دل جیتنے کے لیے مساجد کے دروازے خدمت خلق کے لیے کھولیں : ایچ عبدالرقیب

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-06-2023
دل جیتنے کے لیے مساجد کے دروازے خدمت خلق کے لیے کھولیں : ایچ عبدالرقیب
دل جیتنے کے لیے مساجد کے دروازے خدمت خلق کے لیے کھولیں : ایچ عبدالرقیب

 

آٓواز دی وائس :منصور الدین فریدی

ملک یہ جانتا ہے کہ تاج محل اور لال قلعہ مسلمانوں نے بنایا ہے مگر اس سے واقف نہیں کہ مسلمان کیسے رہتے ہیں ، کیسے جیتے ہیں اور کیسے عبادت کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے دروازے بند کر رکھے تھے۔ خود کو پراسرار بنا دیا ۔جس نے غلط فہمیاں پیدا کردیں اور شک و شبہات پیدا کردئیے لیکن  کورونا کی لہر کے بعد بہت کچھ بدل گیا ۔ مسلمانوں نے مساجد سے امدادی کاموں کا آغاز کیا تو برادران وطن  کو قوم  اور اس کے طرز زندگی  کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوا اور خود مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ مساجد کا کیا کیا استعمال ممکن ہے ۔

 ان تاثرات کا اظہار مساجد کے فلاحی استعمال پر بات چیت کرتے ہوئے انڈین سینٹر فار اسلامک  فائنانس ایچ عبدالرقیب نے کیا ۔

 انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کی دوسری سب سے مقدس عبادت گاہ مسجد بنوی میں پیغمبر اسلام کے دور میں  نماز کے ساتھ جو سماجی اور فلاحی سرگرمیاں انجام دی جاتی تھیں وہ کم سے کم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کتابوں میں بند کہانیوں کی طرح ہیں لیکن مغرب میں مسلمانوں نے اب مساجد کا استعمال عبادت کے ساتھ ساتھ لاتعداد خدمات کے لیے کرنا شروع کیا ہے ۔ امریکہ سے یورپ تک ایسی لاتعداد مساجد ہیں جن میں اسلامک سینٹر کے پرچم تلے فلاحی کاموں کا جال بچھا ہوا ہے ۔

 موجودہ دور میں کورونا کی وبا کے دوران مغڑب کے ساتھ مشرق میں بھی مساجد کے فلاحی استعمال  شروع ہوا اور اچانک لوگوں کو اس بات کا احسا س ہوا کہ مساجد میں کیسی کیسی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ غور کریں کہ اگر عیسائیوں کی بات آتی ہے تو تعلیم اور اسپتال کا خیال ذ ہین میں آجاتا ہے۔ جب سکھوں کی بات ہوتی ہے تو ان کے لنگر یاد آجاتے ہیں  لیکن جب بات مسلمانوں کی ہوتی  ہے تو داڑھی والے چہرے ہی سامنے آتے ہیں

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے خود کو الگ تھلگ کرلیا تھا مگر کورونا کی لہر نے ہم سب کو ایک موقع دیا ہے کہ ہم مساجد کا فلاحی استعمال کریں ۔مساجد میں ان خدمات کا آغاز ہوا جو اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں جسے ہم نے کسی حد تک دیا بھلا دیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی غلط فہمی یہ بھی تھی کہ مساجد کا استعمال عبادت کے ساتھ کس کس خدمات کے لیے ممکن ہے۔ کورونا کے دور میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس نے ہمیں بتایا کہ ہم مساجد کو کس طرح سے فلاحی مقاصد کے تحت استعمال کرسکتے ہیں

ایچ عبدالرقیب  نے کہا کہ بند معاشرہ نقصان دہ ہوتا ہے ایک بار جی کے موپنار کو ایک مسجد میں مدعو کیا تھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مسلمانوں کی عبادت میں کسی مورتی یا کسی اور شئے کا استعمال نہیں ہوتا ہے  ۔ ان کے لیے یہ حیران کن اس لیے تھا کہ انہیں کبھی کسی مسجد میں جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مساجد میں ہر مذاہب کے لوگوں کی آمد ممکن ہوسکے ۔ شک و شبہات دور ہوں گے اور قربت میں اضافہ ہوگا ۔

 ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ  مساجد ۔۔۔ یعنی کہ اللہ کا گھر۔  صرف عبادت کا مقام ہیں،ایسا وہی سوچ سکتا ہے جو اسلامی تاریخ سے ناواقف ہو۔

