عرس کلیر شریف: سرحد پار کے ہندووں کے لیےپاکستانی زائرین کو گنگا جل ،بھگود گیتا اور رودراکش کے تحائف
روڑکی: صابر مخدوم شاہ کی درگاہ پر755 ویں عرس پر مذہبی رواداری کا ایک انوکھا منظر دیکھنے کو ملا جب پاکستان کے زائرین کا وفد پہنچا تو ان کا شاندار استقبال کے ساتھ ہی پاکستانی یاتریوں کو گنگا جل، بھگود گیتا اور رودراکش مالا تحفے میں پیش کی گئیں ۔جس کا مقصد سرحد پار محبت کا پیغام پہنچانا ہے،مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال قائم کرنا ہے۔زائرین سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ ان تحائف کو اپنے ہندو ہم وطنوں اور مندروں کے حوالے کردیں ۔
یہ پہل اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس کی ہے۔جن کا کہنا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو واسودھیوا کٹمبکم روایت کو مانتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سب کو وطن عزیز کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم پاکستان سے آنے والے زائرین کو محبت کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں گنگا کا پانی اور گیتا تحفے میں دی ہیں تاکہ جب وہ واپس جائیں تو اسے اپنے کےمندروں میں بھیج دیں تاکہ ہندوستان سے محبت کا پیغام وہاں کے مندروں تک بھی پہنچ سکے۔
شاداب شمس نے کہا کہ پاکستانی یاتریوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہماری طرف سے دیا گیا تحفہ وہاں کے مندروں کے حوالے کیا جائے گا۔ وہ اس کی ویڈیو بھی بنا کر بھیجیں گے۔ پاکستانی یاتریوں نے بھی اس تحفے کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جو کچھ بھی ملا ہے، وہ اسے یادگار کے طور پر اپنے ساتھ لے جائیں گے اور ہندو بھائیوں کے حوالے کریں گے۔ سب کو بھائی چارے کا پیغام دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ صابر پاک درگاہ پر آکر مجھے اچھا لگا۔
شاداب شمس نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ وہاں کے مندروں سے جڑیں اور وہاں سناتن کلچر کو بھی فروغ دیا جا سکے، اسی لیے ہم نے یہ اقدام شروع کیا ہے۔ وقف بورڈ کے چیئرمین نے کہا کہ ہم نے درگاہ پر آنے والے 107 پاکستانی زائرین کو گیتا اور گنگا کا پانی تحفے میں دیا ہے
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں زائرین اس میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ ان میں بنگلہ دیش، پاکستان اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کے زائرین شامل ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک سے آنے والے یاتریوں کو گنگا کا پانی اور گیتا پیش کیا گیا ہے۔
وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کو امن کا پیغام دینا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنا چاہیے۔ ایسے میں ورک بورڈ کی جانب سے پاکستان سے آنے والی شاعروں کو گیتا اور گنگا کا پانی پیش کیاگیا۔ 5 دن تک جاری رہنے والے اس میلے میں ملک اور بیرون ملک سے زائرین آتے ہیں۔
شاداب شمس کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت ہر بات کا منہ توڑ جواب دینا جانتی ہے۔ ہم سب وسودھائیو کٹمبکم کی روایت پر عمل کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا ایک ہو اور اس کے لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس بار عرس کے موقع پر پاکستان سے آنے والے تمام پاکستانی زائرین کو گنگا کا پانی اور گیتا کا تحفہ دیا گیا
صابر مخدوم شاہ
صابر مخدوم شاہ کی درگاہ، جو اتراکھنڈ میں پانچویں دھام کے نام سے مشہور ہے، ہریدوار ضلع کے کلیر میں موجود ہے ۔ یہ درگاہ 755 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ درگاہ کی شہرت ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 19/ربیع الاول 592ھ مطابق 22/فروری 1196ء کو بوقتِ تہجد ’’ہرات‘‘ (افغانستان) میں ہوئی تھی
بات اسم گرامی کی کریں تو آپ کا نام سید علی احمد تھا۔جبکہ لقب علاء الدین صابر، بانیِ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ تھا۔سلسلہ نسب کی بات کریں تو وہ اس طرح ہے سید علاء الدین علی احمد صابر بن سید عبدالرحیم بن سید عبدالسلام بن سید سیف الدین بن سید عبد الوہاب بن غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی --- علیہم الرحمۃ والرضوان
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللّٰه علیہ کی ہمشیرہ تھیں، اور سلسلہ نسب امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی ﷲ عنہ تک منتہی ہوتاہے---تذکرہ اولیائے بر صغیر، جلد دوم۔207
آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 19/ربیع الاول 592ھ مطابق 22/فروری 1196ء کو بوقتِ تہجد ’’ہرات‘‘ (افغانستان) میں ہوئی
کہا جاتا ہے کہ بشارت قبل از ولادت آپ کی ولادت سے قبل حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خواب میں ’’علی‘‘ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔ نبیِّ مُکرَّمﷺنے خواب میں تشریف لاکر ’’احمد‘‘ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔ آپ کی ولادت کے بعد ایک بزرگ آپ کے والد گرامی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے، اور آپ کو دیکھ کر فرمایا: ’’یہ بچہ علاءالدین کہلائے گا‘‘۔ آپ کے ماموں حضرت فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ کو ’’صابر‘‘ کا لقب عطاء فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو’’علاء الدین علی احمد صابر‘‘ کے نام سے شہرت ہوئی۔ --- تذکرہ اولیائے پاک وہند: 63---
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں شیخ شیوخُ العالم، زُہدالانبیاء، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرالاقطاب میں ہے کہ بارہ سال تک حضرت شیخ علاء الدین صابر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لشکر اور درویشوں کے لنگر کی خدمات انجام دی، لیکن چونکہ آپ کو کھانا کھانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا بارہسال تک دربار اور لنگر سے کھانا نہیں کھایا اور جنگل کی جڑی بوٹیوں سے گزارہ کرتے رہے۔ بارہ سال بعد حضرت بابا فرید نے وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کیا آپ نے لنگر کی تیاری اور اہتمام کا حکم دیا تھا کھانے کی اجازت تو نہ دی تھی۔ آپ کی اجازت کے بغیر میری کیا مجال تھی کہ مطبخ (باورچی خانہ ) سے ایک دانہ بھی کھاتا، حضرت فریدالدین رحمۃ اللّٰه علیہ نے آپ کے اس صبر کی وجہ سے آپ کو ’’صابر‘‘ کا خطاب دیا۔(خزینۃ الاصفیاء: 153)
حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنجِ شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتےتھےکہ ’’میرے سینے کا علم نظام الدین (محبوبِ الہی) کے پاس ہے، اور میرے دل کا علم علاء الدین (علی احمد صابر) کے پاس ہے۔ (تذکرہ اولیائے پاک و ہند:67/ خزینۃ الاصفیاء:154/اقتباس الانوار: 499)
آپ ایک درویش کی طرح کلیر میں داخل ہوئے تھے۔ نہ آپ نے کسی سے اپنا تعارف کرایا، اور نہ کسی نے ان کی بات پوچھی، اپنے مرشد کی طرح ایک درخت کے نیچے ڈیرہ جما لیا۔ آپ کی خوراک بے نمک ابلے ہوئےگُولڑ تھے۔ قلتِ طعام، قلتِ منام، اور قلتِ صحبت ان کی خصوصیات تھیں۔ لباس میں کرتہ، تہبند، اور عمامے کے علاوہ ایک رومال بھی تھا جو زیبِ گلو رہتا تھا۔آپ13/ ربیع الاول690ھ مطابق 1291ء کو واصل بااللہ ہوئے۔