تعلیمی اڑان : سعودی خواتین صحرا سے خلا تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-05-2023
  تعلیمی اڑان  : سعودی خواتین صحرا سے خلا تک
تعلیمی اڑان : سعودی خواتین صحرا سے خلا تک

 

  منصورالدین فریدی

اسلام کا مرکز کہلانے والے سعودی عرب میں 1956 تک خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یعنی صحرا تک محدود تھیں خواتین ۔ مگر اب صورتحال کچھ اور ہے۔ تصویر بدل چکی ہے۔ اب تعلیمی میدان میں خواتین کی پیشقدمی کی رفتار سعودی مردوں کے غلبے کے لیے الٹی گنتی ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔ جس کا سہرا شاہی سوچ میں انقلابی تبدیلی کے سر جاتا ہے لیکن سوچ میں تبدیلی کے بعد جس طرح خواتین نے ان مواقع کو لپکا ہے وہ قابل دید رہا ۔ جس کے سبب آج سعودی خواتین اونٹ کی پیٹھ سے خلا تک پہنچ چکی ہیں ۔

اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں جو تبدیلی آرہی ہے وہ حیران کن نہیں ،یہ عرب کی سرممین ہی تھی جہاں سے خواتین کو حقوق حاصل ہونے شروع ہوئے تھے اور اسلام میں کبھی بھی خواتین کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے سے نہیں روکا تھا۔ پیغمبر اسلام نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ علم حاصل کرو جو  کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے فرض ہے ،اس میں کوئی فرق نہیں ۔آج اگر سعودی عرب میں یہ تبدیلی آرہی ہے تو یہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات  اور روح کو زندہ کرنا ہوگا ۔

آج ہمارے سامنے ایک ایسا سعودی عرب ہے  جہاں آج خواتین مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ ملک کی ایک بڑی ورکنگ فورس کی شکل لے چکی ہیں ۔کیونکہ ایک بدلے ہوئے سعودی عرب میں خواتین کی تعلیم اور کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کردیا گیا ہے ، تعلیمی اداروں میں عدم مساوات کا نیا دور ہے۔ جس نے  جدید سعودی معیشت کے تمام شعبوں میں خواتین کو مزید بااختیار بنانے کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔اب خواتین مجلس شوریٰ کی اراکین ہیں ، اندرون ملک کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ، اقوام متحدہ، بیرون ملک سفارت خانوں، عالمی اداروں اور کھیلوں کی تنظیموں میں نمایاں مقام پر اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہیں ۔

awazurdu

جب مردوں نے اٹھائی آواز

دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں تعلیم سے خواتین کی محرومی کا دور 1950 کی دہائی تک جاری  تھا لیکن جس کا سبب مذہب سے نہیں تھا بلکہ ثقافت تھی۔؎

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ختم ہونا شروع ہوا جب پڑھے لکھے متوسط طبقے کے مردوں کے ایک گروپ نے شاہی خاندان سے لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کرنے کی درخواست کی۔ ان مردوں کا خیال تھا کہ تعلیم یافتہ بیویاں خاندان اور ازدواجی زندگی کو ہم آہنگی کو بہتر طریقے سے بڑھاتی ہیں

 سعودی خاتون اسکالر سارہ یزرائیلی کے مطابق خواتین کے لیے پہلا سرکاری فنڈ سے چلنے والا اسکول 1960 میں کھولا گیا تھا۔ جس کا بہت مثبت اثر نظرآیا،لڑکیاں ان اسکولوں میں داخل ہوئیں، جو دنیا کو دکھانا چاہتی تھیں کہ وہ طویل عرصے سے کسی چیز سے محروم تھیں۔

ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔

  یہ غلط فہمی ہے کہ اسلام عورتوں کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔ درحقیقت اسلامی تعلیمات خواتین کے لیے بہت زیادہ احترام کا اظہار کرتی ہیں۔ تعلیم ہر کسی کو دینی چاہیے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، "ہر مسلمان مرد اور عورت سے علم حاصل کرنے کی درخواست کی جاتی ہے، لہذا تعلیم کی تلاش میں دونوں جنسیں برابر ہیں" (الحریری، 2006، صفحہ 51)

awazurdu

شاہی پہل اور عوامی انقلاب

جو کچھ سعودی عرب اس وقت ہوتا رہا وہ اس کی ثقافتی اسباب تھے جبکہ اس کے خلاف آواز بلند کرنا بھی مشکل تھا۔ لیکن حیران کن بات یہ رہی کہ خواتین کی تعلیم کی راہوں کو کھولنا اور کشادہ کرنے کی پہل ’’شاہی‘‘ رہی ۔

