یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 29-10-2025
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی

 



عمیر منظر 
 
مانو ۔ لکھنو 
 
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک روشن پہلو اس ادارے سے خواتین کی سرگرم وابستگی ہے۔ابتدا سے ہی خواتین اس تحریک اور اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں شامل رہی ہیں۔جہاں ایک طرف جامعہ کو آگے بڑھانے اور اس کےتعلیمی کارواں کو فروغ دینے میں عابدصاحب،مجیب صاحب اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے نامورلوگ شامل تھے تو وہیں بے شمار خواتین بھی تھیں جن کے نام جامعہ کی تاریخ کا روشن حصہ ہیں۔ان میں مس گرڈا فلپس بورن،شاہ جہاں بیگم،بیگم آصفہ مجیب،بیگم صالحہ عابد حسین،نبیلہ بیگم،مشیر فاطمہ،طاہرہ خاتون،جمال فاطمہ وغیرہ کے نام ہمیں ملتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی خواتین ہیں جنھوں نے جامعہ کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کارواں کو آگے بڑھایا۔
یہ خواتین مختلف ثقافتی و تعلیمی تقریبات منعقد کرتی تھیں۔وہ نئی تعلیمی پالیسی، خواتین کے معاشرتی حقوق اور تعلیم میں شمولیت پر بھرپور گفتگو کرتی تھیں۔آصفہ مجیب وغیرہ نے جامعہ کی محدود وسائل میں سادہ اور پرجوش ماحول کو برقرار رکھا، اور طالبات کے لیے خصوصی تعلیمی مواقع فراہم کیے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اصل جذبہ ان خواتین کے عزم و جدوجہد میں نمایاں ہے۔یہ خواتین نہ صرف ادارے کی بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہوئیں بلکہ انہوں نے ہندوستانی مسلم خواتین کے حقوق، تعلیم اور سماجی مساوات کے فروغ کا راستہ بھی ہموار کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام علی گڑھ میں ہوا تھا۔اس کے بعددہلی منتقل ہوئی۔ابتدا میں قرول باغ میں رہی مگر یکم مارچ 1935میں اوکھلا گاؤں میں یہ تعلیمی کارواں خیمہ زن ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے ہندوستان کے نقشے پر جامعہ کے اثرات پھیلتے چلے گئے۔یہ جو موجودہ جامعہ نگر ہے اسی جامعہ کا فیضان ہے۔جامعہ نے خود کو ایک سوسائٹی کے طورپر آگے بڑھا اوراس میں سب کو شامل کیا۔یہی وجہ ہے کہ ابتدئی دور میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ہوتا ہے جو نہ بہت تعلیم یافتہ تھیں اور نہ انھیں اس کاکوئی تجربہ تھا مگر وہ محتلف اندازسے جامعہ کی تعلیمی تحریک کا دست و بازو بن گئیں۔ان سب کو جرمن معلمہ مس گرڈا فلپس بورن سے بڑی تقویت ملی۔خواتین کا پہلا جلسہ مجیب صاحب کے گھر پر ہوا۔یہاں خالدہ ادیب خانم جامعہ کی خواتین سے ملنے آئی تھیں انھوں نے ترجمان کے ذریعہ ان خواتین سے باتیں کیں اور بعد میں ان کا تاثر یہ تھا کہ ہندستانی عورتوں کی جو عمومی تصویر بنائی گئی ہے ان سے گفتگو کرنے کے بعد وہ غلط ثابت ہوئیں۔تعلیم کے تئیں ان کے جذبے اور بے لوث خدمت کا ذکر جس قدر کیاجائے کم ہے۔صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے کہ اسی جلسے میں خالدہ ادیب خانم کے ساتھ پہلی بار تصویر کھینچوائی گئی جو شایدمجیب صاحب کے گھر موجود ہو۔واضح رہے کہ اوکھلا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد خالدہ ادیب خانم کی موجودگی میں رکھا گیا تھا۔اس وقت کا نقشہ صالحہ عابد حسین نے اس طرح کھینچا ہے :
 