یو ایس اے اسلامک سینٹر جو عبادت کے ساتھ فلاحی کاموں کا مرکز ہے 

مساجد انقلابی ادارہ ہے

بقول عبدالرقیب دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب ڈھیلا ہو جاتا ہے تو جسم بھی شل ہو جاتا ہے۔ بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحہ نہ صرف فرض نمازوں ،سنتوں ، نوافل ، اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے، جس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قرار دیا۔

 روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے ایک دن اہل صفہ کے اتنی آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ (حلیۃ الاولیاء الاصفہانی) ایک دن رسول اکرم صلی ا کہ تم اپنے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ دوگروہ ہیں۔ ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار میں مشغول تھا اور دوسرا گر وہ علم حاصل کر رہا تھا۔

حضور صلی ہیں کہ تم نے فرمایا کہ اگر چہ دونوں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کاکام کر رہا ہے۔ پھر آپ بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہو گئے۔

عبدالرقیب صاحب کہتے ہیں کہ ہم مساجد کے استعمال کے دائرے کو وسیع کرسکتے ہیں ۔اس کے مختلف طریقے اور راستے ہیں جس کے لیے ہمیں بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور حکمت تیار کرنی ہوگی

جسمانی تربیت کا اہتمام

 عبدالرقیب کہتے ہیں کہ اب ملک میں کئی مساجد میں جسانی کسرت کے لیے کسرت گاہوں کا انتظام ہورہا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔کیونکہ ہمارے دین کا حصہ ہے۔ زندگی کا حصہ ہے اور صحت کی زضمانت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ تعلیم ہی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی جسمانی تربیت کا بھی انتظام فرمایا۔

پیغمبر اسلام  مالی تم ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے ، نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی تو خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھوڑ دوڑ ، اونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔

آج بھی مسجد نبوی کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے، جس کا نام "مسجد سبق ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھوڑ سوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسول اکرم سایتم فیصلہ فرماتے کہ کون سا گھوڑ سوار پہلے نمبر پر ہے اور کون سا دوسرے نمبر پر ۔

سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اول آنے والے گھوڑ سواروں کو نبی انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں ۔ (المقریزی : المخطط والآثار ، ج۱)

ادب شعر و شاعری اور تفریح

آج ہم نے مساجد کو صرف عبادت تک محدود کردیا ہے ،مساجد کے دیگر استعمال میں کچھ ایسے تھے جن سے آپ بھی حیران ہو جائیں گے۔ عبدالرقیب کہتے ہیں کہ  ایک وقت جہاں مسجد نبوی کے منبر پر جہاں جمعے کا خطبہ اور مختلف اوقات میں آپ کے خطبات و ارشادات کا معمول تھا وہیں ادب اور شعر و شاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں۔

 حضرت حسان بن ثابت اور دیگر اصحاب رسول حمد خدا، مدح رسول، توصیف اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔

صحیح بخاری میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔ مدینہ میں حبشیوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی، جو نیزہ بازی اور دیگر جسمانی ورزشوں اور کھیلوں کا اہتمام خاص موقعوں پر کرتے تھے۔

عید کے دن ایک مرتبہ آپ نے مسجد نبوی میں حبشیوں کے کرتبوں پر مشتمل کھیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھائے جو آپ کی اوٹ میں دیکھتی رہیں اور جب تھک گئیں تو واپس اپنے حجرے میں چلی گئیں۔

awazurdu

حیدرآباد کی مسجد میں رواں دواں ایک میڈیکل کلینک

مالی اور معاشی معاملات

 ایک دور میں مساجد کو ہر مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ،عبدالرقیب کہتے ہیں کہ مسجد میں اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ سماجی اور فلاحی کام اور مشاورت کا دور رہتا تھا ، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم سنی یا یہ تم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اور اگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو الصلوۃ الجامعۃ کا اعلان کر کے لوگوں کو جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے۔

شفاخانه

مسا جد کے استعمال کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے عبدالرقیب کہتے ہیں کہ مسجد نبوی میں مجاہدین کے لیے فوجی اسپتال قائم تھا ، جس میں ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی۔ اس کام کی حضرت رفیدہ انچارج تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسجد میں اس مقصد کے لیے بنی غفار کا خیمہ بھی نصب کیا گیا تھا، جنگ خندق کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ " جب شدید زخمی ہو گئے تو ان کے لیے خیمہ لگایا گیا۔ تا کہ خود نبی کریم ایی تم بھی دیکھ بھال کر سکیں ۔ ( بخاری )

