رگھوبیریادو بانسری بجانے میں میرے استاد ہیں: نصیرالدین شاہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2021
نصیر الدین شاہ
نصیر الدین شاہ

 

شکسپیئر کے بہت سے ناٹک بے کار ہیں 

نصیر الدین شاہ ان اداکاروں میں سے ہیں جو اپنی بات اور اپنی رائے بڑی بیباکی سے سامنے رکھتے ہیں مسئلہ چاہے شدت پسندی کے خلاف ہویا مہاجر مزدوروں کا۔ ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کے حامی شاہ نے لاک ڈاؤن کے دوران خود کو علاحدہ کاموں میں مصروف رکھا۔ شکسپیئر کے ڈرامے پڑھنے سے لے کر تھیٹر کی تیاری تک اور آپ بیتی قلم بند کرنے سے لے کر ایک اسکرپٹ لکھنے تک وہ خالی نہیں بیٹھے۔ بہت سارا کام کرتے رہے۔ شاہ کا نیا شغل بانسری سیکھنا ہے جس میں ان کے استاد ہیں دوسرے بڑے اداکار رگھوبیر یادو۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے شاہ کہتے ہیں کہ شاندار ماضی اور وراثت کے باجود اس یونیورسٹی کی ترقی کا راستہ دقیانوسیت نے بہت روکا ہے۔ 

پڑھئے منجیت ٹھاکر کے ساتھ ان کی لمبی بات چیت کی دوسری قسط۔

سوال: کیا ایسا نہیں لگتا کہ جو ہماراصبروتحمل ہے، رس خان، رحیم،کبیر کی جو وراثت ہے، وہی ہمارے اصلی ڈی این اے میں ہیں؟

جواب: یہ تو وقت بتائے گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے ڈی این اے میں ہے اور جو’ہم ہندو،مسلم سکھ عیسائی سب کو میرا سلام‘جیسے گانے گایا کرتے تھے، وہ ڈھکوسلا یا ہیپوکریسی نہیں تھی؟ وہ میسیج دل سے نکلتے تھے تواور سچے تھے۔ کبھی نہ کبھی اس نفرت کا زوال تو ہونا ہی ہے۔ اور وہ اپنے آپ ہی ہوگا۔۔ جیسے ایک سانپ خود کو لپیٹ کر خود کو ہی کھاجاتا ہے، یہ ویسے ہی ہوگا۔

سوال: حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(ورچول) گئے تھے۔ وہاں اس جگہ کو انھوں نے منی ہندوستان کہا تھا، آپ تو وہاں پڑھے ہیں، علی گڑھ کا آپ کا تجربہ کیا رہا تھا؟

جواب: میرے خاندان کی تین پشتیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھی ہوئی تھیں تو مجھے بھی وہیں جانا تھا۔ مجھے علی گڑھ جاکر بہت کچھ حاصل ہوا۔ وہاں مجھے ڈاکٹر مجیب الرحمٰن اور ڈاکٹر زہراء زیدی جیسے دو ایسے استاد ملے جنھوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ جنھوں نے مجھے بھروسہ دلایا کہ اپنی قابلیت پر یقین کرو اور تم نے جو راستہ چنا ہے وہ صحیح ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان سے میری واقفیت ہوئی۔ حالانکہ یہ میری پہلی زبان تھی لیکن انگریزی اسکولوں میں پڑھ کر بالکل بھول گئے تھے۔ اردو سے پھر میرا واسطہ ہوا۔ اس زمانے میں مجھے یہ لگاکہ وہاں ایک تنگ نظریہ پھیلا ہوا ہے۔ حالانکہ علی گڑھ یونیورسٹی سے بڑے عظیم مصنف،افسانہ نگار، فلاسفرس، ہسٹورینس نکلے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان حبیب، شہریار، آل احمدسرورؔ، ڈاکٹر راہی معصوم رضا جیسے لوگوں کی لمبی فہرست ہے۔۔ اور ان سے مجھے متاثر ہونا ہی تھا۔۔ لیکن کئی جگہ ایک بے حد تنگ نظریہ بھی مجھے محسوس ہوا۔ مجھے تھیٹر کا شوق تھالیکن وہاں کے کانسٹی ٹیوشن میں ہی ایک رول ہے کہ لڑکے، لڑکیاں ایک ساتھ اسٹیج پر نہیں آسکتے۔۔ تو ہمیں وہی ڈرامے کرنے پڑے جن میں صرف مرد ہوں۔ کئی بار وہاں پر دنگے بھی ہویے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ وہ دنگے فضول وجوہات سے ہوئے۔ میرے آنے سے ایک سال پہلے وہاں کے وائس چانسلر علی یاور جنگ پرطلبہ نے جان لیوا حملہ کیا تھا۔۔ اور وہ مرتے مرتے بچے۔۔ ایسی باتوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بدنامی ہوگئی تھی۔ حالانکہ یونیورسٹی میں زیادہ تر امن پسند لوگ تھے اور کوشش بہت تھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پروگریسیو اور اڈوانس اسٹڈی کا سنٹر بنانے کی۔۔ لیکن ایک دقیانوسی طبقہ بھی تھا جو اس پروگریس کو روکے ہوئے تھا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ علی گڑھ میں کیا حال ہے۔۔کیونکہ برسوں سے میرا وہاں جانا نہیں ہوا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ مودی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی گئے پر پولس والوں کے طلبہ پر حملے کی برسی کا ذکر یا افسوس ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ جو باتیں انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو سمجھائی ہیں وہ انھیں اترپردیش سرکار کو بھی سمجھانی چاہئے تھیں۔

