اردو صحافت پر سمینار: بچوں کو رسم الخط کے ساتھ اردو سکھائیں۔طارق منصور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-03-2022
اردو صحافت پر سمینار:  بچوں کو رسم الخط کے ساتھ اردو سکھائیں۔طارق منصور
اردو صحافت پر سمینار: بچوں کو رسم الخط کے ساتھ اردو سکھائیں۔طارق منصور

 


علی گڑھ: ہندوستان لسانی تنوع کے معاملہ میں ایک منفرد ملک ہے جہاں بے شمار زبانیں اور بولیاں رائج ہیں جو ملک کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ اردو زبان سبھی کمیون ٹیز کی زبان ہے اور اسے کسی ایک کمیونٹی کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں۔ شمالی ہند میں اردو کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے اور محبان اردو کو چاہئے کہ اپنی مادری زبان کے تحفظ و فروغ کے لئے وہ بچوں کو رسم الخط کے ساتھ اردو سکھائیں“۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیا۔ وہ آج اے ایم یو کے شعبہ لسانیات کی جانب سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے تعاون سے منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ’اردو صحافت: زبان کے بدلتے پس منظر کے حوالہ سے‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔

پروفیسر منصور نے کہا: کمیونٹیز کی زندگیوں میں مادری زبانیں خاص اہمیت رکھتی ہیں، اس لئے اردو بولنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مادری زبان کی ترویج و اشاعت پر توجہ دیں اور بنیادی طور پر اپنے بچوں کو گھروں میں اردو زبان اس کے رسم الخط کے ساتھ ضرور سکھائیں، کیونکہ بچپن میں قائم ہونے والی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ اردو اساتذہ کی تربیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ اے ایم یو میں اردو اکیڈمی کو اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے اسکولوں کے اردو اساتذہ کو تربیت دینے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ لسانیات اور اردو کے شعبے فنڈز اور وسائل کا انتظام کرکے یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔

پروفیسر طارق منصور نے کہا ”ہندوستان میں کچھ زبانیں اور بولیاں ایسی ہیں جنھیں خطرے کا سامنا ہے۔ ایسی زبانوں کے تحفظ کے لئے تحقیق کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لسانی ارتقاء اور چیلنجز کے حوالے سے اردو صحافت پر سیمینار منعقد کرنے پر شعبہ لسانیات کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے آرٹس، سوشل سائنسز، ہیومینٹیز اور لینگویجز کی فیکلٹیز میں روایتی اور مشرقی علوم میں جدید تحقیق اور معیاری تدریس کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اے ایم یو جیسی روایتی یونیورسٹیوں کی بہت اہمیت ہے جہاں ایسے شعبے قائم ہیں اور وہ علمی و تحقیقی معیار مزید بلند کرکے اپنا اختصاص بہتر کرسکتے ہیں۔

قبل ازیں پروفیسر ایم جے وارثی (چیئرمین، شعبہ لسانیات اور سیمینار ڈائریکٹر) نے مہمانوں اور ریسورس پرسنز کا خیرمقدم کیا، اور سیمینار کے موضوع کا تعارف کرایا۔

انھوں نے کہا ”میڈیا اور زبان کا باہمی تعامل لسانی مطالعہ کا کلیدی حوالہ ہے اور اردو صحافتی زبان اور محاورے میں ارتقاء ہوا ہے اور بہت تبدیلیاں آئی ہیں جو ایک فطری لسانی رجحان ہے۔

انہوں نے اردو صحافت کی ترقی میں سرسید احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر اور دیگر کے کارناموں کا ذکر کیا اور قدیم اردو اخبارات جیسے جام جہاں نما وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے لسانی منظر نامے پر سیر حاصل بحث کی۔ انھوں نے کہاکہ زبان کی ماہیت، آغاز و ارتقاء کی جب بات ہوگی تو اردو اخبارات کا ذکر یقینا آئے گا۔ پروفیسر وارثی نے کہا کہ لسانیات کا تعلق زبان و بیان اور تہذیب و تمدن سے بھی ہے۔ لسانی جدت، نحوی اور صرفی قواعد کی پیچیدگیوں کا مطالعہ اخبارات کی زبان کی روشنی میں بآسانی کیا جاسکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہاکہ انسانی ترسیل کے عالمی نظام میں سبھی زبانیں ایک دوسرے سے مربوط ہورہی ہیں اور صحافتی زبان کے تمام پہلوؤں پر تحقیقی نقطہ نظر سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کلیدی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر احتشام اے خان (ڈین، اسکول آف ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد) نے کہا کہ صحافت اور ماس کمیونیکیشن کے طلبہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نیوز اور اسکرپٹ رائٹنگ کی تکنیک سیکھ لیتے ہیں لیکن زبان کو درست یا بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زبان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مواد اور اسکرپٹ رائٹنگ کی تربیت کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ پروفیسر ایس امتیاز حسنین (شعبہ لسانیات، اے ایم یو) نے کچھ مقبول سیریلز کا لسانی تجزیہ پیش کیا، جو انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں اور رشتوں کو ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔انھوں نے سماجی لسانیات کے حوالہ سے سیمینار کے موضوع پر گفتگو کی۔ پروفیسر سید محمد ہاشم (ڈین، فیکلٹی آف آرٹس، اے ایم یو) نے کہا کہ اردو صحافت کی دو سو سالہ تقریبات بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اردو پریس نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور زبان اور ادبیات کووسیع پیمانے پر فروغ دیا ہے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ بچوں کو صحیح تلفظ اور رسم الخط کے ساتھ اردو پڑھائی جانی چاہیے۔

پروفیسر ہاشم نے سید الاخبار سمیت متعدد قدیم اخبارات اور اخبارنویسوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اردو صحافت و ادبیات سے سبھی مذاہب و اقوام کے لوگ جڑے رہے ہیں۔ اس لئے اردو پر کوئی ٹھپا لگانا تنگ نظری کی بات ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ حالیہ دنوں میں سہل پسندی نے اردو زبان کے تلفظ اور املاء کو متاثر کیا ہے، اس کی اصلاح پر توجہ دی جانی چاہئے۔ پروفیسر شبانہ حمید نے این سی پی یو ایل، نئی دہلی کے ڈائرکٹر پروفیسر عقیل احمدکا پیغام پڑھ کر سنایا، جس میں انھوں نے کونسل کے پروگراموں اور اسکیموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور سیمینار کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سیمینار کے آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر صباح الدین احمد نے مہمانوں، ریسورس پرنسز اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ افتتاحی اجلاس میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ دو روزہ قومی سیمینار 6/ مارچ کو اختتام پذیر ہوگا۔