اب اچھی بات یہ ہے کہ کورونا کے بعد ہندوستان میں بھی مساجد میں طبی سینٹر اور دیگر خدمات کا سلسلہ شروع ہورہا ہے ،مسلمانوں نے اس حقیقت اور تاریخ کو تسلیم کیا ہے کہ مساجد کا استعمال عبادت کے ساتھ مزید کاموں کے لیے بھی ممکن ہے

مہمان خانہ اور وفود کا قیام

 آج مساجد کی تعداد ماضی سے کہیں زیادہ ہے  مگر ان کی ذمہ داریاں اور کردار محدود ہوگیا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ایسا کردیا ہے ۔ یہ دائرہ بہت وسیع ہوسکتا ہے  جیسا کہ پیغمبر اسلام کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ عبدالرقیب کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نجران کا ایک وفد پیغمبر اسلام  کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پیغمبر اسلام  نے نہ صرف مسجد میں ان کی مہمان نوازی کی بلکہ عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے سے عبادت بھی کریں۔

مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں: آپ نے اس وقت اسلام کی عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھہرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قبیلہ طائف کو مسلمانوں کی منجنیق چالیس دن تک سنگ باری کر کے فتح نہ کر سکے اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آں حضرت کے خلق عظیم، اسلام کی مصلحت ، مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کر لیا۔ لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جا سکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں ۔ “ (جامع الشواہد : ص ۱۹)

عورتوں اور بچوں کا داخلہ

 آج ہم خواتین کے مسجد میں آنے پر بحث کرتے ہیں لیکن پیغمبر اسلام کے دور میں حالات اس کے بر عکس تھے۔ عبدالرقیب نے کہا کہ  دور نبوی میں عورتیں فرض نمازوں کے لیے مسجد نبوی آیا کرتی تھیں ۔ آج بھی مسجد نبوی میں باب النساء موجود ہے، جہاں سے ان کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض مرتبہ مردوں کو خطاب کرنے کے بعد آپ خصوصی طور پر عورتوں کے پاس آتے اور انہیں نصیحت فرماتے ۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس دور میں عورتیں عام طور پر فجر ، مغرب اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں۔

مسجد میں عدالت

 عبدالرقیب کہتے ہیں کہ  پیغمبر اسلام نے انصاف کے لیے بھی اللہ کے گھر کو استعمال کیا،مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم سے شروع ہوا۔ آپ مسجد میں فیصلے فرماتے متعدد مدعی اور مدعا علیہ، ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ، جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھے اور فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی جس میں ہر شخص عدالتی کارروائی سنے اور دیکھنے آسکتا تھا۔ آپ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے۔

ممبئی کے جامع مسجد میں جاری کوچنگ سینٹر

مسجد کو خدمت خلق کا مرکز بنائیں

 عبدالرقیب  نے آواز دی وائس سے کہا کہ  اگر ہم  مسجد نبوی کی اہم سرگرمیوں  پر نظر ڈالیں تو موجودہ دور کی مساجد سے  ان کا موازنہ  کرنے میں آسانی ہوگی ،ہمیں اس بات کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آج ہماری مسجد میں صرف خالق کی عبادت کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں ان میں مخلوق خدا کی خدمت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

نمازوں کے علاوہ یا تو بند رہتی ہیں یا ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مساجد کو جن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیوں کی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کی ظاہری بناوٹ ، ان کے اندر اور باہر کی تعمیر اور سجاوٹ یہاں تک کہ ان کے میناروں تک پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عبدالرقیب نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔

ضروری ہے کہ  مساجد کو خدمت خلق کے مختلف کاموں کا مرکز بنائیں ، مسجد کے اس فعال تصور کو جو دور نبوی دوبارہ زندہ کیا جائے۔مساجد میں ایک عمدہ قسم کی لائبریری ضرور بنائیں ۔ آج کے دور میں آڈیو، ویڈیو ہی ڈی اور کمپیوٹر کے ذریعے مختلف علوم کو حاصل کرنا آسان بھی ہو گیا ہے اور سستا بھی ۔ مثال کے طور پر شہر بنگلور کی سٹی جامع مسجد میں اس قسم کی عام تعلیم، فنی تعلیم اور تعلیم بالغان وغیرہ کی فراہمی کا مناسب انتظام ہے، جو قابل تحسین ہے۔ مساجد میں صدقات وزکوۃ کے وصول اور اس کی تقسیم کا نظم بھی ہونا چاہیے۔

