رفیق الاسلام: کیوں چلا رہے ہیں کم عمری کی شادی کے خلاف بیداری مہم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
رفیق الاسلام: کیوں چلا رہے ہیں کم عمری کی شادی کے خلاف بیداری مہم
رفیق الاسلام: کیوں چلا رہے ہیں کم عمری کی شادی کے خلاف بیداری مہم

 

 

دولت رحمان، گوہاٹی

 کم عمری میں کی گئی شادی اگرچہ غیر قانونی ہے تاہم اب بھی کچھ علاقے ایسے ہیں، جہاں کم عمری میں شادیوں کو رواج ہے، یہ مہلک صورت حال ہے، اس لیے حکومت اور نجی سطح پراس سماجی برائی کے خلاف مسلسل بیداری مہم چلائی جا رہی ہیں، جس کے مثبت نتائج سامنےآرہے ہیں۔

مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے پاس دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست آسام کے مختلف علاقوں میں عام طور پربچپن میں شادی کردی جاتی ہے۔ گورنمنٹ کا اعداد و شمار بتاتا ہے کہ یہاں تین میں سے ایک شادی کم سنی کی شادی ہے۔اگرچہ کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے، تاہم ریاست میں کم عمری کی شادیوں پر نہ تو توجہ دی جاتی ہےاورنہ اس کی اطلاع حکام کو دی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ  اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں قانون کا خوف کم ہے۔

اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ریاست آسام کے ضلع بارپیٹا سےتعلق رکھنے والے رفیق الاسلام نے پیش قدمی کی ہے۔ بارپیٹا کے دیہی علاقوں میں کم عمری یا بچپن میں شادیوں کا عام رواج ہے، کیوں کہ یہاں ​جرائم پیشہ سے وابستہ عناصر اپنے مفاد کے لیے ایسی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

رفیق الاسلام معاشرے کو اس سنگین صورت حال سے نمٹنے کے لیے منفرد خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ 2015 میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، تاہم اس برائی سے نجات دلانے کے لیے انہوں نے نوکری ترک کردی اور علاقے کے نوجوانوں کواس سماجی برائی کے خلاف بیدار کرنا شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نےابتدائی طور پر بارپیٹا کے چائلڈ ہیلپ لائن سے وابستہ ہوا اور کم عمری کی شادی کے خلاف اپنی بیداری مہم کا آغاز کیا۔شروعاتی دنوں میں لوگوں نے میرے کام کا مذاق اُڑایا ، کیوں کہ ان دنوں لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ کم سنی کی شادی کو روکا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کم عمری کی شادی قانونی طور پر جرم کے دائرے میں آتی ہے۔ مگر رفیق الاسلام کی کوششیں رنگ لائی اور آہستہ آہستہ حکومتی سطح سے لے غیر سرکاری تنظیموں تک، سب نےان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کردیا ہے۔ نیز حکام کی جانب سے بھی ان کوحمایت ملنے لگی ہے۔

آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے رفیق الاسلام نےکہا کہ بڑے پیمانے پر بیداری مہم کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں،اس قسم کی شادیوں کے موقع پرمقامی افراد نےپولیس انتظامیہ کو اطلاع دی ہے، جس سے شادی روکی گئی ہے۔انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ابھی اس سماجی لعنت کو ختم کرنے کے لیے زمینی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

awaz

انہوں نے کہا کہ سائنسی اور قانونی نقطہ نظر کی کمی ہونے کی وجہ سے مسلم برادری کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر پسماندہ طبقوں میں کم عمری کی شادی کو اب بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں ایسی صورت ناخواندگی اور غربت کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے، جہاں ایک سے زیادہ بچوں کو پیدائش کو برا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ نیز لڑکیوں کے تعلق سے بے توجہی بھی اس جرم کو مزید بڑھانے کا سبب ہے۔

