کام والی کی تنخواہ ۔۔ اور رمضان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-04-2022
کام والی کی تنخواہ  ۔۔ اور رمضان
کام والی کی تنخواہ ۔۔ اور رمضان

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، نئی دہلی

ہم لوگ ماہ رمضان کے آخری ہفتے میں گھر چلے جائیں گے۔ میں سوچتی ہوں کہ کام والی کو پورے مہینے کے پیسے دے دوں۔" اہلیہ کی یہ بات سن کر مجھے کچھ ناگواری ہوئی ۔ میں نے کہا : " پورے پیسے کیوں؟ جتنے دن وہ کام کرنے آئے ، اتنے دنوں کے پیسے دیجیے ۔ باقی دنوں کے کاٹ لیجیے۔"

" اس میں اس کا کیا قصور ہے ؟

ہم رہتے تو وہ ان دنوں میں بھی آتی۔اس لیے میری نظر میں وہ پورے مہینے کی تنخواہ کی مستحق ہے۔"اہلیہ نے جواب دیا۔

میں نے چِڑھ کر کہا : " حاتم طائی بننا چاہتی ہیں تو دے دیجیے گا۔" اہلیہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بغیر ناگواری کا اظہار کیے انھوں نے مزید کہا : " میں سوچتی ہوں کہ رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے۔ کیوں نہ اس کی تنخواہ ایڈوانس دے دوں ۔"

میں نے طنز کسا : " واہ ، تاکہ وہ اتنے دن بھی کام نہ کرے اور گھر بیٹھ رہے۔" اہلیہ گویا ہوئیں : " ذرا سے پیسوں کے لیے کوئی گھر نہیں بیٹھ رہتا ، بے ایمانی نہیں کرتا ، بلکہ وقت سے پہلے تنخواہ مل جانے پر تشکّر کے جذبے سے اور بھی لگن سے کام کرتا ہے۔"

میں نے بیزاری سے کہا : "آخر کام والی سے اتنی ہم دردی کیوں دکھائی جا رہی ہے؟ "

اہلیہ نے سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا : " اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کے لیے آسانی پیدا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا۔"( مسلم :2699)

میں نے تفریح لی : " میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل کام والی سے بہت پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ وہ آتی ہے تو پہلے اسے چائے پلائی جاتی ہے ، ناشتہ کرایا جاتا ہے ، پھر وہ جھاڑو پونچھا اور برتن دھونے کا کام شروع کرتی ہے۔" " ہاں ، میں ایسا کرتی ہوں۔

کیوں نہ کروں؟ وہ بھی ہماری طرح ہے۔ بس ، مجبوری میں اسے دوسروں کے گھروں میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اور چائے پلا دینے اور ناشتہ کرادینے سے ہمارے گھر میں کتنی کمی واقع ہوجائے گی ؟

میں تو اس کا انتظار کرتی ہوں۔ جب وہ آجاتی ہے تب اس کے ساتھ ناشتہ کرتی ہوں۔" اہلیہ تفصیل بتانے لگیں۔ میں نے اشکال کا اظہار کیا : " کام والیوں کے ساتھ تھوڑی سی بھی نرمی دکھائی جائے تو وہ سر پر چڑھ جاتی ہیں اور ٹھیک سے کام نہیں کرتیں۔"

اہلیہ نے پلٹ کر کہا:" نہیں ایسا نہیں ہے۔چمیری کام والی بہت اچھی ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ کبھی میرے سر میں تیل لگا دیتی ہے۔ میری ریڑھ کی ہڈّی میں تکلیف بڑھ جاتی ہے تو وہ دوا لگا دیتی ہے۔ دوسرے کام ، جو اس سے متعلق نہیں، وہ بھی بہت شوق سے کردیتی ہے۔"

تھوڑی دیر اہلیہ خاموش رہیں ، پھر یوں گویا ہوئیں : " ہم نے بڑی نئی فریج خرید لی ہے۔ سوچتی ہوں کہ پرانی فریج کام والی کو دے دوں۔ ماہِ رمضان شروع ہونے والا ہے۔اس کے کام آجائے گی۔ وہ اور اس کے بچے ٹھنڈا پانی پی لیں گے۔ کھانا رکھ لیں گے۔

میں نے کہا : " لیکن میں نے تو ایک میکنک سے بات کرلی ہے۔ پانچ ہزار روپے دینے کو کہہ رہا تھا۔" اہلیہ نے فوراً کہا : " اس کو منع کردیجیے۔ زیادہ دنیاداری مت دکھایا کیجیے۔کبھی کچھ ثواب بھی کما لیا کیجیے۔"

پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی۔اہلیہ نے یہ کہتے ہوئے خاموشی توڑی : " مجھے زیورات کی  زکوٰۃ نکالنی ہے۔کام والی لڑکی کی جلد ہی شادی ہونے والی ہے۔ سوچتی ہوں کہ اس کے لیے زکوٰۃ کے پیسوں سے ایک اچھا سا سوٹ لادوں۔ یہ بتانا ضروری تھوڑے ہی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے پیسے سے لائی ہوں۔ کہہ دوں گی کہ یہ تمھاری لڑکی کی عیدی ہے۔

جب سے اہلیہ سے یہ باتیں ہوئی ہیں ، سوچتا ہوں کہ انفاق کا ایسا جذبہ میرے اندر کیوں نہیں ہے؟ اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہم دردی کا خیال میرے دل میں کیوں نہیں آیا؟

میں نے بہت سی تقریروں میں کہا ہے کہ رمضان ہم دردی ، غم خواری اور مواسات کا مہینہ ہے ، لیکن اپنے عمل سے اس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ پھر خیال آیا کہ یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کی دَین ہے ، ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین ، یا رب العالمین!