کورونا : صحتیاب ہونے کے بعد کسرت ضروری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-05-2021
کسرت کورونا کے بعد سب سے اہم
کسرت کورونا کے بعد سب سے اہم

 

 

 لندن: دنیا بھر میں کورونا نے قہر برپا کر رکھا ہے،بہرحال اس وبا کی زد میں آنے کے بعد جو مریض صحتمند ہورہے ہیں ان کو کسرت کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔میڈیکل ریسرچ کے مطابق کسرت بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں باقاعدہ ورزش اس ہولناک مرض کے کئی حملوں سے بچاسکتی ہے۔ برطانیہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارہیلتھ ریسرچ سے وابستہ لیسیٹر تحقیقی مرکز نے کووڈ19 کے کئی مریضوں کو چھ ہفتے تک ورزش سے گزارا تواس کے حیرت انگیز فوائد دیکھنے میں آئے۔ ورزش کرنے والے افراد نظامِ تنفس کی مضبوطی، تھکاوٹ میں کمی اور دماغی صلاحیت میں بہتری بھی نوٹ کی گئی۔

یہ تحقیق جرنل آف کرونک رسپائریٹری ڈیزیزمیں شائع ہوئی ہے۔ کورونا سے متاثرہونے 30 مریضوں کو کورونا سے صحتیاب ہونے کے بعد ہفتے میں دو مرتبہ ورزش کی کلاسیں دی گئیں اور انہیں ہسپتال میں بلاکر انہیں مختلف ورزشیں کروائی گئیں۔ ان میں ایئروبِک ورزشیں، ٹریڈ مل پر دوڑیں، بازو اور ٹانگوں کی ورزشیں اور دیگر طرح کی ورزشوں سے گزارا جائے گا۔ چھ ہفتے میں تمام شرکا نے ورزش میں بہتری دکھائی اور اسے اسکور کے نمبر دیئے گئے۔ اس طرح تھکاوٹ اور غنودگی میں بہتری ہوئی۔ اس سے قبل اکثر مریضوں میں جسمانی اور نفسیاتی عوارض بھی تھے جو ان کے روزمرہ معمولات کو شدید متاثر کررہے تھے۔

بعض افراد سونگھنے اور چکھنے کی حس کھوچکے تھے اور کئی افراد کو سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہورہی تھی۔ اس گروہ میں مردوزن دونوں شامل تھے جن کی اوسط عمر 58 برس تھی۔ ان کی 87 فیصد تعداد کووڈ 19 کی شکار ہوکر ہسپتال میں داخل تھی۔ اکثرمریضوں نے 10 روز ہسپتال میں گزارے تھے۔ ان میں سے 14 فیصد افراد کو مشینی وینٹی لیشن کے عمل سے گزارا گیا اور کئی افراد آئی سی یو میں بھی رہ چکے تھے۔ ان میں سے چار افراد کو پہلے ہی سانس کا عارضہ مثلاً دمہ وغیرہ لاحق تھا۔ اس ضمن میں لیسیٹر ہسپتال کے فزیوتھراپسٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹروں نے دیکھا کہ کئی مریضوں کو چلنے میں آسانی ہوئی اور دیگر مریضوں کو سانس لینے میں بہت بہتری دیکھی گئی۔ کئی مریضوں کی سمجھ بوجھ اور اکتساب میں بھی بہتری دیکھی گئی۔ اکثر حالات میں جب مریضوں کو ورزش کرائی جاتی ہے تو وہ تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کووڈ مریضوں میں اس طرح کے منفی آثار نہیں دیکھے گئے جو ایک امید افزا بات بھی ہے۔