مسلم انسٹی ٹیوٹ :ایک وراثت ۔جس کا پہلا صدر تھاایک انگریز اور اعزازی ممبر رہے ٹیگور

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-12-2023
مسلم انسٹی ٹیوٹ :ایک وراثت ۔جس کا پہلا صدر تھاایک انگریز اور اعزازی ممبر رہے ٹیگور
مسلم انسٹی ٹیوٹ :ایک وراثت ۔جس کا پہلا صدر تھاایک انگریز اور اعزازی ممبر رہے ٹیگور

 



منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

 مسلم انسٹی ٹیوٹ  ۔۔۔۔ صرف ایک ادارہ نہیں ۔ایک تاریخ ہے ۔۔۔ ایک وراثت ہے۔۔۔ غیر منقسم بنگال میں جس کے پہلے صدر ایک انگریز تھے۔ نام ’’مسلم انسٹی ٹیوٹ‘ ہونے کے باوجود غیر مسلم دانشور اور ادیب بھی اس کے ممبر تھے۔ مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوبل انعام یافتہ انقلابی بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور بھی اعزازی ممبر تھے۔۔۔ یہ ادارہ ممتاز دانشوروں ،سماجی شخصیات ،سیاستدانوں اور علمی ہستیوں کے ذہن کی پیداوار تھا،یہی وجہ ہے کہ  مسلم انسٹی ٹیوٹ ایک سوچ  ہے ایک نظریہ ہے، ایک پلیٹ فارم ہے ۔۔۔ جو اپنے منفرد مقاصد کے سبب پچھلے ایک سو بیس سال سے صرف اہل کولکتہ ہی نہیں بلکہ اہل بنگال کی زندگی کا حصہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس ادارے کے نقش موجود ہیں ۔ بات تعلیم کی ہو ،تربیت کی،کھیل کی ہو،علم و ادب کی۔ یا پھر سماجی وثقافتی سرگرمیوں کی ۔ یہاں تک کہ شادی خانہ آبادی کی ۔۔۔۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کا نام اور کام اس کی کامیابی اور بلندی کی گواہی دیتا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد 1902میں اس مقصد سے رکھی گئی تھی کہ مسلم نوجوانوں کو 1857کے غدر کے بعد کے حالات میں مایوسی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔نوجوانوں کو مثبت سوچ کے ساتھ نہ صرف منظم رکھا جائے بلکہ زندگی کا سامنا کرنے کی راہ  بھی بتائی جاسکے ۔

 کولکتہ کے حاجی محسن اسکوائر میں واقع مسلم انسٹی ٹیوٹ  کی تاریخ اسے ایک وراثت کا درجہ دیتی ہے ۔یہ بنگال میں مسلمانوں کا واحد ایسا ادارہ ہے جو ایک چھت کے نیچے تعلیم سے تربیت تک لاتعداد سہولیات مہیا کراتا ہے۔ جہاں ہائر سکنڈری کی سطح کی کوچنگ سے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ سہولیات مہیا کی جاتی ہیں،جن میں لائبریری سے کمپیوٹر روم تک شامل ہیں۔ طلبا کی کاونسلنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی بہتر طور پر ہوسکے۔ سب انسپکٹر کےامتحان کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ گریجویشن کے بعد سول سروسیز کے ابتدائی ٹیسٹ کی تیاری کا انتظام ہے ۔اس کے ساتھ  مسلم انسٹی ٹیوٹ علمی ،ادبی اور ثقافتی  سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں سمینار،مباحثہ اور مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں جبکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ہال کو شادیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ سرگرمیا ں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کولکتہ والوں کی زندگی میں کہیں نہ کہیں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی حصہ داری ضرور رہتی ہے۔

یاد رہے کہ ادارے کا قیام تو 1902 میں ہوا تھا مگر موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد 1931 میں غیرمنقسم بنگال کے گورنر سر فرانسس اسٹینلے جیکسن نے رکھا تھا جبکہ 1939-1940 میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کے پہلے منتخب صدرغیر منقسم بنگال کے وزیر اعلی اے کے فضل الحق تھے۔آج ایک چھت کے نیچے مختلف شعبوں کے ماہر اپنے اپنے فن اور صلاحیتوں کو سنوار رہے ہیں ،نکھار رہے ہیں اور آزما رہے ہیں اور پرچم لہرا رہے ہیں ،ساتھ ہی ادارے کی عظمت کو سلام کررہے ہیں ۔

awazurduمسلم انسٹی ٹیوٹ کا ایک منظر


awazurduمسلم انسٹی ٹیوٹ کے عامر حسین جنہوں نے نیشنل گیز گوا میں بلیرڈس میں برونز میڈل حاصل کیا