رفیق الا سلام نے کہا کہ اتنی کوششوں کے باوجود ابھی تک بچوں کی شادی کے بہت کم کیس ہی تھانوں میں درج کیے گئے ہیں، اگرچہ یہ قابلِ سزا جرم ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ بچوں کی شادی کے خلاف قانون سازی یا ایکٹ مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کئے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ  رفیق الاسلام نے یہ بھی الزام لگایا کہ قونون کے ماہرین بھی شادی کی دستاویز پر لڑکے اور لڑکی کی عمر میں اضافہ کرنے کو برا نہیں سمجھتے اور اس طرح سے آسانی شادیاں ہوجاتی ہیں،جو سماج کے لیے ایک لعنت سے کم نہیں ہے۔اس میں شک نہیں کہ قانونی طور پرکم عمری کی شادی قابلِ سزا جرم ہے۔

چائلڈ میرج کی تعریف ایک ایسی شادی کے طور پر پیش کی گئی ہے جہاں دولہا کی عمر21 سال سے کم ہے یا دلہن کی عمر18 سال سے کم ہے۔ کمسنی یا بچپن کی شادی میں ملوث تمام بالغ مردوں کے لئے سزا دو سال کی سخت قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہے۔

اب دوسرے مذہب کی آڑ میں چوری چھپے شادیاں کی جا رہی ہیں جس سے قانونی کارروائی پر کوئی رکاوٹ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس وقت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے جب اس کا رجسٹریشن نہیں ہوتا ہے۔عمر میں ہیرا پھیری کی مثالیں موجود ہیں۔ رفیق الرفیق نے کہا کہ جعلی دستاویز یا عمر کے ثبوت سے اس ناپاک ارادے کی توثیق ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں مزید کئی رکاوٹیں ہیں ،اول تو پروٹیکشن افسر کی بار بار منتقلی یا کمی، انٹیگریٹڈ چائلڈ پروٹیکشن اسکیم کے مطابق ولیج لیول چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیوں کی تشکیل کی عدم تعمیل ایسی خامیاں ہیں جو حکومتی میکانزم کی خامیوں کو اجاگر کرتی ہیں ۔

 چائلڈ میرج کو ایک اہم مسئلہ نہیں سمجھا جاتا حالانکہ اس کے معاشرے پر متعدد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹھوس کوششوں اور خلوص کی کمی کی وجہ سے انتہائی ضروری مضبوط انقلاب کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد ابھی باقی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ دشمنی کے خوف سے پڑوسی بچوں کی شادی کی مخالفت میں آگے نہیں آتے۔ جبکہ پولیس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ایک فاصلہ سے ایسی شادیوں کو روک سکے۔ جب شادی ایک ہی محلے کی جماعتوں کے درمیان ہوتی ہے تو یہ زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ رفیق نے کہا کہ دو فریقوں میں شادی کرنا ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ تفتیش میں مشکل پیش آتی ہے۔

awaz

مختلف رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے رفیق النے اب تک اضلاع میں 2000 بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لئے براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ اس طرح کی شادیاں روک کر رفیق نے نئی دشمنی پیدا کی ہیں ،لوگ ان سے ناراض رہتے ہیں۔پولیس اکثر اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ دور دراز اور مشکل علاقوں میں اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے محتاط اور احتیاط برتیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ مجھے ڈر نہیں ہے،میں چائلڈ میرج کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھوں گا۔ رفیق انسانی حقوق کی ایک قومی تنظیم انڈیپینڈنٹ کے ساتھ جڑے ہیں جو بچوں کے حقوق کے ساتھ مساوات، انصاف اور باہمی احترام کی طرف کام کر رہی ہے۔

رفیق کہا کہ اگر میری بیداری اور مہم میری زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔بہرحال وہ جانتے ہیں کہ آسام میں چائلڈ میرج کے خلاف مہم نے اب ہر کسی کی توجہ حاصل کرلی ہے اور ان کے کام کو سراہا جارہا ہے۔ وقت کی ضرورت ضلعی انتظامیہ، پولیس، ڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ، گاؤں مکھیا، ولیج ڈیفنس پارٹی آرگنائزیشن اور دیگر ذمہ داروں کے درمیان تال میل مزید بہتر بنیا جائے۔کام میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