۔  بعض شہروں مثلاً گلبرگہ میں ایسی سوسائٹیاں قائم ہیں جو باقاعدہ محلہ کا سروے کر کے ڈاٹا بینک تیار کرتی ہیں جن میں اس محلے کے لوگوں کی عمر ، تعلیم ، خاندان میں بچے اور بچیاں ، بیوہ اور معذور اور بے روزگار، صاحب نصاب مرد اور عورتوں کے پورے اعداد و شمار سافٹ ویر میں جمع کر لیتے ہیں۔اس کے ذریعے سے بلاسودی قرضہ جات، روزگار کی فراہمی ، صدقات کی وصولی ، شادی بیاہ کے لیے سہولیات کا اچھے انداز سے انتظام کرتی ہیں۔ مساجد میں نکاح اور اس سے متعلقہ معاملات کے لیے سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں

آسان اور کم خرچ شادیوں کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹر ،دار القضا اور شرعی پنچایت کا قیام بھی بحسن وخوبی ہو سکتا ہے۔ تفریح آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور تفریح کے نام پر صرف فحش اور گندی چیزیں میسر ہیں۔

کھیلوں کا اہتمام

آواز دی وائس  سے بات کرتے ہوئے عبدالرقیب کہتے ہیں کہ اگر مساجد کے احاطہ میں گنجائش ہے تو اسے بچوں کے کھیل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ  اسلامک فقہ اکیڈمی کے بیسویں اجلاس منعقدہ رام پور نے اس سلسلے میں توجہ دی ہے اور طے کیا ہے کہ ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں ، جن سے جسمانی قوت ، چستی، نشاط کی بحالی میں مددملتی ہو اور جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے اس کے مستحب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

 کیا جمناسٹک اور انڈورکھیلوں کے لیے مواقع مسجد کے احاطے میں فراہم نہیں کیے جاسکتے؟

 مغربی ممالک مثلاً امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں، جہاں انڈر گراؤنڈ ( تہہ خانہ) میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔

 بڑی عمر کے لوگوں کے لیے آرام کرنے کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔ صحت اور حفظان صحت کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔

 فرسٹ ایڈ  کی تربیت ڈزاسٹر منیجمنٹ  کے کورس ،بلڈ بینک اور و کا قیام جہاں خون اور پیشاب وغیرہ کی تشخیص ہو سکے،ایکس رے اور اسکین کی سہولیات جہاں مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ اوقات اور الگ اصناف کے ماہرین کی فراہمی ہو تو دور نبوی کے شفا خانے اور زخمیوں کی تیمار داری کے مترادف ہو سکتے ہیں۔

مساجد کی آمدنی

 عبدالرقیب کہتے ہیں کہ ایک بڑا مسئلہ مساجد کی آمدنی ہے ۔ جس سے اس کی دیکھ ریکھ ممکن ہوسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں کئی طریقے اپنائے جارہے ہیں ،مسجد کے اطراف کرائے کے لیے دکانوں کی تعمیر اور اس کے ذریعے آمدنی کے ذرائع فراہم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہوٹلس یا کم از کم کمرے تیار کیے جائیں تو طلبہ وطالبات کو مسجد کے احاطے میں پاکیزہ ماحول میں رہ سکتا ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔

جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں کی غربت کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ میٹر وشہروں کی جھگی جھونپڑیوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ مساجد میں  حج اور عمرہ کے فضائل و مسائل پر تو بیانات و اجتماعات ہوتے ہیں جو مسلم سماج کے صاحب نصاب واہل ثروت سے متعلق ہیں لیکن غربت کے مارے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے زکوۃ وصدقات پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ ورنہ ہر مسجد میں مقامی ضرورت مندوں کی فہرست تیار ہوسکتی ہے اور انہیں بی پی ایک کی بنیاد پر کارڈ جاری کئے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے مناسب مدد پہنچائی جاسکتی ہے

ہمیں کوشش یہ کرنا چاہیے کہ ہماری مساجد گندے پانی کے سمندر میں کنول کے پھول کی طرح نمودار ہوں ۔ جہاں نہ صرف خالق کی عبادت و بندوں کی تربیت کا اہتمام ہو بلکہ وہ خلق خدا کی خدمت کا بھی مرکز ہو ۔ سماج کے مجبور، معذور اور حاشیہ پر رہنے والے افراد کی مدد ہو سکے۔

اگر مسجد نبوی کے طرز پر ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل چند مساجد کا قیام عمل میں آجائے تو دنیا اپنے سر کی آنکھوں سے اس کی افادیت و اہمیت کو دیکھ سکے گی