مدنی خاندان:مذہب سے سیاست تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2022
مدنی خاندان:مذہب سے سیاست تک
مدنی خاندان:مذہب سے سیاست تک

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

دیوبند کا مدنی خاندان ہند وبیرون ہند میں نہ صرف پہچانا جاتا ہے بلکہ انتہائی عزت واحترام کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ ایک صدی سےزیادہ مدت گزر چکی ہے کہ اس خاندان کو مذہبی اور سیاسی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ خاندان کے بانی مجاہد آزادی مولانا سیدحسین احمد مدنی ایک عالم دین کی حیثیت سے عالمی شہرت کے حامل رہے ہیں۔ ان کا احترام پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کیا کرتے تھے۔

ان کے صاحبزادے مولاناسید اسعد مدنی (مرحوم)مذہب، سماج اور سیاست کے میدان میں سرگرم رہے اور تین ٹرم راجیہ سبھا ممبررہے۔ مولانااسعد مدنی کے بیٹے مولانا محمود مدنی بھی ایک بار راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے۔مولانا حسین احمد مدنی کے منجھلے صاحبزادےمولانا ارشد مدنی، دارالعلوم دیوبند کے پرنسپل اورمدرس ہیں۔ معروف سماجی وسیاسی تنظیم جمعیت علما ہند کو بھی اس خاندان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ یہ تنظیم ہی اس خاندان کی قوت کا سرچشمہ ہے۔فی الحال،خاندان کے تنازعے کے سبب یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔  

مولاناسیدحسین احمدمدنی

awaz

ہندوستان کے اولین صدرجمہوریہ ڈاکٹرراجندر پرسادکے ساتھ ،فوٹومیں داہنی جانب مولاناحسین احمد مدنی اور بائیں جانب مولاناحفظ الرحمان سیوہاروی

مولانا حسین احمد مدنی1879ء بمقام بانگڑ مئو ضلع اناؤ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم ٹانڈہ،ضلع فیض آباد،یوپی میں ہوئی جہاں والدہیڈماسٹر تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے دار العلوم دیوبندگئے۔ایک مدت تک مدینہ منورہ میں قیام رہا اور وہاں پہلے پڑھائی کی اور پھر بچوں کو پڑھانے لگے۔ ان کے شاگردوں میں دنیا بھر کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ شامل تھے۔وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔

مولانا کے استادشیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی کو جب انگریزوں نے گرفتار کرکے مالٹا کی جیل بھیجاتو ان کے ساتھ مولاناحسین احمد اپنی رضامندی سے جیل گئے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد رہائی ملی اور ہندوستان واپس آئے۔ یہاں دیوبند میں قیام کیا اور دارالعلوم میں حدیث پڑھانا شروع کردیا۔یہیں 5 دسمبر 1957ء میں انتقال ہوا۔

’’مدنی‘‘ کیوں کہلائے؟

مدنی خاندان میں سب سے پہلے مولاناسیدحسین احمدکو ’مدنی‘ کہا گیا۔ یہ مدینہ منورہ کی نسبت سے کہا گیا کیونکہ ایک مدت تک وہ مدینہ میں رہے اور یہاں درس دیتے رہے۔مولانا ابھی نوعمر تھےجب ان کے والدمولانا سید حبیب اللہ نے مدینہ منورہ ہجرت کیاتھا۔ سید حبیب اللہ کے ساتھ ان کے تمام بچے بھی تھے۔

مدنی خاندان اور تصوف

مدنی خاندان کا تصوف سے پرانا تعلق چلا آرہا ہے۔ مولانا سیدحسین احمدمدنی کے والد مولانا سید حبیب اللہ ، اپنے دور کے معروف صوفی بزرگ مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی کے خلیفہ خاص تھے۔ مولانا مدنی کو مولانا رشید احمد گنگوہی سے خلافت حاصل تھی۔ وہ چشتیہ سلسلے کے مرشد تھے اور یہ سلسلہ بعد کے دور میں بھی اس خاندان میں چلتا رہا۔

مولانا حسیدن احمد مدنی کے صاحبزادے مولانا سید اسعد مدنی مرحوم بھی پیر تھے۔ ان کے مریدین کا سلسلہ ہندوبیرون ہند میں پھیلا ہواہے۔ خاص طور پربنگلہ دیش،مغربی بنگال اور آسام میں ان کے مریدین بڑی تعداد میں ہیں۔

awaz

مولاناحسین احمدمدنی کی یاد میں جاری ڈاک ٹکٹ

جنگ آزادی کے رہنمامدنی

مولانا سیدحسین احمد مدنی جنگ آزادی کےسرگرم رہنمائوں میں سے ایک تھے۔وہ ان قوم پرست علما میں شامل تھے جس نے پاکستان کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی۔ان کی سربراہی میں جمیعت علما ہندایک مضبوط جماعت تھی۔

سیاست اور مولانا حسین احمدمدنی

مجاہد آزادی مولاناسید حسین احمد مدنی ، ماہرعلوم،مصنف اور مدرس تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔مذہبی حلقے میں توعزت واحترام کی نظر سے دیکھے ہی جاتے تھے،وہ سیاسی حلقے میں بھی مقبول تھے اور منسٹرس تک ان کا احترام کرتے تھے، ان سے ملنے کے لئے دیوبند آتے تھے۔

