جب بات سیکولرازم کی آئی تو جاوید اختر نے اپنے انداز میں اس کی وضاحت کی ۔انہوں نے کہا کہ اس کا جواب دینے سے پہلے ایک لطیفہ سناتا ہوں ۔۔۔ دراصل ایک صاحب نےکسی نے پوچھا کہ اپ اپنی جاب سے خوش ہیں ؟ توانہوں نے کہا جی ہاں خوش ہوں۔۔ دوسرا سوال کیا کہ کیا آپ اپنے دوستوں سے خوش ہیں؟ ۔۔۔۔انہوں نے جواب دیا کہ ۔۔۔ جی ہاں خوش ہوں ۔۔۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ مکان لیا ہے اپ کو اچھا لگتا ہے؟۔۔انہوں نے جواب دیا بالکل بہت پسند ہے۔۔۔ انہوں نے پھر دریافت کیا کہ کیا آپ اپنے اپنے بچوں سے خوش ہیں؟ ۔۔۔۔۔ تو جواب ملا کہ جی خوش ہوں۔۔۔۔ سوال پھر ہوا کہ کیا آپ اپنی بیوی سے خوش ہیں؟---- انہوں نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔ دیکھیے خوشی کیا چیز ہے۔۔۔ یہ ایک فلسفہ ہے ۔اسے سمجھنا نا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
بات واضح ہے کہ جب ایک سوال کا جواب دینے میں آپ آنا کانی کریں گے تو ایسے حالات پیدا ہونگے۔ ایسا ہی کچھ سیکولرازم کے معاملہ میں ہوتا ہے ۔اب سب کو یہ پتہ ہے سیکولرزم کیا چیز ہے،ایسا کوئی نہیں ہے جسے نہیں معلوم ۔ بس اسے ماننا نہیں ہے تو کا پھر جائزہ لینے کی تکلیف فرماتے ہیں۔
یہ جو ایٹیٹیوڈ یا رویہ ہے وہ مناسب نہیں ہے۔
اردو اور سیکولرازم
جاوید اختر نے اردو اور سیکولرازم کے موضوع پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ۔۔۔ تو جہاں تک اردو کا تعلق ہے، اردو تو ایک ایسی زبان ہے جسے سیکولر ذہن نے ہی پیدا کیا اور پروان چڑھایا ہے۔ اگر سیکولر نہ ہوتے تو اردو وجود میں نہیں آتی ،اردو کا اصل نام ’ہندوی‘ تھا۔یعنی کہ ہندوستان کی زبان ۔۔۔ انہوں نے کہا کہ آپ جو ’ریختہ‘کا نام سنتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ’ہائی بریڈ‘ ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ چیز سے مل کے جو چیز بنے۔ جو لینگویج ہی ہائی بریڈ ہے وہ اس سیکولر کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ تو بنی اس لیے ہے کہ کچھ لوگ سیکولر تھے۔ ورنہ یہ لینگویج ہی نہیں بنتی۔
اب سوال یہ ہے کہ لینگویج ہوتی کیا ہے؟
پہلے تو ہم اس کو سمجھ لیں ۔ بہت پہلے پلیٹو نے بہت بڑی بڑی باتیں کہی ہیں، بہت اچھی باتیں کہی ہیں،ان میں سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ گفتگو کرنے سے پہلے لفظوں کے معنی طے کر لو، کہیں ایسا تو نہیں کہ میں ایک معنی سمجھ رہا ہوں آپ کچھ اور ۔ زبان کیا اپنی اسکرپٹ ہے، زبان اگر اپنی اسکرپٹ ہے، تو یورپ کی بیشتر لینگویجز لاطین ہیں، اس لیے کہ اسکرپٹ لاطین ہیں ، انگریزی کی اسکرپٹ اوریجنل اسکرپٹ نہیں ہے، فرینچ کے اسکرپٹ اوریجنل اسکرپٹ نہیں ہے، جرمن کی اسکرپٹ اوریجنل اسکپ نہیں ہے، یہ لاطین سے آئی ہے لیکن لینگویج الگ ہے۔۔۔ تو معلوم ہوا کہ اسکرپٹ تو لینگویج نہیں ہے۔
یہاں فلموں کے پوسٹر دیکھتے ہیں۔۔۔کسی کا نام یو سی اے کےہوتا ہے ایچ اے آئی اور کسی کا ڈی ڈی ایل جے۔۔ تو کیا یہ انگریزی ہو گئی ہے۔ نہیں ۔۔۔اسکرپٹ زبان نہیں ہے۔ تو کیا وکیبلری زبان ہے؟
