منصور الدین فریدی : نئی دہلی
مسلم انسٹی ٹیوٹ ۔۔۔۔ صرف ایک ادارہ نہیں ۔ایک تاریخ ہے ۔۔۔ ایک وراثت ہے۔۔۔ غیر منقسم بنگال میں جس کے پہلے صدر ایک انگریز تھے۔ نام ’’مسلم انسٹی ٹیوٹ‘ ہونے کے باوجود غیر مسلم دانشور اور ادیب بھی اس کے ممبر تھے۔ مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوبل انعام یافتہ انقلابی بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور بھی اعزازی ممبر تھے۔۔۔ یہ ادارہ ممتاز دانشوروں ،سماجی شخصیات ،سیاستدانوں اور علمی ہستیوں کے ذہن کی پیداوار تھا،یہی وجہ ہے کہ مسلم انسٹی ٹیوٹ ایک سوچ ہے ایک نظریہ ہے، ایک پلیٹ فارم ہے ۔۔۔ جو اپنے منفرد مقاصد کے سبب پچھلے ایک سو بیس سال سے صرف اہل کولکتہ ہی نہیں بلکہ اہل بنگال کی زندگی کا حصہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس ادارے کے نقش موجود ہیں ۔ بات تعلیم کی ہو ،تربیت کی،کھیل کی ہو،علم و ادب کی۔ یا پھر سماجی وثقافتی سرگرمیوں کی ۔ یہاں تک کہ شادی خانہ آبادی کی ۔۔۔۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کا نام اور کام اس کی کامیابی اور بلندی کی گواہی دیتا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد 1902میں اس مقصد سے رکھی گئی تھی کہ مسلم نوجوانوں کو 1857کے غدر کے بعد کے حالات میں مایوسی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔نوجوانوں کو مثبت سوچ کے ساتھ نہ صرف منظم رکھا جائے بلکہ زندگی کا سامنا کرنے کی راہ بھی بتائی جاسکے ۔
کولکتہ کے حاجی محسن اسکوائر میں واقع مسلم انسٹی ٹیوٹ کی تاریخ اسے ایک وراثت کا درجہ دیتی ہے ۔یہ بنگال میں مسلمانوں کا واحد ایسا ادارہ ہے جو ایک چھت کے نیچے تعلیم سے تربیت تک لاتعداد سہولیات مہیا کراتا ہے۔ جہاں ہائر سکنڈری کی سطح کی کوچنگ سے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ سہولیات مہیا کی جاتی ہیں،جن میں لائبریری سے کمپیوٹر روم تک شامل ہیں۔ طلبا کی کاونسلنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی بہتر طور پر ہوسکے۔ سب انسپکٹر کےامتحان کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ گریجویشن کے بعد سول سروسیز کے ابتدائی ٹیسٹ کی تیاری کا انتظام ہے ۔اس کے ساتھ مسلم انسٹی ٹیوٹ علمی ،ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں سمینار،مباحثہ اور مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں جبکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ہال کو شادیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ سرگرمیا ں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کولکتہ والوں کی زندگی میں کہیں نہ کہیں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی حصہ داری ضرور رہتی ہے۔
یاد رہے کہ ادارے کا قیام تو 1902 میں ہوا تھا مگر موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد 1931 میں غیرمنقسم بنگال کے گورنر سر فرانسس اسٹینلے جیکسن نے رکھا تھا جبکہ 1939-1940 میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کے پہلے منتخب صدرغیر منقسم بنگال کے وزیر اعلی اے کے فضل الحق تھے۔آج ایک چھت کے نیچے مختلف شعبوں کے ماہر اپنے اپنے فن اور صلاحیتوں کو سنوار رہے ہیں ،نکھار رہے ہیں اور آزما رہے ہیں اور پرچم لہرا رہے ہیں ،ساتھ ہی ادارے کی عظمت کو سلام کررہے ہیں ۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ کا ایک منظر
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے عامر حسین جنہوں نے نیشنل گیز گوا میں بلیرڈس میں برونز میڈل حاصل کیا
مسلم انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری
مسلم انسٹی ٹیوٹ میں سول سروسیز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے انٹرویوز کی مشق بھی کرائی جاتی ہے
اسٹارک سے ٹیگور تک ۔۔۔ غیر مسلم ممبر
یہ ادارہ صرف نوجوانوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ہی دانشوروں کا بھی مرکز بنا ۔ قبل آزادی سے ابتک نوجوانوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دانشورو طبقہ بھی اس سے جڑا رہا ہے ،جس میں صرف مسلمان نام ہی نہیں تھے بلکہ غیر مسلم بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کولکتہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں بڑے ادبی پروگراموں کے گواہ بنے ہیں۔ادارے نے مقبولیت پائی، یہی نہیں اس میں غیر مسلم بھی جڑ گئے۔نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور، سر گروداس بنرجی، ہری ناتھ ڈے، مشہور لسانی اسکالر جنہوں نے 28 زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ سر روپر لیتھ برج، سلم ریڈکلف۔ دی اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر، رائے سرت چندر داس، کمار دی کملندا سنگھ (سری نگر کے راجہ) اور ایسی کئی معزز شخصیات اس کے اعزازی ممبر بنیں۔ ادارے میں شہر کے نامی گرامی دانشوروں نے محفلوں کا انعقاد شروع کیا ۔ بات سمیناروں سے مشاعروں تک پہنچ گئی لیکن اس کے ساتھ ادارے کا نوجوانوں کے تئیں جوعزم تھا وہ بر قرار رہا۔کھیلوں کے میدان میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی پیشقدمی جاری رہی-۔
ایک چھت کے نیچے 14سیکشن
اس وقت مسلم انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم، لائبریری،ٹیبل ٹینس،بلیئرڈ اوراسنوکر،کیرم،جمنازیم ،کرکٹ ،فٹ بال،ہاکی ،سوشل،ڈرامہ،ڈیبیٹس اور کوئز کے سیکشن ہیں ۔ایک اہم سیکشن تعلیم کا ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انسٹی ٹیوٹ کے لیے باعث فخررہا ہے۔ یہ سیکشن اپنی مختلف، تعلیمی اورغیر نصابی سرگرمیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔اس سیکشن کی تین اہم ترین سرگرمیاں اعلیٰ ثانوی امتحانات کے طلبہ کے لیے کوچنگ سینٹر، کمپیوٹر ایجوکیشن سینٹر اور مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کا اسٹڈی سینٹر ہیں۔ کوچنگ سنٹر، جو کہ انٹینسیو کوچنگ سنٹر کے نام سے مشہور ہے۔محمد نظام شمیم، ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر جن کی کوششوں سے سینکڑوں طلباء کو مسابقتی امتحانات کی تیاری میں مدد ملی اور محمد جہانگیر، ماہر تعلیم اور کولکتہ میں قائم سیفی ہال اسکول کے سابق پرنسپل نے بھی اس مشن میں بہت مدد کی ۔طلباء کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اساتذہ کے ذریعہ آرٹس اور سائنس کے مضامین کے لیے باقاعدہ اور وسیع موک ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ طلباء سے متعلق پروگرام بھی ترتیب دیتے ہیں جیسے کیرئیر کونسلنگ سیشنز، گروپ انٹرایکشن وغیرہ۔ ان پروگراموں میں معروف ماہرین تعلیم کو طلبا اور ان کے والدین کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
تعلیم اور کھیل کے ساتھ مسلم انسٹی ٹیوٹ نے آزادی کے بعد اردو ڈرامہ اسٹیج کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر نیاز احمد خان، کمال احمد، ظہیر انور، فیروز احمد شاہین نامور ڈرامہ نگاروں نے اردو ڈرامے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مسلم انسٹی ٹیوٹ نے بطور ڈرامہ نگار کیریئر کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب اس میں اردو کے ساتھ بنگالی اور ہندی زبان میں کئی ڈرامے اسٹیج کیے جاتے ہیں۔