سوال: آپ نے اس لاک ڈاؤن کے دوران لکھنا شروع کیا ہے اور کافی کچھ تیاری بھی ناٹکوں کی کی ہے۔۔

جواب: مسکراتے ہوئے) ایک تو میں نے اپنی آپ بیتی کی کتاب لکھی تھی جس کا میں نے اردو اور ہندی میں  بھی ترجمہ کیا تھا۔ وہ میری زندگی کے اس دور کی ہے جب میری اور رتنا کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد کشتی آرام سے چلتی رہی۔ کوئی طوفان آیا نہیں زوردار تو۔۔(ہنستے ہیں)ان کے بارے میں لکھنے کا کوئی مطلب مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ اصل میں اس کے بعد کا دور اتنا دلچسپ نہیں تھا۔ اسٹرگل دلچسپ ہوتا ہے۔۔ ہرچیز ٹھیک ٹھاک ہوتو اس میں کوئی دلچسپی کی بات ہوتی نہیں لیکن فلم انڈسٹری اور تھیٹر میں چالیس پینتالیس سال کام کرکے میرے کئی ایسے تجربے رہے ہیں جن کو میں بیان کرنے کے لئے ایک سیریل لکھ رہا ہوں۔ اس میں کئی واقعے جو میرے ساتھ ہوئے ہیں،ان میں تھوڑا سا نمک مرچ لگاکر لیکن اس کی سچائی کو قائم رکھتے ہوئے ان کو شارٹ اسٹوریز کی شکل میں لکھا ہے۔ ایک اسکرپٹ لکھنے کی بھی کوشش کی ہے جو بڑا مشکل کام ہے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ میں نے لاک ڈاؤن میں ”کنگ لیئر“ناٹک پڑھا جس میں وہ کافی بور ہوا اور اس کی شکایت تھی کہ سارے کردار اتنا لمبا بولتے کیوں رہتے ہیں (ہنستے ہیں)پھر میں نے اس کو کہانی وغیرہ بھی سمجھائی لیکن وہ متاثر نہیں ہوا۔۔ کہ بھائی شکسپیئر صاحب ہر ایک کو مار کیوں ڈالتے تھے؟ ہر ناٹک میں دیکھئے چھ لاشیں پڑی ہوئی ہیں،آٹھ لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ تب میں نے اسے بتایا کہ انھوں نے مزاحیہ اور تاریخی ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ شکسپئر کے پینتیس ڈراموں میں سے،میں نے چھ سات پڑھے تھے۔ چار پانچ کے بارے میں جانتا تو تھا پر پڑھے نہیں تھے۔۔ مثلاً ٹیمنگ آف دی شرور۔۔شکسپیئر صاحب کے بائیس، تئیس ایسے ڈرامے تھے جن کے بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ تو ا س لاک ڈاؤن کے دوران میں نے پڑھ ڈالے۔ ان میں سے کئی تو (ہنستے ہیں)بے کار ہیں۔ حیرت ہوتی ہے۔ کہ ان کو اتنا عظیم ڈرامہ نگار کیوں مانا جاتا ہے۔۔ لیکن کیچڑ سے بھی موتی مل ہی جاتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کے بارے میں کہنا ہی کیا؟ (تھوڑا رکتے ہیں) اور بانسری بجانے کی کوشش میں کرتا ہی رہا۔ (ہنستے ہیں)

سوال: اور رگھوبیریادو اس میں آپ کے گرو ہیں؟

جواب: (کھل کر ہنستے ہیں)ہاں۔۔پر بہت وقت لگے گا اس میں ابھی۔ رگھوبیر استاد ہیں اور میں ان کو فون کرکے پوچھتا رہتا ہوں کہ بھائی اب بتاؤ یہ والا سُر کیسے نکلتا ہے۔ اور پھر وہ فون پر مجھے سمجھاتے ہیں۔