ماسٹر آف سرجیکل اسٹرائیک: جنرل بپن راوت کو یاد رکھے گا ہندوستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-12-2021
 ماسٹر آف سرجیکل اسٹرائیک: جنرل بپن راوت کو یاد رکھے گا ہندوستان
ماسٹر آف سرجیکل اسٹرائیک: جنرل بپن راوت کو یاد رکھے گا ہندوستان

 

 

نئی دہلی : آواز دی وائس 

ہندوستان صدمہ میں ہے، ایک ہیلی کاپٹر حادثہ نے ملک کو غم کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ کیونکہ  ملک کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت اس حادثے میں موت کے منھ میں چلے گئے۔ جنرل راوت کو ہندوستان میں ان کی عظیم فوجی خدمات کے ساتھ پاکستان کے خلاف ’’سرجیکل اسٹرائیک ‘‘ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔جس نے پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی کے معاملہ میں بہترین سبق دیا تھا۔

یاد رہے کہ جنرل راوت کو جنوری 2020 میں ملک کے پہلے سی ڈی ایس کے طور پر چارج سنبھالا۔ سی ڈی ایس کے لیے عمر کی حد عام طور پر 65 سال ہے۔ وزیر اعظم مودی نے 2019 میں یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں ایک سی ڈی ایس کی تقرری کا اعلان کیا تھا، جس کی سربراہی تینوں خدمات کے سربراہ کریں گے۔

جنرل راوت ایک ذہین فوجی قائد تھے،جن کے بے باک اقدام نے انہیں شہرت اور مقبولیت بخشی تھی۔  در اصل سرحد پار کی دہشت گردی کا پیمانہ لبریز ہوا تو ہندوستان نے ایک سرجیکل اسٹرائیک کا سہارا لیا۔جس میں پاکستان کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ بالاکوٹ میں ہندوستانی ایر فورس کی کارروائی نے پاکستان کو پست کردیا تھا۔ در اصل فروری 2019 میں پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر ہونے والے ’سرجیکل اسٹرائیک‘ سے ہندوستان اور پاکستان کی دو ایٹمی قوتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں۔

اس حملے کے مرکزی کردار جنرل بپن راوت تھے جو اس وقت ہندوستانی فوج کے سربراہ تھے۔ اس سے قبل ستمبر سرحد 2016 میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک اور’سرجیکل اسٹرائیک‘ کے وقت وہ نائب آرمی چیف تھے۔ پاکستان نے ایسے کسی حملے کی تردید کی تھی۔یہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ منی پور میں ہندوستانی  فوج پر ہونے والے حملے کے بعد میانمار میں  ہندوستانی  فوج کے ’سرجیکل ا سٹرائیک‘ کے مرکزی کرداروں میں سے بھی ایک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں ابھی تین ہفتے پہلے ہی بطور نائب آرمی چیف عہدہ سنبھالا تھا۔

قومی میڈیا میں اسی وقت بپن راوت کو ’ماسٹر آف سرجیکل اسٹرائیک‘ کا خطاب دے دیا تھا۔جنرل بپن راوت ہندوستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف تھے۔ اس سے پہلے وہ ہندوستانی  چیف آف آرمی ا سٹاف تھے اور 2019 میں انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اس عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔

پاکستان مخالف بیانیہ

ماضی میں جنرل  بپن راوت پاکستان کے حوالے سے کئی مرتبہ خبروں میں رہے، وہ ہمیشہ پاکستان کو منھ توڑ جواب دینے کے حق میں رہے ،انہوں نے ہمیشہ بے باک  خیالات کا اظہار کیا جس کے سبب  انہیں اس کے لیے پاکستان میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2020 میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ ہندوستانی فوج کے پاس پاکستان اور چین کے ساتھ دو محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت ہے اور اگر پاکستان نے ہندوستانی  میں کسی ’مس ایڈونچر‘ کی کوشش کی تو پاکستان کو ’بھاری نقصان‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

یہی نہیں بپن راوت ستمبر 2019 میں یہ بھی کہہ چکے ہی کہ ہندوستانی  فوج مقبوضہ کشمیر میں ایکشن کرنے کے لیے تیار ہے اور صرف حکومتی اجازت کا انتظار ہے۔ بپن راوت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔

جنرل بپن راوت کی فوج کی حالیہ تاریخ میں نہایت اہمیت رہی ہے۔ بالاکوٹ واقعے کے وقت وہ ہندوستان کے آرمی چیف تھے جب کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ترقی دے کر ایک نیا عہدہ قائم کیا گیا تھا۔ ۔