ادارے میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صد سالہ، مولانا عبدالکلام آزاد صد سالہ رابندر ناتھ ٹیگور کی 125ویں یوم پیدائش، کثیر لسانی افریقی ایشیائی مصنفین کا سمپوزیم منعقد کیا۔اس نے پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے تیسرے مشترکہ کنونشن کی میزبانی کی جس میں پاکستان سے 167 مندوبین اور ہندوستان سے 200 مندوبین نے شرکت کی۔ کئی آل انڈیا سیمینار اور آل انڈیا مشاعرے کامیابی سے منعقد ہوئے۔ 1997 میں مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ایک بہت بڑے پیمانے پر اور شاید مرزا غالب کی دو صد سالہ تقریب کا سب سے بڑا اہتمام کیا تھا ۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ کا بلئیرڈ س روم
مسلم انسٹی ٹیوٹ کا جمنازیم ۔۔۔نوجوانوں کے لیے کشش کا باعث رہا ہے
ایک روشن ادارہ
اتار چڑھاو تو ہر کسی کی زندگی یا تاریخ میں آتے ہیں ۔ ایسا مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ بھی ہوا ،اچھے دن آئے ،کبھی برے دن بھی آئے لیکن اس چراغ کی لو ہمیشہ روشن رہی،طوفان اورآندھیاں اسے نہیں بجھا سکیں ۔اہل کولکتہ نے ادارے کو ہمیشہ سہارا دیا یہی وجہ ہے کہ ایک سو بیس سال گزر جانے کے باوجود مسلم انسٹی ٹیوٹ بنگال کے مسلمانوں کی سماجی، ثقافتی، کھیل اور تعلیمی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سکریٹری اور ریٹائرڈ ڈی سی پی،کولکتہ پولیس نثار احمد نے آواز دی وائس کو بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں،جدت کاری کا سہارا لیا گیا۔مسلم انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری مکمل تزئین و آرائش اور خودکار ہے۔ کمپیوٹرائزڈ کیٹلاگنگ اور جدید ترین سافٹ ویئر اور ایئر کنڈیشنڈ ماحول کے ساتھ کتابوں کی جدید اسٹیکنگ کے ساتھ لائبریری کو ایک نئی زندگی دی گئی ہے ۔ کمپیوٹر ہال کی تزئین و آرائش کی گئی اور جدید ترین اور ضروری سافٹ وئیر کے ساتھ نئے کمپیوٹر نصب کیے گئے۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں ایک منزل کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ جس میں آٹھ کمرے تعمیر کئے جائیں گے۔اس کے ساتھ عمارت میں لفٹ کی کمی ہے ،اسے دور کیا جائے گا۔ نئے ہال بنائے گئے ہیں تاکہ آمدنی کے مزید وسائل پیدا ہوسکیں
اسی طرح جمنا زیم کی بھی شکل بدل گئی ہے ۔جس میں کئی جدید آلات اور مشینیں لگائی ہیں ۔ موجودہ سال میں ایک نیا کارڈیو-جیم خاص طور پر درمیانی عمر والوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ بلیئرڈس اینڈ سنوکر انسٹی ٹیوٹ کا قدیم ترین سیکشن ہے،جس کی پچھلے چند سال کے دوران اس کی شکل بدل دی گئی ہے ۔ بلیئرڈ ہال کو مکمل طور پر تزئین و آرائش اور ایئر کنڈیشنڈ کیا گیا ہے ۔ یہ انسٹی ٹیوٹ کے بلیئرڈ سیکشن کے لیے ایک عہد ساز سال تھا۔اس نے 2017میں بلیئرڈز اور اسنوکرز کے لیے سیزن کے پہلے مغربی بنگال اسٹیٹ رینکنگ چیمپین شپ ٹورنامنٹ کے انعقاد کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ دانشوروں کا مرکز
مسلم انسٹی ٹیوٹ میں کیرئیر کاونسلینگ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے اغراض و مقاصد کی ایک طویل فہرست ہے جن میں تعلیم ،تربیت،کوچنگ اور روزگار کے تعلق سے عزائم کا ذکر ہے لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ پہلے دو نکات کچھ یوں ہیں ۔۔۔ اول مختلف مذہبی سماجی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کے رشتوں کی حوصلہ افزائی اور پروان چڑھانا، اس طرح "قومی یکجہتی" کے تصور کو تقویت دینا۔دوئم مذہبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور مختلف مذہبی، سماجی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کے درمیان خیالات اور افکار کے تبادلے کو فروغ دینا۔
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ایک کوچنگ کلاس کا منظر