ڈاکٹر عمیر منظر
ایسوسی ایٹ پروفیسر/مانو لکھنؤ کیمپس
ایسے زمانے میں جبکہ ہر طرف ٹکنالوجی کا دور دورہ ہو۔مشین اور مشینی زندگی آئیڈل بن جائے،لینگویج سے زیادہ باڈی لینگویج کو اہمیت حاصل ہوجائے توکسی بھی زبان کے جاننے اور ماننے والوں کے لیے اس سے بڑا امتحان اور کیا ہوسکتا ہے۔ہم زبانوں،تہذیبوں، مذہبوں اور موسموں کے گہوارے میں رہتے ہیں۔لیکن اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا جب کوئی زبان اپنے ہی سماج میں اجنبی بن کر رہ جائے۔حالانکہ اس سے کس کو انکار ہے کہ اگر کوئی ز بان یا کسی زبان کا کوئی حرف یا لفظ ختم ہوتا ہے توایک تہذیب اور ثقافت کم ہوتی ہے۔ہم نہ جانے کتنے الفاظ کم کرچکے ہیں۔شاید اب اس سماج کو اپنی گم ہوتی تہذیب کا احساس ہی نہیں ہے۔
اردو زبان کی پیدائش اور اس کے آغاز سے متعلق بہت سارے اختلافات رہے ہیں۔مگر ادبی محققین اور ماہرین لسانیات نے اسے ہندستانی زبان قرار دیا اور یہ کہ اردو یہیں پروان چڑھی اور پلی بڑھی۔ اردو زبان کہا ں پیدا ہوئی اس کے بارے میں کسی نے سندھ،کسی نے پنجاب تو کسی نے دکن کا نظریہ پیش کیا۔یہ بھی کہا گیا کہ اردو برج بھاشاسے پیدا ہوئی ہے۔البتہ ۸۴۹۱ میں پروفیسر مسعود حسین خاں نے لسانی بنیادوں پر یہ ثابت کیا کہ اردو کی بنیاد نواح دہلی کی بولیوں پر ہے۔ان کا خیال تھا کہ دہلی شہر چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے یعنی کھڑی بولی،برج بھاشا،ہریانی اور میواتی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قدیم اردو کی تشکیل میں ہریانوی زبان کا اہم کردار ہے جبکہ کھڑی بولی نے جدید اردو کا ڈول تیارکیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برج بھاشا نے اردو کے معیاری لب و لہجے کی تشکیل میں مدد کی۔اور اس طرح تقریباً سات دہائی قبل نواح دہلی کی بولیوں کو اردو کا اصل سرچشمہ قرار دینے کا جو دعوی کیا گیا تھا وہ اب بھی برقرا ر ہے۔ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ”ہم جس زبان کو آج اردو کے نام سے جانتے ہیں پرانے زمانے میں اسی ز بان کو ہند وی،ہندی،دہلوی،گجری،دکنی اور ریختہ کہا گیا ہے“۔چونکہ اس زبان کا تعلق ملک کے کسی ایک خطے سے نہیں تھا اس لیے اس کے پڑھنے اور بولنے والوں کا تعلق بھی پورے ملک سے تھا۔ اس میں کسی فرقے یا مذہب کی کوئی قید نہیں تھی۔
زبان کے مسائل دوطرح کے ہوسکتے ہیں۔ایک خارجی اور دوسرا داخلی۔داخلی مسئلے کا تعلق زبان کی ساخت،گرامر اور دیگر لغوی و نحوی معاملات سے ہوتا ہے۔لیکن یہ امور زبان اور اس کے تخلیقی سرمایہ کی روز افزوں ترقی سے کم ہوتے جاتے ہیں۔لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان کا معاملہ ریاضی یا سائنس کی طرح کا نہیں ہوتا، اس میں کچھ نہ کچھ ضرور داخلی مسائل ہوتے ہیں اور یہ بسااوقات اس زبان کا حسن بھی بن جاتے ہیں۔البتہ اصل مسئلہ خارجی اور بیرونی ہوتا ہے۔اردو کے بیشتر مسائل خارجی سطح کے ہیں لیکن خارجی ہونے کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ ان کو حل نہیں کیا جاسکتا۔البتہ ان خارجی مسائل نے آج اردوزبان کو قدرے کمزور کردیا ہے۔
زبان سے ہماری محبت اور تعلق ہی اس کے فروغ اور توسیع کاسبب بنتاہے۔ایک نسل سے دوسری نسل تک زبان پہنچتی ہے۔اردو زبان سے ہم اپنا تعلق تو ظاہر کرتے اور اس کے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر ہماری روزہ مرہ کی زندگی میں زبان سے وہ تعلق نظر نہیں آتا،جس کوکہ نظر آنا چاہیے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بیشتر لوگ اردو سے زبانی محبت کا دم بھرتے ہیں۔وہ کہتے تو ہیں کہ اردو ہماری زبان ہے اور ہم کو اس سے تعلق ہے مگران کی عملی زندگی میں یہ زبان کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ آبادیاں جن میں اس زبان کے بولنے والے زیادہ ہیں ان محلوں اور پاس پڑوس کی دکانوں پر اردو سے زیادہ دوسری زبان کے بورڈ اور بینرآویزاں نظر آتے ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم جس زبان سے محبت کرتے ہیں اس کا موقع بہ موقع اظہار تو کرتے ہیں مگر زمینی سطح پر اس کے مظاہر کم نظرآتے ہیں۔یہاں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اردو زبان سے ہمارا تعلق چند رسمیات تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔
اسی تناظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اردو کے نام پر ہم خرچ کتنا کرتے ہیں۔ہمارے گھروں میں اردو کے رسائل،اخبارات اور کتابیں کتنی ہیں۔بالعموم اردو کے گھرانے ہی اب اردو کے نام پر کوئی رقم خرچ نہیں کرتے۔ان کے پاس یومیہ،ہفتہ وار،ماہانہ یا سالامہ ایسا کوئی منصوبہ ہی نہیں کہ وہ اس زبان پر کچھ خرچ کر سکیں۔اس کی وجہ سے متعدد نقصانات سامنے آرہے ہیں۔اردو اخبارات اور کتابوں کی خریداری کم ہوتی جارہی ہے اور جولوگ اس کاروبار میں لگے ہوئے ہیں قوت خرید نہ ہونے سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔اردو کے مصنفین بھی اس رویے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہورے ہیں۔کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کی کتابیں کون خریدے گا۔اردو کے بڑے اشاعتی گھر بھی بدحالی کا شکار ہیں۔آج بالعموم اردو کی کتابیں تین سے پانچ سو کے درمیان شائع ہوتی ہیں اور کم ہی کتابوں کے دوسرے ایڈیشن کی نوبت آتی ہے۔اس طرح کے رویوں سے ہی مایوسی اور کمتری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان فکر وخیال کی ختم ہوتی وہ رو ہے جو بڑے تخلیقی ذہنوں کو پیدا کرتی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ اردو معاشرہ ہی جب اردو کے لیے سرمایہ نہیں لگائے گا تو آخر کون اس طرف آئے گا۔ہمیں غالباً یہ یاد نہیں کہ مارکیٹ عوامی دباؤ کی غماز ہوتی ہیں۔آزادی سے پہلے بھی اردو کبھی سرکاری زبان نہیں رہی مگر قلعہ معلی میں اس کا داخلہ عوامی دباؤ کا ہی نتیجہ تھا۔اس اہم نکتے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
ذاتی لائبریریوں کا جو ملک کے طول و عرض میں سلسلہ تھا وہ تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اب اردو معاشرہ میں کتابیں خریدنے کا رواج نہیں رہا۔ یہ اردو کا ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
اردو زبان کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اردوواساتدہ کے گھروں سے ہی یہ زبان ختم ہورہی ہے اور یہ سب سے بھیانک مسئلہ ہے۔وہ جولوگ جو اردو زبان کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں چاہے وہ اسکولی سطح پر ہوں یا اعلی تعلیمی اداروں میں، سب کا رویہ یکساں ہے کہ ان کے بچے اردو کے بجائے انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اردو میڈیم اسکولوں کے نہ ہونے کا سبب یہ بھی ہے کہ اب اس میڈیم سے تعلیم دلانے کو لوگ وقت کا زیاں تصور کرتے ہیں۔کچھ امیدیں اردو کے اساتذہ سے تھیں مگر ان کا رویہ بھی عام عوام جیسا ہے۔ وہ لوگ جو اردو پڑھانے پر مامور ہیں ان کے یہاں بھی اردو کا حال بہت خراب ہے۔انگریزی میڈم کا جادو اس قدر سرچڑھ کر بول رہا ہے کہ ہم خود اپنی زبان کو نظر انداز کررہے ہیں حالانکہ مادری زبان کی اہمیت سے کس کو انکار ہے۔ضرورت ایسی پالیسی وضع کرنے کی ہے کہ کم از کم ابتدائی سطح پر اردو کی تعلیم بچے کو ضرور دی جائے۔
ہندستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہی یہاں جو مختلف طرح کے تنازعے کھڑے کیے گئے اس میں ایک لسانی تنازع بھی تھا۔آزادی کے بعدیہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اردو نے ملک کو تقسیم کروایا جب کہ اتنی بات ہم سب جانتے ہیں کہ زبان کو نہ کسی ملک کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی مذہب کی البتہ مذہب اور ملک کو زبان کے بغیر نہیں چلایاجا سکتا۔یہ اسی پروپیگنڈے کا اثر تھا کہ آزادی کے بعد رفتہ رفتہ اردو کا دائرہ سمٹتا گیا۔دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے بھی اردو زبان کا دائرہ نہ صرف سمٹتاگیا بلکہ جب جاب اورینٹیڈ کورسز کی تلاش شروع ہوئی تو اردو اس سے رفتہ رفتہ باہر ہوتی چلی گئی۔
