انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے اور انا کو دفن کر دینا چاہیے: ممتاز علی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-02-2022
انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے اور انا کو دفن کر دینا چاہیے: ممتاز علی
انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے اور انا کو دفن کر دینا چاہیے: ممتاز علی

 

 

حیدرآباد:ہر آدمی کو ہمیشہ انسان بنے رہنا چاہیے اور اپنی انانیت کو دفن کردینا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے بارے میں ان کی ظاہری حالت پر رائے قائم نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں جانچنے والی ذات صرف خدا کی ہے۔

پدمابھوشن ایوارڈ یافتہ جناب ممتاز علی، چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے آج پہلی مرتبہ آمد پر منعقدہ استقبالیہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

پروفیسر سید عین الحسن ، وائس چانسلر ، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر ، پروفیسر شیخ اشتیاق احمد، رجسٹرار کے علاوہ ڈینس، ڈائرکٹرس اور مختلف اسکولوں و مراکز کے صلاح کار اور یونیورسٹی آف حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر بی جے راﺅ نے اجلاس میں شرکت کی۔ جبکہ کثیر تعداد میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر پروگرام کا آن لائن مشاہدہ کیا گیا۔

جناب ممتاز علی نے عربی مقولہ کا ذکر کیا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا۔ جناب ممتاز علی نے جو سماجی مصلح اور جہد کار ہیں نے یونیورسٹی کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اگر کسی معاملے میں حکومت سے نمائندگی کی ضرورت ہو تو وہ حاضر ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حصول علم میں طالبات کی خصوصی طور پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے ہندوستانی ورثہ پر مشتمل ادب کی اردو زبان میں منتقلی کا بھی مشورہ دیا۔ چانسلر نے اس موقع پر ایک پودا بھی لگایا۔

اپنے خطبہ استقبالیہ میں پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ جناب ممتاز علی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا تعارف کرانا مشکل امر ہے جو قرآن، انجیل، زبور اور توراة پر گفتگو کر سکتے ہیں اور دوسری طرف وہ ویدوں، اپنشد، پرم سدراس، بھگود گیتا کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔اردو یونیورسٹی خوش قسمت ہے کہ اسے جناب ممتاز علی جیسی روحانی شخصیت کا حامل چانسلر ملا ہے۔ چانسلر صاحب نے بابا فرید الدین، مولانا جلال الدین رومی، امیر خسرو، ملا عبدالرحمن نظامی کی صوفی روایت سے بھی روحانی اکتساب کیا ہے۔ 

awazurdu

پرو وائس چانسلر پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے چانسلر کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جناب ممتاز علی ایک کثیر جہت شخصیت کے مالک ہیں جو ایک سماجی مصلح، عالمی مقرر، مصنف اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔انہوں نے جناب ممتاز علی کے روحانی مشن کے چار نکات بیان کیے جسے ہر انسان کو اپنانا چاہیے۔ ان میں انسانیت کا احترام، فرائض منصبی کی ادائیگی، انانیت سے گریز، صحت اور ماحولیات کا تحفظ شامل ہیں۔ اشتیاق احمد، رجسٹرار نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور اس موقع پر بصیرت افروز پیغام دینے کے لیے چانسلر کا شکریہ ادا کیا۔پروفیسر محمد فریاد، انچارج پبلک ریلیشنز آفیسر و صدر شعبہ ¿ ترسیل عامہ و صحافت نے کاروائی چلائی۔

 جناب ممتاز علی نے اردو یونیورسٹی کی جشن سیمیں تقریبات کا لوگو جسے انسٹرکشنل میڈیا سنٹر نے تیار کیا ہے کا افتتاح بھی انجام دیا۔ پروفیسر عین الحسن اور جناب ممتاز علی نے آئی ایم سی کی تیار کردہ بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلموں ”نوائے سروش - مرزا غالب“ (مرزا غالب - وائس آف اینجل) اور ”ٹرانسفارمنگ انڈیا“ کی ٹیم کو سرٹیفکیٹ پیش کیے۔

 بعد ازاں اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ؛ شعبہ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ، نئی دہلی اور جی ایل اے یونیورسٹی، متھرا کے اشتراک سے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کے موقع پرویبنار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جناب ممتاز علی نے کہا کہ مادری زبان دراصل زبان کی ابتداءہے۔ عالمی یومِ مادر کو ہم عالمی یومِ زبان قرار دے سکتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم و اکتساب تعلیمی میدان میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم اپنی مادری زبان میں ہی سوچتے ہیں۔

 پروفیسر سید عین الحسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 سیکھنے کے وسیع مواقع کے ساتھ اور طلبہ کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہندوستان میں زیادہ تر لوگ دو زبانوں کے ماہر ہیں، اور جو ہماری بات چیت کی زبان ہے وہ ہماری مادری زبان ہونی چاہیے۔

awazurdu

 پروفیسر وریندر کمار ملہوترا، ممبر سکریٹری، انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ (آئی سی ایس ایس آر)، نئی دہلی نے مطلع کیا کہ 270 مادری زبانوں میں سے صرف 47 زبانیں ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے طلبہ کو مضمون سے بہتر آگہی ہوتی ہے اور ان میں نئی زبانیں سیکھنے کے ہنر میں بھی نکھار آتا ہے۔

پروفیسر انوپ کمار گپتا، پرو وائس چانسلر، جی ایل اے یونیورسٹی، متھرا نے کہا کہ کثیر لسانی، کثیر ثقافتی معاشرے ایسی زبانوں میں موجود ہیں جو پائیدار طریقے سے روایتی علم اور ثقافت کی ترجمانی اور تحفظ کرتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی یونیورسٹیوں اور اپنے ممالک میں مادری زبان کے تحفظ کے لیے ایک سنٹر شروع کرنے کے بارے میں غور کرنا چاہیے اور انھیں معدوم ہونے سے روکنا چاہیے۔کنوینر ویبینار، پروفیسر سید امتیاز حسنین، شعبہ لسانیات، اے ایم یو نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر محمد فاروق بخشی، صدر شعبہ ¿ اردو، مانو نے کاروائی چلائی۔ جبکہ پروفیسر شکیل احمد، کنسلٹنٹ، اسکول آف سائنسز نے شکریہ ادا کیا۔