دراصل یہ سہرا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے سر جاتا ہے ۔ جو اس لحاظ سے ایک ترقی پسند رہنما تھے، وہ اپنے پیشروؤں سے مختلف رہے جنہوں نے کبھی بھی خواتین کو اپنے مرد ساتھی کے بغیر گاڑی چلانے یا گھر سے باہر چلنے کی اجازت نہیں دی۔ خواتین کی عملی تعلیم اور تحفظ کی کبھی پرواہ نہیں کی۔

لیکن شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے سعودی معاشرے کے پابندیوں کے رویے کو مؤثر طریقے سے روکا ہے، اور کچھ اہم تبدیلیاں شروع کی ہیں۔

کنگ سعود یونیورسٹی کی ماہر تعلیم اور مشہور حقوق نسواں اسلامی اسکالر، پروفیسر فوزیہ البکر کے مطابق خواتین کی تعلیم سے دوری سعودی عرب کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ترقی سے روک رہی تھی۔ لیکن شاہ عبداللہ نے خود کو ایک انقلابی حکمراں ثابت کیا ۔ دراصل انہوں نے اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ ملک کہاں پچھڑ رہا ہے ۔

وہ کہتی ہیں کہ شاہ عبداللہ کے پاس ایک حکمت عملی تھی ،وہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش میں لگ گئے تھے۔ اس کو خواتین کی تعلیم کے لیے سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ  شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے 24 سرکاری یونیورسٹیاں، 8 نجی یونیورسٹیاں قائم کیں اور سعودی عرب کے اندر 76 شہروں میں کل 494 کالج ہیں۔

  یہاں تک کہ کچھ طلباء کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا ہے۔کنگ عبداللہ سپانسرشپ پروگرام کے ذریعے، جو 2005 میں شروع کیا گیا تھا۔یہ پروگرام جنس سے قطع نظر تمام سعودی طلباء کے لیے دستیاب رہا۔

awazurdu

رنگ لائی پہل

اس شاہی پہل کا زبردست مثبت اثر ہوا جس ملک میں خواتین کے لیے کبھی تعلیم کے دروازے بند تھے اب صورتحال کتنی بدل چکی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کے وزیر برائے انسانی وسائل اور سماجی ترقی کے مطابق 2022 میں سعودی عرب میں خواتین کارکنان کی افرادی قوت میں شرکت 37 فی صد تک پہنچ گئی تھی۔

حقیقت یہی ہے کہ اکیسویں صدی سعودی عرب کی خواتین کیلئے خوشیوں کی صدی بن گئی۔سعودی عرب میں بہت کچھ ایسا ہوا جس کے بارے میں پہلے کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا،جس نے خواتین کیلئے سوغات کی جھڑی لگا دی۔

تعلیم کے لیے جو راہیں کھلیں انہوں نے خواتین کی زندگی بدل دی ۔ جو خواتین چند سال قبل تک چہار دیواری تک محدود تھیں،پابندیوں میں لپٹی زندگی گزار رہی تھیں،دنیا جنہیں ترس بھری نظروں سے دیکھتی تھی،اب ہوا سے باتیں کررہی ہیں بلکہ خلا میں پہنچ رہی ہیں ۔

awazurdu

اب اگر آپ نظر ڈالیں گے تو سعودی عرب کے معاشرے میں خواتین کی حصہ داری ہر شعبہ حیات میں نمایاں طور پر نظر آئے گی ۔ بات صرف تعلیم حاصل کرنے کی نہیں بلکہ اس کے بعد پروفیشنل سفر کی ہے۔ اب سعودی عرب میں تعلیمی اداروں سے خلائی اداروں تک خواتین ہیں۔

