عید : آ گلے لگ جا سے ۔آن لائن تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-05-2021
ورچوئل عید ملن کی نئی تہذیب
ورچوئل عید ملن کی نئی تہذیب

 

 

 منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ وقت اور حالات نئے طریقوں کی راہ دکھا دیتے ہیں،کورونا کے دور میں بہت کچھ بدلا،سماجی زندگی پر پاور بریک لگ گئے۔اس دوران تہوار بھی آئے جو اسی سماجی فاصلہ کی نذر ہوگئے۔دراصل جو کبھی سوچا نہیں تھا وہ ہورہا ہے۔ عید کے دن کسی سے گلے نہیں مل سکتے، ملاقات نہیں کر سکتے۔کسی کے گھر نہیں جاسکتے۔عجیب و غریب حالات ہیں، یہ کوئی قانون نہیں،ایک پابندی ہے ،احتیاط ہے، جو کورونا کے خلاف جنگ میں ایک ہتھیار ہے۔

 ایسا تجربہ ہمیں ایک سال قبل بھی ہوا تھا اوراب دوسری مرتبہ عید چہاردیواری کے اندر محدود رہے گی۔مثبت بات یہ ہے کہ ٹکنالوجی ہمارے ساتھ ہے۔ دنیا ٹیجٹل ہوچکی ہے اس لئے یہ وبا بھی ہمیں ایک دوسرے کے رو برو ہونے سے نہیں روک سکی ہے۔ اب ’عید ملن‘گھر گھر ہورہا ہے لیکن‘ویٹیو کانفرنسنگ‘ یا ’ آن لائن ورچوئل پارٹیوں‘کی شکل میں ۔عید کی نمازکے بعد گھر گھر ’زوم‘پر محفلیں سجی تھیں اوراس مرتبہ بھی یہی تیاری ہے۔

ان حالات میں خوشی کوئی نہیں منا رہا ہے،لیکن دل بہلانے اور خود کو کورونا کے نفسیاتی اثر سے بچانے کےلئے اس طرح کی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں ۔ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ ’آ گلے لگ جا‘ کہنے کے بجائے’آن لائن ‘ آجاو کہہ رہا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور مجبوری ۔لیکن جو بھی کہیں ٹکنالوجی کی مہربانی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کم سے کم آن لائن ملن میں دیکھ اور سن پا رہے ہیں۔

 دل بہل جاتا ہے

 دہلی کے ذاکر حسین کالج سے سائکولوجی میں گریجوشن کرنے والی ۲۲ سالہ منیرہ کہتی ہیں۔ اس وقت احتیاط کرنی ہے،مجبوری ہے،بات انسانیت کی بقا کی ہے۔ہمارے سامنے ایک راستہ ہے ’زوم‘کا۔ پچھلے سال بھی ہم نے اسی طرح ایک دوسرے سے بات چیت کی تھی۔اس کا دراصل ذہنی تناو دور کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسے ماحول میں خوشی تو کوئی نہیں مناتا۔ ہلکی پھلکی باتیں ہو جاتی ہیں،دل بہل جاتا ہے۔‘‘

جذبہ اور احساس مختلف ہوتا ہے

حضرت نظام الدین میں رہنے والے سعید الدین نے اس کو وقت کی ضرورت کہا۔۲۴سالہ نوجوان کہتےہیں کہ ’’ہمیں ان حالات میں بہت کچھ سیکھنے کومل گیا، بے شک ٹکنالوجی کا دور ہے،اس نے ہمیں کہیں نہ کہیں تنہائی سے بچا لیا ہے۔ پچھلےسال بھی عید کے دن میں نے اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کی تھی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب ہم روایتی انداز میں گلے ملتے ہیں تو اس کا ایک الگ احساس اورجذبہ ہوتا ہے۔مگر اچھے دن واپس لانے کےلئے اس قسم کے سمجھوتہ کرنے میں ہی دانشمندی ہے۔‘‘سعید الدین فوٹو گرافی کے شوقین ہیں انہیں تہواروں میں فوٹو لینے کا بہت جنون ہے ،یہی وجہ ہے کہ دو سال سے عید کی نما ز اور نماز کے بعد گلے ملنے والے مناظر کو کیمرے میں قید نہیں کرسکے ۔

 ایسا اب گھر گھر ہورہا ہے،یہ موبائل کی دین ہے،انٹر نیٹ کا تحفہ ہے۔صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیا بھرمیں یہی ہورہا ہے۔ ابتک تو دوسرے شہروں یا ممالک سے عید پر ویڈیو کانفرنسنگ ہوتی تھی اور کپڑوں سے کھانوں تک بات چیت اور دیدار ہوتا تھا۔

موبائل زندگی ہے

 مجھے ایک ای رکشہ والا ملا،وہ اپنی ای رکشہ میں بیٹھا ویڈیو کال کررہا تھا،میں نے سوال کر لیا کس سے بات ہورہی تھی ؟ تو اس کا جواب تھا کہ گاوں میں بیوی بچوں سے بات کررہا تھا۔ بچے کہہ رہے تھے کہ ’’ابا عید کے دن ویڈیو کال کرئیے گا،ہم موبائل پر ہی گلے مل لیں گے۔‘‘ سلیم نام کے شخص نے کہا کہ بھائی صاحب موبائل حقیقت میں زندگی بن گیا ہے۔ان حالات میں میرے لئے گاوں جانا ممکن نہیں ہے لیکن روز بات کرتا ہوں اور روز بچوں کو بھی دیکھ لیتا ہوں۔اب عید میں بھی بچوں سے بات کروں گا ۔

ٹکنا لوجی خدا کا تحفہ ہے

 پیغام یہی ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی ہوں ہمارے لئے ٹکنا لوجی کسی نعمت سے کم نہیں۔اس کا مثبت استعمال آپ کو ذہنی سکون دے سکتا ہے،تنہائی کو کچھ پلوں کےلئے دور کرسکتا ہے۔ درپیش حالات کو اگر پیش نظر رکھیں تو ہم بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو ویڈیو فون کالز کے ذریعے عید کی مبارکباد دے سکتے ہیں، ایک دوسرے کے کپڑوں کی تعریف کرسکتے ہیں، پکے کھانوں کو دیکھ کر ان کا ذائقہ محسوس کرسکتے ہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر آن لائن ورچوئل پارٹیوں کا انعقاد بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔ آئیے! دیر کس بات کی ہے، ہم اس مرتبہ کورونا وائرس کی موجودگی میں ’ڈیجیٹل عید الفطر‘ پورے جذبے لیکن سادگی کے ساتھ مناتے ہیں اورمہلک وبا کو بتاتے ہیں کہ ہم نے شکست نہیں کھائی ہے اور جب تکوہ نازل رہے گی ، اس وقت تک ہم اس کے ساتھ رہنے کا ’سلیقہ‘ سیکھ رہے ہیں۔