ ستمبر کے سخت موسم کے باوجود اس بارمیلے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بھیڑ دیکھنے کو ملی اور لوگوں نے کتابوں کی خریداری بھی کی۔واضح رہے کہ اس سے قبل گومتی ریورفرنٹ کے کنارے یہ فیسٹول ہوا کرتا تھا۔کتاب شائقین کووہاں پہنچنے میں یہ سہولت اور آسانی نہیں تھی اور وہ جگہ بھی اس قدر کشادہ بھی نہیں تھی۔جگہ کی تبدیلی کا مجموعی طور پر کیا فائدہ ہوا ہے اس کا اندازہ تو میلے کے اختتام پر منتظمین ہی کرسکیں گے لیکن بادی النظر میں جو کچھ نظر آرہا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ میلہ کام یاب رہا۔حالانکہ اس کا اطلاق کتابوں کے تمام اسٹالوں پر نہیں کیا جاسکتا۔اس کا ایک سبب شدیدگرمی سے راحت کا مناسب انتظام نہ ہونا بھی جس کی وجہ سے عموماً شام میں ہی لوگ میلہ میں آتے تھے۔
.webp)
چوتھے گومتی کتاب فیسٹول میں جس چیز نے لوگوں کو خوش گوار حیرت میں ڈالا وہ ندوۃ العلما کے طلبہ کی کتاب میلے میں سرگرم شرکت تھی۔ششماہی امتحان کی چھٹیوں کے بعد ابھی مدرسہ کھلا تھا جس کی وجہ سے انھیں کیمپس سے باہر نکلنے کی قدرے آزادی تھی جس کا فائدہ انھو ں نے ایک علمی سرگرمی کے طورپر اٹھایا۔سرشام وہ کتاب میلے میں آجاتے اور دیر تک اپنے ذہن و دماغ کو کتابوں کو دیکھ کر،چھو کر اور خرید کر آسودہ کرتے۔اردو کی کتابیں ان کی پہلی پسند ہوا کرتی تھیں لیکن اس کے علاوہ بھی علم و معرفت کی جستجو انھیں مختلف اسٹالوں تک لے جاتی وہ دیر تک کتابیں دیکھتے اور مجموعی فضا کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔یہ لکھنا درست قرار پائے گا کہ اردو کتابوں کے تمام بک اسٹالوں کی رونق انھیں کے دم سے قائم تھی۔کتاب میلے کے منتظمین کو بہر حال ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔سماجی رابطے کے مختلف ذرائع سے اندازہ ہوا کہ ندوۃ العلما کے طلبا کو فکری،نظری،انقلابی اور عربی کتابوں کی تلاش تھی جو ان کے بقول میلے میں عنقا تھیں۔یہ بات تو ہے کہ عالمی کتاب میلے کے علاوہ زیادہ تر کتاب میلوں میں عربی اور اسلامی کتابوں کے اسٹال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ حالانکہ یہ جگہ ایسی ہوتی ہے کہ اس میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔قارئین کے مختلف النوع زمروں کے علاوہ پبلشربھی طرح طرح کے آتے ہیں اور سب کا مقصود منفعت نہیں ہوتاکچھ تو محض اپنے نظریاتی کی تبلیغ کے لیے آتے ہیں۔اس کتاب میلے میں ایک اسٹال’راجہ سوامی ست سنگ بیاس‘کے نام سے بھی تھا۔اردو کی کتابیں دیکھ کر رکے۔کاؤنٹر پر ایک انتہائی خوش اخلاق بزرگ سے ملاقات ہوئی ان کے یہاں سنت کبیر،جلال الدین رومی،بلھے شاہ،سرمد شہید،شاہ لطیف،امرت گیان،آتم گیان اور اس طرح کی بے شمارکتابیں اردومیں موجود تھیں۔زیادہ تر کتابوں کی قیمت بیس روپیہ سے سو روپے کے درمیان تھی۔مزید رعایت الگ سے۔استفسار پر انھوں نے بتایا کہ ہمارا اصل مقصد اپنی بات کو پہنچانا ہے۔کتاب میلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نامک پبلیکشنز،خسرو فاؤنڈیشن،ریختہ،رضا لائبریری رام پوراور نیشنل بک ٹرسٹ پر اردوکی کتابیں موجود تھیں۔
.webp)
کتاب میلے کے چند نمایاں بک اسٹالوں میں نامک پبلیکیشنزکا بک اسٹال تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے یہاں کتابوں کا اسٹاک بہت اچھا تھا۔ایک مہینہ قبل ہی انھوں نے سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے جہاں اپنی آمد کا اعلان کررکھا تھا وہیں اردو کے ریسرچ اسکالرز اور مصنفین سے ان کا رابطہ تھا۔کتاب میلے سے پہلے ہی لکھنؤ کے عام ادبی حلقوں میں نامک کا نام پہنچ چکا تھا۔کتاب میلے میں لکھنؤ کے اردو مصنفین کی کتابیں بھی اسی اسٹال پر تھیں۔ریسرچ اسکالرکو پہلے ہی خصوصی رعایت کا وہ اعلان کرچکے تھے اس کی تیاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اسٹال لکھنؤ اور قرب وجوار کے اردو شائقین کا مرکز بن چکاتھا۔سوشل میڈیا کی سرگرمی کی وجہ سے بعض لوگ محض اس اسٹال کی زیارت کے لیے کتاب میلہ آئے۔بہت سے نوجوانوں نے کتاب میلے کو ایک خوش گوار تجربہ قرار دیا۔انھوں نے کبھی اس طرح کا میلہ نہیں دیکھا تھا۔لکھنؤ یونی ورسٹی کے علاوہ اس کے ملحقہ مختلف کالجوں سے اساتدہ باقاعدہ اپنے شاگردوں کی ٹیم کے ساتھ یہاں آتے اورکتابوں کی خریداری کرتے۔