انگریزی نے جس لسانی تعصب کی بنیاد ڈالی تھی وہ آزادی کے بعد بعض طالع آزما سیاسی رہ نماؤں کی وجہ سے اور پروان چڑھی اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے معاشرہ میں اردو سے تعصب کی فضا قائم ہوگئی۔اسی تعصب کا نتیجہ ہے کہ بہت سے لوگ اردو کو غیر ملکی زبان کہتے ہیں یا پھر اسے صرف کسی ایک فرقے کی زبان بناتے ہیں۔اس کا اثر یہ ہوا کہ اردو زبان تعصب کا شکار ہوگئی اور کہیں نہ کہیں اردو والے بھی اس کی زد میں آگئے۔حالانکہ یہ بالکل بتانے کی بالکل ضرورت نہیں کہ اردو کے فروغ اور ارتقا میں کسی ایک فرقے یا مذہب کا حصہ نہیں۔تاریخ کے صفحات دیکھیں تو اردو شاعری کی نہیں بلکہ علوم کی زبان نہیں ہے اور رڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے اردو میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی انھیں اس پر فخر بھی تھا اور وہ آخر تک اردو کے لیے سرگرم عمل رہے۔کلدیب نیر نے اردوصحافت سے اپنی صحافتی زندگی شروع کی تھی۔حسن کاظمی نے کیا خوب کہا ہے:
ظلم اردو پہ بھی ہوتا ہے اور اس نسبت سے
لوگ اردو کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ ز بان کے محاذ پر جس طرح کام کرنے کی ضرورت تھی وہ بدقسمتی سے نہیں ہوسکی۔اور ابھی تک جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ اپنی جگہ مگر آزاد ہند کی نصف صدی سے زائد کی مدت میں وہ نسل بھی تقریباً ختم ہورہی ہے جو اُس طرف سے آئی تھی اور اپنے ساتھ اردو زبان،شاعری اور اردو تہذیب لائی تھی۔دلی اور اطراف دلی میں بے شمار ایسے گھرانے آباد تھے جن میں اردو زبان کے شاعر،ادیب اور تخلیق کار تھے۔ان کی وجہ سے ان گھروں میں بھی اردو کی آمد و رفت تھی جو ان کے جانے کے ساتھ ہی ختم ہوچکی ہے۔یہ ہمارا بہت بڑا زیاں بھی ہے اور مسئلہ بھی کہ دلی اور اطراف دلی کے بے شمار گھر اردو سے خالی ہوگئے۔راجیندر منچندا بانی،راج نرائن راز،کنور سین،گوپال متل رام پرکاش راہی وغیرہ کا نام اس میں لیا جاسکتا ہے۔یہ صورت حال ہریانہ اور ملک کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی ہے جہاں آزادی کے بعد ترک وطن کرکے آنے والوں نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔
ہم جس زبان کو گنگاجمنی کہتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ یہ کسی ایک فرقے یا مذہب کی زبان نہیں اس کا دائرہ رفتہ رفتہ سمٹتا جارہاہے۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ چند برسوں کے دوران اردو غزل کے توسط سے جو نئی نسل سامنے آئی ہے اس میں بہت سے ایسے شعرا ہیں جن کی شاعری امکانات سے لبریز ہے مگر اندیشہ یہ سامناآرہاہے کہ یہ اردو میں شاعری تو ضرور کررہے ہیں مگر اردو رسم الخط سے ان کی بہت زیادہ واقفیت نہیں ہے۔اردو زبان کے ان مسائل کا تعلق زمینی اور بنیادی سطح کا ہے۔ا س سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ان مسائل سے نمٹنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے اردو معاشرہ کو ہی سامنے آنا ہوگا۔اردو معاشرہ کو بنیادی کوششوں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اردو زبان،ادب اور شاعری کی جو بھی سرگرمیاں جاری ہیں ان میں سے ایک بڑا حصہ حکومتی امداد کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ سمیناروں اور ادبی مذاکروں میں ریاستی اردو اکیڈمیوں کا مالی اشراک بھی ہوتا ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کی وجہ سے بھی اردو کی سرگرمیوں کا قومی دائرہ بنتا ہے جوبہت قابل قدر ہے۔