پاکستان:پانچ ہزار سال قدیم کٹاس راج مندر، ہندوستانیوں کے لئے اہم کیوں؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 04-05-2023
پاکستان:پانچ ہزار سال قدیم کٹاس راج مندر، ہندوستانیوں کے لئے اہم کیوں؟
پاکستان:پانچ ہزار سال قدیم کٹاس راج مندر، ہندوستانیوں کے لئے اہم کیوں؟

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

 پاکستان کے سابق کرکٹر شعیب اختر، کا کٹاس راج مندر کے بارے میں کہنا ہے کہ 'کلار کہار کی کہانی ہے، یہاں مہاراجہ شیو رہتے تھے اور ان کی رام چندر سے لڑائی ہوئی تھی جس میں وہ جیت گئے تھے۔ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے بہت خاص ہے۔ شیوجی  کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد بھگوان شیو بہت غمگین ہوئے اور اس قدر روئے کہ ان کے رونے سے ایک جھیل بن گئی۔اس جھیل کو آنسوؤں کی جھیل کہتے ہیں۔ ہمارے ہندو دوست یہاں آکر غسل کرتے ہیں اور گناہوں کو دھوتے ہیں۔ اس جگہ شیو اپنی اہلیہ کے لیے بہت روئے، شعیب اختر نے یہ بھی کہا- 'میں آپ کو پاکستان کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ یہ ملک کتنا خوبصورت ہے۔ آپ کو یہاں ایک بار ضرور آنا چاہیے۔ یہ بہت محفوظ ہے، آپ یہاں آنا پسند کریں گے۔‘ شعیب کی ویڈیویوٹیوب پر موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کو کٹاس راج مندر کے بارے میں تب پتہ چلا جب شعیب کا بیان سامنے آیا۔ حالانکہ ہندوستان سے بڑی تعداد میں لوگ کٹاس راج مندر کے درشن کے لئے ہرسال پاکستان جاتے ہیں۔

برصغیرہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ کا خطہ قدیم تاریخی علاقہ ہے۔ یہ انسانی تہذیب کے ارتقا کا گواہ ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب اپنی قدامت اور دوسری خصوصیات کے لئے ماہرین کی توجہ ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔ یہ دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ شمال مشرقی افغانستان سے پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس تہذیب کی جھلک پاکستان میں واقع کچھ ہندو مندروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور کٹاس راج مندر تو اس پہلو سے خاص ہے۔ جی ہاں، پاکستان میں واقع ایک ہندو مندر مبینہ طور پر5000 سال پرانا ہے۔

awaz

بھگوان شیو کے لیے وقف یہ مندر مہابھارت دور کا بتایا جاتا ہے۔ کٹاس راج مندر پاکستان کے ضلع چکوال سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کمپلیکس میں سات یا اس سے زیادہ مندر ہیں، جنہیں ستگرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مندر کی تاریخ بھولے ناتھ کے آنسوؤں اور مہابھارت میں پانڈووں کی جلاوطنی سے متعلق ہے۔

کٹاس راج مندر دنیا بھر کے ہندوؤں کے لیے بہت اہم مقام ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ جس تالاب کے ارد گرد کٹاس مندر بنایا گیا ہے وہ بھگوان شیو کے آنسوؤں سے بھرا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوان شیو اپنی پتنی ستی کے ساتھ یہاں رہتے تھے۔ ان کی موت کے بعد، غم زدہ شیو اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکے۔ وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے دو تالاب بن گئے۔ ایک کٹاس راج میں ہے، اور دوسرا راجستھان کے پشکر میں ہے۔ مندر میں واقع اس کنڈ کو کٹکشا کنڈا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تالاب اور مندر کا نام بھی اس لفظ سے لیا گیا ہے جو ان کے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔ کٹاس کا مطلب ہے آنکھوں میں آنسو۔

ایک اور روایت کے مطابق، کٹاس راج وہ جگہ ہے جہاں پانڈو بھائیوں نے اپنے 12 سال کی جلاوطنی کے دوران زندگی گزاری تھی۔ جنگلوں میں گھومتے پھرتے جب پانڈووں کو پیاس لگی تو ان میں سے ایک کٹکشا کنڈ میں پانی لینے آیا۔ اس وقت اس کنڈ پر یکش کا حق تھا۔ اس نے پانی لینے آئے پانڈووں سے کہا کہ وہ کچھ سوال کا جواب دینے کے بعد ہی پانی دیں۔ یکشا نے جواب نہ دینے پر اسے بے ہوش کر دیا۔ اسی طرح سارے پانڈو ایک ایک کرکے آئے اور بیہوش ہوگئے۔ آخر کار یودھیشٹر آیا اور اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سوالوں کے صحیح جواب دئیے۔ یکش اتنا خوش ہوا کہ اس نے پانڈووں کو ہوش میں کیا اور انہیں پانی پینے دیا۔

awaz

ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق کٹاس راج مندر کے قرب وجوار میں مختلف ادوار میں تعمیرات ہوئی ہیں۔ اس میں بدھسٹ سٹوپا، حویلیاں اور مندر شامل ہیں جو تقریباً 900 سال قبل بدھ حکومت اور ہندو شاہی خاندان کے دور میں بنائے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مندر بھگوان شیو کے لیے وقف ہیں اور کچھ بھگوان ہنومان اور رام کے لیے وقف ہیں۔ کمپلیکس کے اندر ایک قدیم گرودوارے کی باقیات بھی موجود ہیں۔ جہاں گرو نانک نے 19ویں صدی میں دنیا کا سفر کرتے ہوئے قیام کیا تھا۔

یہاں کے مندروں کا فن تعمیر کشمیری ہے۔ اس میں مندر کی چھت چوٹی سے نوکیلی ہے۔ مندر مربع شکل کا بنا ہوا ہے جس میں رام چندر جی کا مندر سب سے بڑا ہے۔ یہاں کے مندروں کی دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار کے ساتھ دیواری پینٹنگز بھی نظر آئیں گی۔

 یہاں کا ہندو مندرچھٹی صدی عیسوی میں ہندو راجاؤں نے بنایا تھا اور نویں صدی تک یہاں مندر کی تعمیر کا کام ہوتا رہا۔ یہاں سات مندر بنائے گئے۔ بعد کے دور میں یہاں صرف تین مندر کچھ اچھی حالت میں باقی رہ گئے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے اس کی دیکھ بھال اور ورثے کے تحفظ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

awaz

آستھا کی اہم کہانیوں کی وجہ سے، ہندو ہر سال مختلف مواقع پر اس مندر میں جمع ہوتے ہیں۔ خاص طور پر شیو راتری کے موقع پر یہاں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ اگرچہ فی الحال مندر میں کوئی مورتی نہیں ہے، یاتری یہاں پانڈو بھائیوں کی قربانی کی یاد منانے اور بھگوان شیو کو نمن  کرنے کے لیے آتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ اس تالاب میں نہانے سے انسان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں اور اسے نجات مل جاتی ہے۔