صوفی گیتوں کا مقابلہ ’’ذکر‘‘ ۔ ہندولڑکیوں کے دوگروپ بنے فاتح

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 11-02-2022
صوفی گیتوں کا مقابلہ،ہندولڑکیوں کے گروپ نے جیتا
صوفی گیتوں کا مقابلہ،ہندولڑکیوں کے گروپ نے جیتا

 

 

سمیتا بھٹاچاریہ/ جورہاٹ

گیت اورسنگیت کسی سرحدوسیما کونہیں مانتے۔مذہبی تفریق کی دیوار بھی یہاں بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندو فنکاروں کے دو گروپوں نے ’’ذکر‘‘ گاکر پہلا انعام حاصل کیا۔ واضح ہوکہ ذکر ایک صوفی گیت ہے جو عام طور پردرگاہوں پریا اہل تصوف کی محفلوں میں گایا جاتا ہے۔ حال ہی میں، آسام کے جورہاٹ ضلع میں صوفی گیت وسنگیت کامقابلہ منعقد ہوا۔جس میں بہت سے گروپوں نے حصہ لیا مگراول مقام حاصل کیا، دو ہندو گروپوں نے مشترکہ طور پر۔ ’ذکر‘گانے کے مقابلے میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ اس مقابلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ موسیقی اور گانے کی کوئی مذہبی سرحد نہیں ہےاورایسے مقابلے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرسکتے ہیں۔

 

awazurdu

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا بے مثال نمونہ


شرکا نے کہا کہ آسام عظیم افراد سریمانتا سنکردیوا اور صوفی سنت اذان پیر کی سرزمین ہے۔اذان پیر کو اذان فقیر بھی کہتے ہیں۔ واضح ہوکہ اس مقابلے کا اہتمام پرگتی شیل مہیلاپریشد نے ضلع جورہاٹ کے سنٹرل کلب میں کیا تھا۔ مقابلے میں شامل دو ٹیموں نے ’ذکر‘ گانے کے مقابلےمیں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اتفاق سے ان دو ٹیموں کی ارکان غیرمسلم تھیں۔

دوسری طرف مسلمان لڑکیوں نے ہندوبھکتی گیت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ گانے کی کوشش کی۔ انھیں برگیت کہا جاتا ہے جو سنکاری نو وشنویت ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔ برگیت خدا کی تعریف میں گائے جانے والے گانوں کی ایک صنف ہے۔ اسے سب سے پہلے 15ویں صدی کے مذہبی اور سماجی مصلح سریمانتا سنکردیوا نے لکھا تھا۔

دوسری طرف،آسام میں رائج ’ذکر‘گیت سترھویں صدی کے صوفی بزرگ اور انسان دوست شخص اذان پیر کے لکھے ہوئے گیت ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اذان فقیر بغداد سے آسام آئے تھے اور یہیں مستقل قیام کرلیا تھا۔

awazurdu

۔’’ذکر ’’ میں غیر مسلموں کی کامیابی نے سب کو دنگ کردیا


رولی برٹھاکر اور پرینیتا بروا نیوگر کی قیادت میں ہندولڑکیوں کے گروپ نے حجاب میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ملوالی ہائی اسکول کی ایک استاد رولی برٹھاکر نے کہا کہ ان کی ٹیم 2019 میں منعقدہ ذکر کے مقابلے میں بھی انعام جیتنے میں کامیاب رہی۔

اس سال کے گروپ کی ممبران پرنیتا دیوی بروا، میگھالی دیوی، پری بردالائی، گیتی مالا شرما اور بینا پجاری تھیں۔ "مقابلہ خوشگوار ماحول میں منعقد ہوا۔ پرگتی شیل مہیلاپریشد کی صدر عریسہ بیگم نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ یہاں تک کہ بیگم نے ہندو مسلم اتحاد کے احساس کوجگایا رولی برٹھاکر کہتی ہیں۔

رولی برٹھاکر نے یہ بھی کہا کہ اس سال مقابلہ کرنے والی آٹھ ٹیموں میں سے، انہیں اورپرینیتا بروا کی ٹیم کو مشترکہ طورپرفاتح منتخب کیا گیا ہے۔ نذیرہ کی 'لٹل گرلز ٹیم' دوسرے نمبر پر اور ایک اور ٹیم تیسرے نمبر پر آئی۔ "ہمیں ذکر کے ماہر عظیم الدین احمد نے مدد دی، جنہوں نے ہمیں پریزنٹیشن، کمپوزیشن، تال اور راگ کا فن سکھایا۔

اگر عظیم الدین احمد نہ ہوتے تو ہمارے لیے پہلا انعام حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا،"

رولی برٹھاکر کہتی ہیں۔ پرینیتا بروا، جو خود ایک ریڈیو آرٹسٹ ہیں جنہوں نے گوا میں برگیت اور جدید گانے گائے۔ ذکر کے میدان میں بھی ان کا کافی غلبہ ہے۔ان کا نیوگرڈیہا نامی ایک گروہ ہے۔

awazurdu

صوفی گیتوں کے مقابلے کا منظر


انھوں نے بتایا کہ "جب ہم نے اس مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو میں نے اپنی ٹیم کے اراکین کو ذکر کی تمام پیچیدگیاں سکھائیں۔ اس کی گہرائیوں کو میں نے اپنے کالج کے دنوں میں شیو ساگر میں سیکھے تھے۔ میری ٹیم کے اراکین نے ذکر کے بارے میں بہت جلد جان لیا اور ہم مل کر پہلا انعام جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ تمام پارٹیوں کا خیر مقدم کیا گیا۔ ان کی ٹیم، جولی گوسوامی، موسومی جلی بھونا، مرشانہ چیتیا اور پلوی دتہ پر مشتمل تھی۔ پروگریسیو وومن کونسل کی صدر عریسہ بیگم کا کہنا ہے کہ کونسل نے تقریباً چار سال قبل مقابلہ ذکر شروع کیا تھا۔ یہ مقابلہ روحانی گیتوں کے انداز کو زندہ رکھنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔

اس سال ہم نے اپنے ہندو بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہم آہنگی کے پُل کو مضبوط کرنے کے لیے برگیت کوذکرکے مقابلے میں شامل کیا ہے۔ہم یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہندو بھکتی گیتوں کو ہماری تنظیم کی منصوبہ بندی میں برابر کا مقام حاصل ہے۔

عریسہ بیگم، جورہاٹ مہانگر کبی سمیلن کی صدر اور آسام ساہتیہ سبھا شاعری سنملن 2010 کی نائب صدر ہیں۔ بیگم کہتی ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں خاص طور پر آسام میں کوئی تفریق نہیں ہے۔

دونوں برادریاں امن اور ہم آہنگی سے رہتی ہیں۔ بیگم کہتی ہیں، "ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کی جڑیں اس یقین میں گہری ہیں کہ ہم بغیر کسی مذہبی پابندی کے بھکتی گیت پیش کرتے ہیں۔"