ہزاردوں دلی والوں سینکروں جامعہ والوں اور اس کے پرستاروں کے بیچ میں اوکھلا کی بنجر زمین جس کے چاروں طرف اوبڑ کھابڑزمین چھوٹی چھوٹی بجری کی پہاڑیاں اور گڈھے تھے۔ریتیلی زمین خشک جھر بیرے پیڑوں کی جھاڑیوں سے ڈھکی اس بنجر زمین پر جامعہ والے علم و دانش کے گل کھلانے کے عزم کے ساتھ آئے تھے اس مجمع میں خالد ہ ادیب خانم کے علاوہ بیگم محمد علی،اوران کے گھرانے کی عورتیں بیگم مجیب کے ساتھ یہ خاکسار بھی مع نقاب اور برقع کے موجود تھی اور جامعہ کے مستقبل کے خواب دیکھ رہی تھی۔(ہماری جامعہ 195)
 
دھیرے دھیرے جامعہ ایک وسیع خاندان کی صورت اختیار کرتا گیا اور لوگ ایک دوسرے سے قریب ہوتے گئے۔یہی ز مانہ تھا جب جامعہ نگر میں آباد ہونے والوں نے”انجمن خواتین جامعہ“کی بنیاد ڈ الی بیگم مجیب صدر اور صالحہ عابد حسین سکریٹری بنیں۔اس کے ماہانہ جلسے ہوتے۔ایک دوسرے کے گھروں پر عورتیں جمع ہوتیں۔عید،بقرعید،محرم،عید میلاد کے مواقع پر خاص اہتمام کیا جاتااور اس طرح سے مذہب اور ثقافت کے توسط سے گھروں کا سہارا لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلیمی کارواں کو تقویت مل رہی تھی۔جامعہ میں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ خواتین کی ہی کوششوں سے شروع ہوا۔ان کوششوں کو بارآور بنانے والوں میں نمایاں نام مس گرڈا فلپس بورن کا تھا۔ان کو جامعہ کے لوگ آپ جان کہتے تھے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بہت سے مورخوں نے انھیں جامعہ کی خاتون اول بھی لکھا ہے۔ان کا اہم کارنامہ جامعہ کی نرسری اور پرائمری سطح کی تعلیم میں نئے تجربے کا ہے۔بچوں کی تعلیم اور ان کی نگہداشت میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھی اور ان کے لیے کام کرنے کا ایک شوق بھی ان میں تھا۔ان کا تعلق جرمنی کے ایک خوش حال یہودی خاندان سے تھامگر جامعہ میں جس طرح چھوٹے چھوٹے بچوں کی انھو ں نے خدمت کی اور ان کا خیال رکھا اس سے جامعہ کے ہر خاص و عام ان کا گرویدہ ہوگیا تھا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ 1932میں آئیں مگر اس سے پہلے ذاکر صاحب سے ان کی ملاقات جرمنی میں ہوچکی تھی،ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر ہی وہ جامعہ آئیں اور پھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔ابتدا میں زبان نہ جاننے کے سبب ایک طرح کی اجنبیت رہی مگر بہت جلد انھوں نے یہ معرکہ بھی سر کرلیا اوراس طرح وہ طلبہ کی توجہ کا مزید مرکز بن گئیں۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ابتدائی خدمات میں جرمن معلمہ مس گرڈا فلپس بورن  کی شخصیت نمایاں رہی۔ اس کے ابتدائی تعلیمی نظام کی اصلاح و تعمیر میں انھوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے تخلیقی تربیتی پروگرام شروع کے ساتھ خواتین اور بچوں کی تعلیم کے ساتھ صحت عامہ کے لیے بھی کام کیا۔عبدالغفار مدھولی نے ان کے بارے میں لکھا ہے 
 
آپا جان کو بچوں کی خدمت سے مطلب تھاچاہے وہ جرمنی کے ہوں یا ہندوستان کے۔جرمنی میں ایسی عورتوں کی کیا کمی ہے آپ نے سوچا ہندوستان کی عورتیں ابھی بچوں کو پڑھانے کے معاملے میں پیچھے ہیں لہذا ان کے درمیان رہ کر ان بچوں کی خدمت کرنا چاہیے۔ان کے دماغ میں کوئی بات سماجائے کہ یہ کام اس طرح ہونا چاہیے بس اس کے پیچھے پڑجاتیں اور بھوک پیاس کا بھی خیال نہ کرتیں ساتھی کچھ کہیں یہ اپنی ضد پر اڑی رہیں گی۔اگر شہر میں کوئی بیماری پھیل جائے تو ہر وقت اس کی فکر میں لگی رہتیں کہ یہ بیماری ہمارے مدرسے کی طرف رخ نہ کرے۔غرض اپنے خلوص اور جوش کی وجہ سے آپا جان نے بہت کام کیے اور بہت سختیاں اٹھائیں۔(ایک معلم کی کہانی)
 