جنرل راوت نے نومبر 2018 میں پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو ہندوستان سے دوستی کے لیے پاکستان کو سیکیولر ریاست بننا پڑے گا۔ ان کا یہ بیان وزیراعظم عمران خان کے ہندوستان سے دوستی کے حوالے سے بیان پر آیا تھا۔ جنوری 2018 میں بپن راوت، جو کہ اس وقت آرمی چیف تھے نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’حکومت اگر حکم دے تو ہندوستانی  فوج پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھمکی  کی پروا کیے بغیر سرحد پار کر کے کسی بھی کارروائی کے لیے تیار ہے۔

 جنرل بپن راوت حال ہی میں ایک اور تنازع کا شکار ہوئے تھے جب ان کی اپنے ہی ایئر چیف کے ساتھ اختلافات سامنے آئے تھے۔ جنرل بپن راوت نے کہا تھا کہ فضائیہ بری افواج کو مدد فراہم کرتی ہے جب کہ اس کے جواب میں ائیر چیف مارشل راکیش کمار نے کہا تھا کا فضائیہ کا کام صرف اعانت نہیں بلکہ فضائی طاقت جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔

جنرل بپن راوت نے ایک ماہ قبل پاکستان اور چین کا  ہندوستان کے لیے تقابل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا دشمن پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔

کئی نسلوں سے فوجی

جنرل  بپن راوت  اترکھنڈ کے ضلع پاوری میں 16 مارچ 1958 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو کئی نسلوں سے فوج میں شمولیت اختیار کرتا رہا۔جنرل بپن راوت فوج کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف تھے۔ وہ 17 دسمبر 2016 سے بھارتی فوج کے 27ویں چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیے گئے تھے۔ 30 دسمبر 2019 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد انہیں 31 دسمبر 2019 سے بھارتی فوج کا سی ڈی ایس مقرر کر دیا گیا تھا۔جنرل بپن راوت کے لیے یہ عہدہ تخلیق کرنے کے علاوہ حکومت نے فوجی سربراہ کے لیے ریٹائرمنٹ کی حد عمر بھی 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کر دی تھی۔

حکومت نے سی ڈی ایس کے عہدے کو تخلیق کرنے کی وجہ عسکری امور پر حکومت کے لیے ’ون پوائنٹ ایڈوائزر‘ مقرر کرنا بتائی تھی۔ اس عہدے کا مقصد تینوں مسلح افواج سے متعلقہ امور کو ایک فرد واحد کے ذریعے نمٹانا تھا۔

مشکل علاقوں میں کمانڈ

ہندوستان کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) اور انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون (آئی ایم اے) سے تربیت حاصل کرنے والے بپن راوت دسمبر 1978 میں فوج میں شامل ہوئے تھے۔ انہیں ان کے والد کی طرح ہی 11 گورکھا رائفلز میں کمیشن دیا گیا تھا۔ آئی ایم اے میں اپنی تربیت ختم کرنے پر جنرل بپن راوت کو (شمشیرِ اعزاز) ’سورڈ آف آنر‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان چین سرحد پر لائن آف ایکچوئل کنڑول کے ساتھ انفٹری بٹالین کی کمانڈر بھی کی تھی۔

بپن راوت نے جموں و کشمیر میں فوج کی راشٹریہ رائفلز یونٹ کے سیکٹر کمانڈر کے طور پر عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کی کمانڈ بھی کی تھی۔ جب کہ وہ اڑی سیکٹر میں بھی میں انفنٹری وویژن کی کمانڈ کر چکے تھے۔بزنس سٹینڈرڈ کے مطابق جنرل بپن راوت کو عسکریت پسندی کے خلاف ایک تجربہ کار آفسر مانا جاتا تھا اور انہوں نے ہندوستان کے مشکل ترین علاقوں میں کمانڈ کی تھی جن میں شمالی اور مشرقی سرحدی علاقے شامل ہیں۔

فوج میں اپنی چار دہائیوں پر مبنی ملازمت میں بپن راوت نے بریگیڈئیر کمانڈر، جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف سدرن کمانڈ، جنرل سٹاف آفیسر گریڈ ٹو اور کرنل ملٹری سیکرٹری اور ڈپٹی ملٹری سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ جنرل بپن راوت ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو میں اقوام متحدہ کی امن قائم رکھنے کے لیے تعینات افواج کا حصہ بھی رہے۔

اپنی ملازمت کے دوران جنرل راوت کو پرم وشیشت سیوا میڈل، اتم یدھ سیوا میڈل، اتی وشیشت سیوا میڈل، وشیشت سیوا میڈل، یدھ سیوا میڈل اور سینا میڈل سے نوازا گیا۔