تب کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ان کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے تھے۔ انھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت ہند نے”بھارت بھوشن“ کے اعزاز سے نوازاتھا مگر مولانا نےاس جانب چنداں توجہ نہ دی۔ان کے احترام میں حکومت ہند نے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ان کے اعزازمیں بنگلہ دیش کے سلہٹ میں ’’مدنی اسکوائر‘‘ ہے۔ مولانا نے نظریہ پاکستان کی شدت سے مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم کو تب بھی قبول کرنے سے انکار کیا تھا،جب مہاتما گاندھی،پنڈت نہرواور سردارپٹیل قبول کرچکے تھے۔اس حوالے سے ان کے علامہ اقبال سے شدید اختلافات بھی رہے۔

مولانااسعدمدنی

awaz

جمعیت علماہند کے ایک پروگرام میں سونیاگاندھی اورمولانااسعدمدنی

مدنی خاندان کے دوسرے فردتھے،مولانااسعد مدنی (27 اپریل 1928 - 6 فروری 2006) جنھوں نے خاندان کے وقار میں چار چاند لگایا۔وہ اسلامی اسکالر اور سیاست دان تھے۔وہ جمعیت علمائے ہند کے چھٹے جنرل سکریٹری اور ساتویں صدر بنے۔ وہ دارالعلوم دیوبند کی ایگزیکٹو باڈی کے رکن تھے۔ وہ تین بارکانگریس کے ٹکٹ پرراجیہ سبھا کے رکن بنے اور لگ بھگ چودہ سال پارلیمنٹ میں رہے

۔ 23 اور 24 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں ان کی یاد میں ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار میں ’’مدنی کی پارلیمانی تقریریں‘‘ ہندوستان کے تب کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جاری کیں۔

مولانااسعدمدنی مرحوم بنگلہ دیش میں بھی بہت مقبول تھے۔انہوں نے پہلی بار 1933 میں مشرقی بنگال کا دورہ کیا، اور 1973 کے بعد سے وہ تقریباً ہر سال وہاں جاتے تھے۔ 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران، مدنی نے پاکستانی فوج اور اس کی اتحادی افواج کے وحشیانہ تشدد کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا، اورپناہ گزیں کیمپوں میں امداد تقسیم کیا تھا۔

مولاناارشد مدنی

awaz

مولاحسین احمد مدنی مرحوم کے منجھلے صاحبزادے ارشد مدنی (پیدائش 1941) ایک عالم دین اوردارالعلوم دیوبند کے موجودہ پرنسپل ہیں۔ وہ مولانا اسعد مدنی کے انتقال کے بعدجمعیۃ علماء ہند کے ایک دھڑے کے صدرہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیکولرازم ہی ایک مربوط اور متحد ہندوستان کا واحد راستہ ہے۔

مولانامحمودمدنی

مولانامحمود اسعد مدنی (پیدائش 3 مارچ 1964)دیوبند سے تعلیم یافتہ ایک ایک اسکالر،سیاست دان، اور جمعیت علماء ہند کے ایک گروپ کے صدر ہیں۔ وہ راجیہ سبھا میں راشٹریہ لوک دل کے رکن کے طور پر 2006 سے 2012 کے درمیان رہ چکے ہیں۔

awaz

وہ دنیا کے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں 27 ویں نمبر پر ہیں، جسے رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر نے شائع کیا ہے۔

مدنی خاندان کی قوت کاسرچشمہ جمعیت علمائے ہند

جمعیت علمائے ہند کا قیام نومبر 1919ء میں عمل میں آیا۔ اس کے بانیوں میں بیشترعلما دیوبند تھے مگر اس کےدروازے سبھی لوگوں کے لئے کھلے تھے اور معروف مسلم شخصیات کی اس میں شمولیت رہی۔اس تنظیم نے ملک کی آزادی میں سرگرم رول اداکیا اور کانگریس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب اس کی باگ ڈور مولاناسیدحسین احمد مدنی کے ہاتھ میں آگئی اور رفتہ رفتہ ،یہ ان کے خاندان کی تنظیم بن گئی۔

حسین احمد مدنی 13 جولائی 1940ءسے 5 دسمبر 1957ء تک اس کے صدر رہے۔پھر دوصدور کے بعد ان کے بیٹے مولاناسید اسعد مدنی 11 اگست 1973ء کو صدر بنے اورتامرگ یعنی6 فروری 2006ءتک جمعیت کے صدر رہے۔

ان کے انتقال کے بعد اب جمعیت، ان کے چھوٹے بھائی مولاناسید ارشد مدنی اور بیٹے مولاناسید محمود مدنی کے بیچ تقسیم ہوگئی ہے۔ یہ تنظیم اس خاندان کی طاقت بن گئی کیونکہ اس کی جڑیں بے حد مضبوط ہیں اور اس کے ممبران وعقیدت مندوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

جمعیت کی قوت کے سبب ہی مولاناسیداسعدمدنی طویل مدت تک کانگریس کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا ممبر رہے۔ بعد میں مولاناسیدمحمود مدنی بھی راجیہ سبھارکن رہے۔ فی الوقت آسام میں مولانابدر الدین اجمل کی سیاسی پارٹی اے آئی یوڈی ایف جو سیاسی قوت بن کر ابھری ہے،اس میں جمعیت کا اہم رول ہے۔

مولانابدرالدین اجمل ،آسام میں جمعیت کا چہرہ رہے ہیں اور اپنی سیاسی پارٹی انھوں نے جمعیت کی قوت پر ہی کھڑی کی ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں جمعیت کے جنرل سکریٹری مولانا صدیق اللہ چودھری نے بھی بنگال میں جمعیت کے سہارے اپنی سیاسی قوت بنائی اور فی الحال وہ مغربی بنگال کی حکومت میں وزیر ہیں۔ ان کے دولوگوں کے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جنھوں نے جمعیت کی قوت کے سہارے،اپنی سیاسی پہچان بنائی ہے۔