اس نوع کی سرگرمیاں ایک نئی فضا قائم کرتی ہیں۔کتاب میلے میں بہت سے نوجوان تصوف کے موضوعات پر کتابیں تلاش کررہے تھے جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے لوگوں کے یہاں فطری جذبات کابہاؤ کس قدر ہے۔کتاب میلے میں منتظمین نے ہر روز کسی نہ کسی ثقافتی پروگرام کا اہتمام کیا۔مشاعرہ،کوسی سمیلین،قوالی اور داستان گوئی عمومی دلچسپی کی مظہر ہے اور اس سے لوگ ایک فطری لگاؤ بھی رکھتے ہیں مگر اس کے۔علاوہ بھی دیگر پروگرام میں ہوئے جس میں لوگوں نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔20ستمبر کو میلہ کا افتتاح کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیر اعلی نے کہا تھاکہ ملک کے لوگ جب پڑھیں گے تو ملک بڑھے گا۔میلے کے سات روزگزرجانے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ میلہ تمام عمر کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کررہا ہے۔اسے ثقافت اور تخلیق کے ایک مرکزکے طورپر بھی دیکھاجارہاہے۔بعض حوالوں سے قومی تعلیمی پالیسی 2020کے اہداف کاعکاس قرار دیا جارہا ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ میلہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے لیکن چونکہ یہ پہلا موقع ہوگا جب ستمبرمیں اس قدر گرمی اور تپش رہی جس کے اثرات میلے کے زائرین پر بھی نظرآئے۔ لیکن اس کے باوجود میلے میں تواتر کے ساتھ آنے والوں میں پروفیسر عباس رضا نیر،پروفیسر ریشمار پروین، پروفیسر صالحہ رشید،اویس سنبھلی،ڈ اکٹر جاں نثار عالم ،ڈاکٹر ثروت تقی ،ڈاکٹر منتظرقائمی،راشد خاں،ڈاکٹر حمیرا عالیہ،ڈاکٹر شاہد جمال اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
لکھنؤ میں کتابوں اور کتابوں کی اشاعت کا ہمیشہ سے اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔اس نے ہی کتاب کے تئیں ایک خاص ماحول بھی قائم کیا تھا۔ماضی کا ذکر تو گذشتہ لکھنؤ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔جہاں لکھا ہے:
شاہی زمانے میں فارسی و عربی کی درسی و دینی کتابیں جیسی لکھنو میں چھپ کے تیار ہوئیں، اہل بصیرت کے نزدیک کہیں نہ چھپ سکی ہوں گی۔
میرے والد کے حقیقی چچا مولوی احمد صاحب کو سفر اور تجارت کا بڑا شوق تھا۔ اور اس زمانے میں جب کہ لوگ گھر سے باہر قدم نکالتے ڈرتے تھے، انھوں نے حاجی حرمین شریفین کے ایجنٹ کی حیثیت سے رتھوں اور بیل گاڑیوں پر سوار ہو کے اور ہزاروں کتابیں ساتھ لے کے لکھنو سے راولپنڈی تک سفر کیا تھا۔ ان کا بیان تھا کہ کتابیں اُن دنوں عنقا تھیں۔ یہاں کی مطبوعہ کتابوں کو دیکھ کے لوگوں کی آنکھیں کھل جاتی تھیں اور پروانہ وار گرتے تھے۔ لوگوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ ہم جس شہر یا گاؤں میں پہونچتے ہم سے پہلے ہماری خبر پہنچ چکتی، اور ہمارا داخلہ عجب شان و شوکت سے ہوتا۔ ادھر ہم کسی بستی میں پہنچے ادھر خلقت نے گھیر لیا۔ بھیڑ لگ جاتی تھی، اور ہم جس کتاب کو جس قیمت پر دیتے، لوگ بے عذر لے کے آنکھوں سے لگاتے۔(گذشتہ لکھنؤ۔177)
اس شان اورشوق کی جھلک کم ہی سہی مگر اس میلے میں بھی دیکھی گئی۔ہر طرف کتابوں کی خوشبو۔کاغذوں کی آوازیں اور طرح طرح کے ٹائٹل اور ان کے لکھنے والے کس کو دیکھیں اور کس سے بات کریں لیکن اندازہ ہوا کہ علم و ادب کی کوئی بھی منزل منزل آخر نہیں ہوتی۔