مس گرڈا فلپس بورن  1895 میں کیل میں پیدا ہوئیں، فلپس بورن نے بطور اوپیرا گلوکار تعلیم اور تربیت حاصل کی تھی۔ برلن میں، اس نے اپنا کنڈرگارٹن شروع کیا اور یہودی لوگوں کے گھر میں کام کیا۔ وہ بین شیمین یوتھ ولیج پروجیکٹ کے لیے فنڈ ریزنگ میں شامل تھی، لازمی فلسطین میں ایک زرعی بورڈنگ اسکول، جہاں وہ 1932 میں پڑھاتی تھیں۔
مس گرڈا فلپس بورن کی1921 میں تین ہندوستانی طلباء، ذاکر حسین، عابد حسین، اور محمد مجیب سے ملاقات ہوئی، جو بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں شمار کیے گئے۔وہ ان سے اس وقت ملیں جب وہ برلن میں زیر تعلیم تھے۔ تینوں نے ان کے ساتھ نوآبادیاتی اثر سے پاک ہندوستان میں ایک تعلیمی ادارہ بنانے کے اپنے وژن کو پیش کیا۔ اس گفتگو نے مس گرڈ فلپس بورن کو گاندھیائی خود کفالت کے نظریات اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں تعلیم کے کردار سے متعارف کرایا۔ یہ تاثر کچھ اس قدر شدید رہا کہ وہ د جنوری 1933 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شامل ہوگئیں۔
جامعہ میں انھوں نے جدید تدریسی طریقے متعارف کروائے جس کا تجربہ انھیں پہلے سے تھا۔یہ سب کچھ انھوں نے جرمنی میں سیکھا تھا۔جامعہ آکر انھوں نے اپنی زندگی ادارے کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر دی۔ان میں بڑی خوبیاں تھیں۔وہ طلبا کی ہمہ وقت تربیت کرتی رہتیں ان کی تخلیقی اور شخصی نشوونما میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ انھوں نے ہی پیامی برادری کا آغاز کیا، ایک تعلیمی سوسائٹی جس نے ملک بھر میں بچوں کی تحریروں اور خط و کتابت کی سہولت فراہم کی۔ انھوں نے فنون اور دستکاری کے ذریعے تخلیقی اظہار کی حوصلہ افزائی کی۔ اس نے بچوں کے ہاسٹل کے وارڈن کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے طلباء کے لیے باقاعدگی سے ہیلتھ چیک اپ اور غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔اسی طرح کی محبت اور بے لوث خدمات کا اظہار وہ جامعہ کے عام کارکنوں کے ساتھ بھی کرتی تھیں۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ وہ جامعہ کی تعلیمی اور ثقافتی زندگی کا ایک سرگرم استعارہ بن چکی تھیں۔جامعہ والے انھیں ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ذاکر صاحب نے اپنی کتاب خطبات ان کے نام معنون کی۔دوسروں کا خیال کرتیں مگر اپنی طرف ان کی توجہ کم رہتی۔دوسروں کے دکھ درد میں اپنی بیماری بھول گئیں۔ان کے آخری ایام کے بارے میں مجیب صاحب نے لکھا ہے۔
 14۔اپریل 1943کو ان کی سانس اکھڑ چکی تھی انھیں دیکھنے کے لیے معمول سے زیادہ لوگ چلے گئے تھے کئی گھنٹے بعد ان کو ہوش آیااور انھوں نے چار پانچ لوگوں کو پلنگ کے گرد کھڑا پایا تو کہنے لگیں کیا آج جامعہ میں قومی ہفتہ کا جلسہ نہ ہوگا۔آپ سب یہاں آگئے ہیں۔ہم نے ان کو یقین دلایا کہ قومی ہفتہ کا جلسہ ایک دن پہلے ہوچکا ہے۔تو انھیں اطمینان ہوا۔انھوں نے مسکرا کر آنکھیں بند کرلیں اسی دن ان کاانتقال ہوگیا اورجامعہ کی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔
جامعہ کی روشن تاریخ میں اس نوع کے بہت سے لازوال کردار ہیں انھیں یاد کرتے رہنا چاہیے۔