انہوں نے کہا کہ ۔۔۔۔ میں یہ کہوں کہ ۔۔۔۔ یہ گریٹ فیسٹیول ہے۔۔۔ تو میں نے چار لفظ استعمال کیے ہیں۔۔۔۔ یہ فیسٹیول گریٹ ہے۔ ان میں سے دو جو اہم لفظ ہیں، وہ انگریزی میں ہیں۔ فیسٹول اور گریٹ۔۔۔ تو کیا میں انگریزی بول رہا ہوں؟ نہیں! اس لیے کہ ادھر‘ یہ’ لگا ہے اور ادھر‘ ہے’ لگا ہے۔ اس کی وجہ سے انگریزی نہیں تو پھر زبان ہے کیا؟ زبان ہے اس کا سنٹیکس اس کی گرایمر۔۔۔اردوکی بھی گرامر کیا ہے؟ اردو کی گرامر وہی ہے جو ہندی کی ہے۔ان کی گرامرایک ہے۔ ان کے کچھ نہیں تو 75 سے 80 پرسنٹ لفظ بھی ایک ہیں ۔۔۔ مثلا میں آپ سے کہوں، ایک آدمی ہے یو پی کا جو لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتا۔۔۔۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں ۔وہ کہتا ہے مجھے بھوک لگ رہی ہے ،میں گھر جارہا ہوں ۔۔ تم پانی پیو گے ۔۔۔ اب آپ بتائیں کہ یہ کیا بول رہا ہے۔ اگر یہ لکھنا سیکھ گیا تو اگر دائیں سے بائیں لکھے گا تو آپ کہیں گے کہ اردو ہے اور اگر بائیں سے دائیں لکھے گا تو ہندی ہے۔
یہ کہنا کہ یہ ان کی زبان ہے اور وہ ان کی زبان ہے۔ایسا کہنا مناسب نہیں ہے۔اب اگر آپ کہیں انگریزی کرسچن کی زبان ہے، تو ایک بہت عقلمندی کا بیان نہیں ہوگا، انگریزی، انگریزوں کی زبان ہے ۔اسی طرح فارسی کی اس وقت سینٹرل ایشیا اور انڈیا میں بھی وہی پوزیشن تھی جو آج انگریزی کی ہے۔دراصل ہوتا کیا ہےکہ جب سلطنتیں بڑی ہوتی ہیں، جب لوگ کامیاب ہوتے ہیں،ان کی زبانیں بھی اچھی لگنے لگتی ہیں۔
ایک وقت ایسا تھا کہ سارے اکسفورڈ اسٹریٹ پر دکانوں کے بورڈ عربی میں بھی لگے ہوئے تھے، آج امریکہ میں لوگ چائنیز پڑھ رہے ہیں، تو جو کامیاب سوسائٹی ہوتی ہیں۔ان کی زبانیں پھیلتی ہیں جیسے کہ انگریزی پھیلی دنیا میں، سینٹرل ایشیائی باشندوں کی اپنی اپنی زبانیں تھیں۔ لیکن فارسی ان کی سرکاری زبان ہوتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فارسی مغلوں کی مادری زبان نہیں تھی۔ ان سے پہلے بھی جو بادشاہ گزرے ان کی مادری زبان فارسی نہیں تھی۔ پٹھانوں کی زبان بھی نہیں تھی فارسی ۔۔۔لیکن یہ عزت کی بات تھی۔ پیشوا مراٹھے ان کی سرکاری زبان فارسی تھی بات واضح ہے کہ چونکہ یہ اسکرپٹ پاپولر تھی۔اس کی بڑی عزت تھی۔
جاوید اختر کہتے ہیں کہ اردو کا پہلا نام تھا۔۔۔ ہندوی ۔ بعد ازاں دیگر نام آئے جن میں ایک ریختہ ہے ۔اردو ایک ترکی لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر یا فوج ۔۔اب زبان تو فوج یا لشکر نہیں ہوسکتی ہے ۔ اب نام میں تبدیلیاں آتی ہیں اس لئے یہ زبان بن گئی اردو ورنہ اصل نام تھا ہندوی ۔یہ خالص ہندوستانی زبان ہے۔
زبان میں کہاں کہاں سے الفاظ آتے ہیں ،اس کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔اس کی کوئی حد نہیں ۔ ہم لوگ تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم جب بات کر رہے ہوتے ہیں تو ہم کتنی زبانوں کے الفاظ بول رہے ہیں۔ تو اب وہ لفظ جو ہیں کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں کبھی کم ہو جاتے ہیں کبھی کوئی ورڈ جو ہے خارج ہو جاتا ہے۔ کوئی ورڈ نیا آجاتا ہے۔اس کے بھی اپنے سوشل اکنامک اسباب ہیں کہ ورڈ کیوں اندر آ جاتے ہیں اور کیوں باہر چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے، تو یہ جو اس کا بنیادی وجود ہے۔ اس کا جو وجود شروع ہوا ہے، وہی ملا جلا ہے۔ ایک کھڑی بولی بولنے والے لوگ فارسی بول رہے ہیں اور فارسی اسکرپٹ لکھنے والے لوگ کھڑی بولی لے رہے ہیں۔ تو اس کی تو شروعات ہی سیکولر ہے۔
سیکولر کا مطلب کیا ہے
