ورزش ایک ، فائدے انیک

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ورزش ایک ، فائدے انیک
ورزش ایک ، فائدے انیک

 

 

آمنہ ماہم

دنیا کی کوئی خوراک اور بہترین ٹانک بھی ورزش کی جگہ نہیں لے سکتی۔ورزش کے دل و دماغ اور پورے جسم پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس آرٹیکل میں ہم ورزش کے وہ سات حیرت انگیز فوائد بیان کریں گے جن پر جدید سائنس اپنی مہرثبت کر چکی ہے۔

ایک دفعہ ورزش سے اکتساب میں بہتری!

ورزش اور دماغ کا گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکھنے کے عمل یعنی اکتساب(لرننگ)کو مضبوط کرتی ہے۔ ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔2019ء میں بھی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی نے ایک تحقیق کے بعد کہا تھا کہ صرف ایک مرتبہ ورزش کے بعد بھی دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس کی وجہ خون کی بہتر فراہمی اور نیورونز کے درمیان بہتر روابط ہوتے ہیں۔ دماغی لچک میں اضافہ ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ورزش سے اعصابی لچک (نیورو پلاسٹی سٹی)میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس کیفیت میں دماغی خلیات(نیورون)کی وائرنگ اور ترتیب بدلتی رہتی ہے۔یہ عمل سیکھنے اور نئے ہنر کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔دماغی لچک کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دماغی لچک بڑھانے کے لئے کونسی ورزش موزوں ترین ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق بائی انٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ (ایچ آئی آئی ٹی)ورزش اگر 20 منٹ تک کی جائے تو اس سے دماغی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورزش دماغی انحطاط کو روکتی ہے ہم جانتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔اگر یہ رفتار معمول سے زائد ہو جائے تو ڈیمشیا،الزائیمر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔

باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچاتی ہے۔ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ورزش کی عادت یادداشت متاثر ہونے کے عمل کو کم کر سکتی ہے۔2019ء میں جامعہ ایکسیٹر کے سائنسدانوں نے دو لاکھ بالغ افراد کا جائزہ لیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورزش سے ڈیمشیا کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہو سکتا ہے خواہ اس کا جینیاتی امکان ہی کیوں نہ موجود ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کو بالکل ترک کیا جائے اور مناسب غذا کھائی جائے۔

دماغی تناؤ بھگائے اور دماغ بڑھائے اگرچہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کو اوائل عمر سے جسمانی مشقت سے گزارا جائے۔

اگر آپ مستقل ذہنی تناؤ سے گزر رہے ہیں تو ایئروبک ورزش اس میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن جامعہ کیلیفورنیا،ریور سائیڈ کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں کو ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود اور ورزش کی عادت ڈالی جائے تو آگے چل کر اس کے بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایسے بچے جوان ہو کر ڈپریشن کے شکار کم کم ہوتے ہیں اور ان کا دماغ بھی وسیع ہو جاتا ہے۔

ورزش نابینا پن کو روکے پوری دنیا میں بڑھاپے کے ساتھ ساتھ اے ایم ڈی(ایچ ریلیٹڈ میکولر ڈیجنریشن) کا مرض عام ہے۔ اس میں بصارت ناقابل تلافی رفتار سے کم ہوتی رہتی ہے اور اندھے پن کی وجہ بھی بنتی ہے۔اس ضمن میں یونیورسٹی آف ورجینیا نے چوہوں کو دو گروہ میں تقسیم کیا۔ایک کو گھومتے پہئے پر ورزش کرائی گئی اور دوسرے کو ایسی کوئی ورزش نہیں کرائی گئی۔

چار ہفتے بعد لیزر سے دونوں گروہوں کی آنکھیں ٹیسٹ کی گئیں۔معلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش آنکھوں کی بصارت کی بہت بڑی محافظ بھی ہے۔

امنیاتی نظام کی مضبوطی اور سرطان سے دوری ورزش جسم کے قدرتی دفاعی(امنیاتی)نظام کو طاقتور بنا کر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتی ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔یہ طے ہو چکا ہے کہ ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹا بولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں جو دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔

سویڈن کے مشہور کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ نے جانوروں پر تجربات کئے اور بتایا کہ ورزش ٹی سیلز کو قوت دے کر کینسر سے لڑنے کے قابل بناتی ہے۔

ورزش اور پیٹ کے مفید بیکٹیریا ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس پورے نظام کو طبی اصطلاح میں مائیکروبائم کہتے ہیں۔ورزش کی عادت جسم میں مائیکروبائم کی مقدار برقرار رکھتی ہے اور ہمارے جسم بیکٹیریا کی تندرست مقدار برقرار رہتی ہے

۔ 2017ء میں جامعہ الینوائے کے ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ورزش سے پیٹ میں تندرست بیکٹیریا کا اضافہ ہوتا ہے۔اس میں انہوں نے چوہوں اور انسانوں پر تجربات کئے۔ورزش سے پہلے اور بعد میں چوہوں کے فضلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ورزش بیکٹیریا کے تناسب کو درست رکھتی ہے۔