شاہ مدارکا روحانی سلسلہ جو انگریزوں کے لئے وبال جان بن گیا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 07-12-2022
شاہ مدارکا روحانی سلسلہ جو انگریزوں کے لئے وبال جان بن گیا
شاہ مدارکا روحانی سلسلہ جو انگریزوں کے لئے وبال جان بن گیا

 

 

عرس بدیع الدین شاہ مدار پر خصوصی تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی

آپ ’مداری‘ کے لفظ سے واقف ہیں؟اس کا مطلب جانتے ہیں؟ جی ہاں!درست سمجھا،وہی ’تماشہ دکھانے والے‘جنھیں آپ نے گلی کوچوں میں کرتب دکھاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ان میں سے بعض کو بندراور بھالو کے کرتب دکھاتے اور نچواتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ اس قسم کے کام کرنے والوں کی ایک برادری بھی بن گئی ہے، جسے ’مداری‘ کہا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ یہ ’مداری‘ کی اصطلاح کہاں سے آئی اور یہ ’مداری‘ کون ہوتے ہیں؟یہی نہیں ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی ان کا خاص کردار رہا ہے۔ مداریوں نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔ اصل میں یہ اترپردیش کے ایک صوفی بزرگ بدیع الدین شاہ مدار کی جانب نسبت ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان کی جانب انہیں منسوب کیوں کیا گیا ہے؟ آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ یہ صوفی بزرگ کون ہیں؟

شاہ مدارکون؟

حضرت بدیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کی قبر اترپردیش کے مکن پور قصبہ میں واقع ہے اور ہجری مہینے جمادی الاول کی 17  تاریخ کو ان کا عرس دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔انہیں شاہ مدار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا لقب قطب المدار بھی ہے۔ وہ ملک شام سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی تھے جو ہندوستان آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ یہاں انہوں نے  مداریہ صوفی سلسلے کی بنیاد رکھی اور عوام میں پیار، محبت ، بھائی چارہ اور یگانگت کا پیغام عام کیا۔ یہی سبب ہے کہ وہ آج بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

awaz

ایک مداری فقیر

کہاں سے آئے تھے شاہ مدار؟

شاہ بدیع الدین کے بارے میں جو جانکاریاں ملی ہیں ان کے مطابق وہ  1315 عیسوی میں شام کے حلب میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 1436 عیسوی میں مکن پور(ضلع کانپور، یوپی)میں ہوا۔ان کے سلسلہ نسب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے  بعض کہتے ہیں کہ وہ  پیغمبراسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے تھے،تو بعض کا خیال ہے کہ وہ صحابیٔ رسول اور سب سے زیادہ حدیثوں کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ نومسلم تھے۔

شاہ بدیع الدین نے مدینہ منورہ کی زیارت کے بعد،توحیدوسلوک کی دعوت کے لئے عزم ہندوستان کیا۔ ملک کے طول وعرض میں سفر کے بعد کانپور کے نواحی قصبہ مکن پور میں قیام کیا۔ یہیں سے اپنے پیغام کو عام کیا اور انتقال کے بعد یہیں دفن ہوئے۔

بادشاہوں کا مرکز عقیدت

ان کا مقبرہ، سلطان ابراہیم شرقی ( 1402-40) کے حکم سے بنایا گیا۔

مغل بادشاہوں کو بھی اس درگاہ سے عقیدت تھی اور انہوں نے اسے جاگیروجائیداد عطیہ کی۔اودھ اور بنگال کے حکمراں بھی ان کی سرپرستی کرتے تھے۔

فقیراورمداری پیروکار

حضرت شاہ مدار کے پیروکاروں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو ننگ دھڑنگ رہتے تھے اور بدن پر راکھ ملتے تھے۔ وہ بھنگ وغیرہ پیتے تھے اور دنیا جہان سے بے نیاز رہتے تھے۔  انہیں ’مداری فقیر‘ کہا جاتا تھا۔ انہیں میں کچھ ایسے بھی تھے جو تماشہ اور کرتب دکھانے لگے،بندراور بھالو نچانے لگے۔ اس طرح ’مداری‘ کا لفظ ان کے لئے مخصوص ہوگیا۔

جنگ آزادی اور مداری فقیر

یہ تاریخ کی دلچسپ حقیقت ہے کہ 1770 کی دہائی اور اس سے قبل ، مداریوں نے اپنی الگ پہچان بنائی، جب وہ منظم ہوئے اور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔

awaz

مجنوں شاہ نام کا ایک فقیر مکن پور میں مقیم مداریوں کا سربراہ تھا۔ اس نے مداری فقیروں کو (جن میں ہندواور مسلمان دونوں ہی شامل تھے) بکسر کی جنگ (1764) میں اودھ فوج کی طرف سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ مجنوں شاہ کی موت کے بعد، اس کے بھتیجے موسیٰ شاہ نے فقیروں کی قیادت کی۔

اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تواحساس ہوتا ہے کہ جناب بدیع الدین شاہ مدار رحمۃ اللہ علیہ کا مداری سلسلہ صرف ایک روحانی تحریک  تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک پر قابض غیرملکیوں کے لئے وبال جان بھی بنا۔