آج کل یہ بہت اہم لفظ ہو گیا ہے۔درحقیت سیکولر کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہی ہم ہیں تو کیا غم ہے ۔۔۔ بھئی آپ میں اتنی صلاحیت اور ابجیکٹیوٹی ہے یا نہیں ہے کہ آپ یہ بھی دیکھ سکیں کہ دوسروں میں بھی کوئی گن ہے۔ ان کی تہذیب میں ان کے کلچر میں، ان کی زبان میں، ان کے ریت رواج میں، یہ خوبصورتی ہے۔ جس کی آپ عزت کریں۔ جس سے آپ محبت کریں یا صرف میں میں اور میں ۔ یہ سیکولر ان کے خلاف ہے۔آپ کی آنکھیں صرف اندر دیکھ سکتی ہیں، باہر نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ یہ ہے سیکولرازم کی کمی۔۔تو سیکولرزم کو برا کہنے کا مطلب کیا ہے؟ اگر غلط اس کا کہیں استعمال ہوا ہے اور ہوا بھی ہے تو اس میں سیکولرازم کا تو قصور نہیں ہے۔ یہ تو غلط استعمال کا قصور ہے۔ وہ کون سی چیز دنیا میں جس کا غلط استعمال نہیں ہوا ۔جس چیز کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوا وہ تو مذہب ہے۔تو بھائی اگر اپ کو غلط استعمال کی وجہ سے کسی چیز کو چھوڑنا ہے تو مذہب چھوڑ دیجیے۔ اب سیکولرازم کو کیوں چھوڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری مادری زبان ہے اردو اور میں اس پر فخر کرتا ہوں ۔دنیا کی ہر زبان مذہبی رسموں سے شروع ہوئی ہے، اس میں اپ کو حمز ملیں گے، اس میں آپ کو دے بھی دیوتاؤں کی تعریف میں یا خدا کی تعریف میں یا پیغمبر کی تعریف میں نغمے ملیں گے ۔شاعری ملے گی جو مندروں مسجدوں درگاہوں، چرچ میں گائی جاتی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے کر کے وہ دوسرے سبجیکٹ میں آئے۔ اردو جو پہلے دن سے سیکولر ہے ۔اس کی شاعری پہلے دن سے دقیانوسی مخالف اور بنیاد پرستی مخالف رویہ کے ساتھ ابھری ہے۔
جاوید اختر نے کہا کہ کہیں کہیں تو یہ ٹھیک ہے یہ ملحدانہ شاعری ہے جہاں سے شروع ہوئی مجھے حیرت ہے کہ ہم لوگ کچھ الٹی طرف جا رہے ہیں جس طرح کی شاعری تین سو یا 400 سال پہلے اردو میں ہوئی ہے۔ آج کوئی اس طرح کی شاعری مشاعرے میں پڑھے تو سامعین اسے اسٹیج سے اتار دیں گے مگر استاد شاعروں نے لکھا
جب جاوید اختر سے اس سلسلے میں کوئی مثال پیش کرنے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔
مرزا محمد رفیع سوداؔ کا شعرہے کہ ۔۔۔۔۔۔
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
انہوں نے کہا کہ ایک بڑا مشہور شعر سنا ہوگا کہ
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدانہ ہو
اب زاہد نے اجازت بھی دے دی کہا جب بھی لو بھیا تم اتنا لوجک دے رہے ہو۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ
کیسے مسجد میں میں پیوں زاہد
ایک بوتل ہے خدا مانگ نہ لے
دیرو حرم ۔۔۔۔ دیر کہتے ہیں مندر کو حرم کہتے ہیں مسجد کو اب آپ شعر سنیے کیا خوبصورت شعر کہا ہے کسی نے۔۔۔
نہیں معلوم ان کو جو ہمیں سمجھانے آئے ہیں
کہ ہم دیر و حرم ہوتے ہوئے میخانے آئے ہیں
جاوید اختر نے کہا کہ آپ دیکھ لیں یہ ایٹیٹیوڈ ہمیشہ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے ماموں بھی بڑے شاعر تھے باپ بھی بڑے شاعر تھے۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ دونوں کو اپنی زندگی میں کفر کے فتوے ملے تھے، یہ ہمارے ہاں اردو شاعری کا یہ رواج ہے اور یہی اس کا ایٹیٹیوڈ رہا ہے لیکن صرف مذہب سے یا مذہبی لوگوں سے یا زاہد اور ملا اور شیخ سے بیداری ہی سیکولر نہیں ہے۔ اس سے اگے ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ ایک ہندو شاعر نے نعت کہی ہے اور مولوی شاعروں نے بھگوان کرشن اور رام پر نظمیں لکھی ہیں ۔ہندو نے علی پر بھی لکھا ہے۔ رسول پر بھی لکھا ہے۔بڑی شان وحدت پہ نظمیں ہیں۔ ہندو شاعروں کی کربلا اور پر لکھا ہے۔ اسی طرح مسلمان شاعروں نے بے پناہ شاعری کی ہے شیو جی،رادھا اور پاروتی جی پر۔ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اردو شاعری کے سبب ایک جین تیوار ہوتا ہے چماولی۔ مجھے وہ نظیراکبر الہ آبادی کی نظم پڑھ کر معلوم ہوا کہ ایسا بھی کوئی تہوار ہوتا ہے۔یہ معافی تلافی کا تہوار ہوتا ہے یعنے ان سے یہ غلطی ہوئی میں انہیں معاف کرتا ہوں۔
نظیر اکبر آبادی نے گرو نانک پر بہت اچھی اور بہت عمدہ نظم لکھی ہے۔ وہ لمبی نظمیں ہیں۔ اس زمانے میں فرصت کا زمانہ تھا، لوگ سنا کرتے تھے۔شاعر بھی جلد ختم نہیں کر سکتے تھے۔
جاوید اختر نے کہا کہ میں سیکولر نعروں سے اگے کی بات کروں گا کہ جو الٹیمیٹ انٹرنلائز سیکولر ہیں، جس میں آدمی ہم ایک ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اور تمہارا بھی مذہب اچھا ہے اور ہمارا بھی مذہب ٹھیک ہے ۔ایسے نعرے ایک ڈرامہ ہے،ظاہری کوشش ہے۔ سیکولرازم اب اس سے اگے جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ ہم کو ماں سے پیار ہے۔۔۔ ہم کو ماں سے پیار۔۔۔۔کا کوئی نعرہ لگاتاہے۔
اردو پر داڑھی لگا کر ٹوپی پہنا دی گئی
جاوید اختر نے کہا کہ آپ دیکھ لیجیے گا تاریخ میں، معلوم کر لیجیے۔۔۔ اس وقت جو عالم تھا اور جو فاضل تھا اس نے کفر کا فتوی دیا ۔1798 میں شاہ عبدالقادر کو جو خود بہت بڑے عالم تھے،انہوں نے قران مجید کا اردو ترجمہ کیا۔تو ان کے خلاف کفر کا فتوی دیدیا گیا تھا اور آسمانی کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنے کی ہمت کیسے کی ۔مگر اب ایک وقت ایسا آیا کہ اسیزبان کے داڑھی لگا کے سر پر ٹوپی پہنا دی گئی کیونکہ اس پر کھپ رہی ہے۔ اسی طرح ہندی ہندوؤں کی زبان بنا دی۔مگر کس ہندو کی؟آپ تمل ناڈو میں جا کے کہہ دیں کہ آپ کی زبان ہندی ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زبان علاقوں کی ہوتی ہے ہندی ہماری زبان ہے،شمالی ہند کے لوگ ہندی بولتے ہیں ۔ اس لیے زبان کے تعلق سے اس غلط فہمی کو دور کرلیں کہ زبان کسی مذہب کی ہوتی ہے بلکہ زبان صرف اور صرف علاقائی ہوتی ہے
ہندوستان ہے یہ۔۔ سنسکار والا
جاوید اختر نے کہا کہ ہندوستان کے سنسکار کوئی مقابلہ نہیں ۔یہ سنسکار فانی نہیں ایسا نہیں ہے کہ ہم نے برے دن نہیں دیکھے ہم نے ‘بڑے بڑے’ برے دن دیکھے ہوں گے۔اس ملک پر اگر اورنگ زیب نے پچاس حکومت کی لیکن کیا کرسکا۔ کچھ بدل سکا کیا؟یہ ہمارے اندر ایک خوبی ہے۔ سنسکار ہیں، ایک تہذیب ہے اور ایک طریقہ ہے۔ جو ہندوستانی ہے وہ چلتا رہتا ہے۔موسم بدلتے رہتے ہیں لیکن وہ نہیں بدلتا ہے۔ہم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان پیدا ہوتے ہیں، انسان مر جاتے ہیں۔مگر ملک وقوم ہمیشہ رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کا کردار کیا ہے؟ اس کا صدیوں کا ہزاروں سال کا جینے کا طریقہ کیا ہے اسے کوئی پچاس سال یا سو سال حکومت کر چکا ہے تو اس نے کیا بگاڑ لیا۔ یہ ہندوستان ہے،اس کے اصول اور سنسکار ہیں ،اسے مغلوں نے بدلا نہ انگریزوں نے ۔نہ کوئی بدل سکتا ہے۔