یہ تعلیمی انقلاب ہے جس  نے کامیاب خواتین کی قطار لگا دی ۔

پہلی خاتون سفیر شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان

پہلی سعودی خاتون خلا باز: ریانہ ہرناوی

پہلی خاتون ڈائریکٹر جنرل، وزارت خارجہ :احلام بنت عبدالرحمن

پہلی خاتون  نمائندہ ۔ اقوام  متحدہ ۔ شہزادی حیفا آل مقرن

پہلی خاتون  وائس چانسلر۔ لیلک الصفدی  

پہلی خاتون بینک سربراہ:  لبنیٰ ال اولایان

پہلی خاتون ’فٹبال ریفری‘ - شام الغامدی

 پہلی خاتون سربراہ، اسٹاک ایکس چینج :سارہ السحیمی

 پہلی نابینا خاتون وکیل:لیلیٰ قبی

 پہلی خاتون نیوز ریڈر: ویم الدخیل

  کار ریس میں پہلی خاتون:ریما جعفالی

 پہلی خاتون کمرشل پائلٹ : حنادی زکریا الہندی  

 پہلی خاتون ایمبولینس ڈرائیور: سارہ

پہلی خاتون ہیر ڈریسر:  وفا سکر

پہلی پروفیشنل باکسر:رشا خمیس

 پہلی سبزی فروش خاتون:ریم الناصر

 یہ مختصر سی فہرست اس بات کا ثبوت پیش کررہی ہے کہ سعودی خواتین جہاں دیگر تمام شعبوں میں آگے بڑھ رہی ہیں وہیں اندرون و بیرون ملک سیاسی میدان میں بھی کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں ،دراصل شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے مجلس شوریٰ کی تشکیل نو کرکے مملکت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 30 خواتین کا تقرر کیا ۔ اس سے پہلے شاہی فرمان میں مجلس شوریٰ کی 20 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مختص کی گئیں پھر دوسرا شاہی فرمان جاری ہوا اس میں  ان ارکان شوریٰ کے نام تھے جن کی تقرری شاہی فرمان کے ذریعے کی گئی۔   

شاہ سلمان بن عبدالعزیز  کے عہد میں مجلس شوریٰ میں شامل کی گئی سعودی خواتین ملک کے روشن مستقبل کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور ان میں سے چند ایک نے ایوان شوریٰ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس سے مملکت کے نظام کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ 

ان خواتین میں احلام  محمد حکمی، امل سلامہ الشامان، اقبال درندری، دلال بنت مخلد الحربی، حنان عبدالرحیم الاحمدی، حیاۃ سندی، خولۃ بنت سامی الکریع، زینب مثنی ابو طالب، سلوی بنت عبداللہ الھزاع، ثریا عبید، فاطمہ القرنی، فدوی ابو مریفۃ، لطیفہ الشعلان، منی آل مشیط، موضی بنت خالد آل سعوفد، نھاد الجشی، نورۃ بنت عبداللہ بن عدوان اور نورۃ فیصل الشعبان شامل ہیں۔

awazurdu

مثبت تبدیلی ۔ نیا انقلاب

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ریحان اختر قاسمی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں یہ انقلابی تبدیلی ہے جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی ۔ اس  سلسلے میں شاہی خاندان کی پہل اور سوچ کی تعریف کرنا ہوگی جنہوں نے دور اندیشی سے کام لیا ،آج سعودی عرب میں خاص طور پر خواتین ہر میدان میں آگے ہیں ،ورک فورس کا حصہ ہیں ۔ایک مثبت تبدیلی ہے جو سعودی عرب کی مختلف میدانوں میں ترقی کی ضامن بنے گی

 انہوں نے کہا کہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران، تعلیمی اصلاحات مختلف مراحل سے گزری ہیں،  جنہوں نے دنیا کے سامنے سعودی عرب کی ایک بدلی ہوئی تصویر پیش کی ہے ۔اسلام میں خواتین کو تعلیم کا حق  مردوں کے برابر حاصل ہے اب یہی حکمت ترقی کی نئی راہیں کھول رہا ہے۔

سعودی عرب میں تعلیمی میدان میں خواتین کی راہوں کو یقینا شاہ عبدالعزیز نے کشادہ کیا ۔جس نے ملک کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جس کے سبب سعودی خواتین  اب صحرا سے خلا تک کا سفر طے کررہی ہیں۔ یہ ہے بدلا ہوا سعودی عرب ۔ جہاں تعلیم کی اہمیت کو سمجھا گیا اور شاہی خاندان نے لڑکیوں کی راہ سے ان رکاوٹوں کو دور کیا جو کہیں نہ کہیں ان کے مستقبل کو چہار دیواری میں محدود کر رہی تھیں

اسلام اور قرآن کی روشنی میں لڑکیوں کی تعلیم کو آسان بنایا بلکہ عرب معاشرے اور ثقافت کو اس نئی تبدیلی کے تئیں مثبت سوچ پیدا کرنے پر بھی مجبور کردیا ہے۔ ایک مثبت تحریک جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کے لیے کم سے کم تعلیم کے معاملہ میں ایک مثال بن گئی ہے