حال میں ہی یہ بیان نظر آیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
اگر مسلم انسٹی ٹیوٹ نہ ہوتا تو شاید میڈل حاصل کرنا  تو دور کی بات بلئیرڈس کھیلنا بھی ممکن نہ ہوتا ۔۔۔ یہ اس ادارے کی چھت کے نیچے دستیاب تقریبا مفت سہولیات ہیں جو غریب ہو یا متوسط خاندان کے بچے اپنے جوہر دکھا پا رہے ہیں
۔۔ یہ الفاظ ہیں عامر حسین کے ۔جنہوں نے حالیہ نیشنل گیمز گوا میں بنگال کی جانب سے پہلی بار متعارف بلئیرڈس میں برونز میڈل حاصل کیا مگر نوجوان کی کامیابی اور برونز میڈیل کے پیچھے پوشیدہ ہے --- مسلم انسٹی ٹیوٹ ۔- اگر معمولی فیس پر بلیرڈس کی سہولت مہیا نہ کرائی ہوتی تو یہ خواب پورا نہ ہوتا ۔ عامر حسین کا کہنا ہے میرا اس ادارے کے ساتھ دو دہائیوں کا رشتہ ہے،میں نے پہلی بار اپنے دوست کے ساتھ اس میں قدم رکھا تھا۔ بلئیرڈس روم دیکھ کر کھیلنے کی خواہش ہوئی ،لیکن پھر یہ خیال آیا کہ بہت مہنگا سودا ہوگا ،اخراجات کیسے برداشت ہوسکیں گے۔لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ ’بلئیرڈس روم کی فیس فی گھنٹہ صرف 30روپئے ہے تو 2001میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کا ممبر بن گیا ۔آج میں اس روم کا انچارج بھی ہوں ۔اس بلئیرڈس روم کی شکل بھی بالکل بدل چکی ہے ۔جدید سہولیات کے ساتھ۔مگر اس میں آج بھی فیس فی گھنٹہ ساٹھ روپئے ہے تاکہ اس کا فائدہ ہر طبقہ کے نوجوان حاصل کرسکیں ۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جو نوجوانوں کو تعلیمی ،علمی ،سماجی اور اسپورٹس کی سرگرمیوں کے لیے مواقع مہیا کرتا ہے ،کسی کے لیے تعلیم گاہ ہے،کسی کے لیے علمی آشیانہ ،کسی کے لیے سماجی زندگی کا مرکز ہے تو کسی کے لیے کھیل کا میدان۔۔۔عامر حسین کہتے ہیں مسلم انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ چار نوجوانوں کو انڈین ریلویز میں ملازمت ملی ہے۔انہیں خود کورونا سےقبل اسپانسر شپ حاصل رہی تھی لیکن اس کے بعد جدوجہد جاری ہے۔
بہتر سے بہتر 
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے صدر اور ترنمول کانگریس کےممبر پارلیمنٹ  ندیم حق نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ادارہ ایک ویژن سے ہی چلتا ہے نہ کہ پیسے سے،اگر ویژن ہے تو راستے خود بخود نکل پڑتے ہیں۔ایک مثبت سوچ اور منصوبہ بندی بہت اہم ہوتی ہے۔ اس ادارے کی ایک تاریخ ہے جو اس کی عظمت کی گواہی دیتی ہے ۔ایک وراثت کے طور پر ہم اس کی نگہبانی کررہے ہیں ۔ ادارے میں متعدد سیکشن ہیں ۔اب ضرورت ہے اس کے بنیادی ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے کی۔ ہم اسی کے تحت کام کررہے ہیں ۔عمارت میں ایک منزل کی توسیع کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ایک آڈیٹوریم  کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ جو سرگرمیا ں پہلے سے جاری ہیں انہیںاور بہتر کیا جاسکے اور ساتھ ہی ادارے کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔ ندیم الحق نے کہا کہ 2017میں ادارے کی کمان سنبھالی تھی اور کوشش یہی رہی ہے کہ جو سہولیات پہلے سے موجود تھیں  انہیں مزید بہتر کیا جاسکے اور کچھ نئی پہل کی جائیں  اور ہم اس میں بڑی حد تک کامیاب ہیں  
کب اور کیسے پڑی بنیاد میں
مسلم انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا تعلق 1857غدر کی ناکامی س جڑا ہوا ہے،جب ملک میں ہر کوئی انگریزوں کے مظالم اور دست آہن کے سبب مایوسی کا شکار ہو رہا تھا۔اس وقت یہ فیصلہ ہوا کہ مسلم نوجوانوں کو اس سے محفوظ رکھنے کےلیے کوئی پہل کی جائے ۔
کولکتہ  کے ممتاز دانشور پروفیسر منصور عالم نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔دراصل مدرسہ عالیہ کے طلبا نے مسلم لٹریری سوسائٹی اور سوسائٹی  فار میوچل  امپرومینٹ آف ینگ مین نامی دو تنظیمیں بنائی تھیں ۔دونوں تنظیموں کے اراکین کی اکثریت مشترک تھی اور دونوں حلقوں کا نصب العین بھی ایک ہی تھا یعنی فن، ثقافت اور ادب کا فروغ کے ساتھ مسلم نوجوانوں کے لیے ان کی ثقافتی، علمی اور سماجی ترقی کے لیے ایک بہتر پلیٹ فارم مہیا کرنا ۔اس وقت مسلم نوجوانوں کے لیے تعلیمی ،علمی،سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کرنے کا خیال آیا تھا۔
اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مولوی عبدالمکرم، فضل وہاب، چوہدری عزیز الحق، نواب عبدل فیاض، محمد عبدالعلی، مولوی حامد اور مولوی عبدالرشید شامل تھے۔ ذہن سازی کے کئی دوروں کے بعد، کمیونٹی کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے کے خیال کو وسیع پیمانے پر قبولیت ملی۔
سنہ 1902 میں نتیجتاً مسلم انسٹی ٹیوٹ ان دانشوروں کی اجتماعی کوششوں سے وجود میں آیا جس کی حمایت یہاں تک کہ ایک حکمران طبقے یعنی انگریزوں کے لوگوں نے کی۔کلکتہ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر  ایچ اے اسٹارک اس کے پہلے صدر، ڈاکٹر سر ای ڈینیسن راس، خزانچی اور مولوی کمال الدین احمد، اس ادارے کے پہلے سکریٹری بنے۔
پروفیسر منصور عالم نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بڑی بات یہ رہی کہ بہت کم وقت میں یہ پہل کا میاب ہوگئی۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ مسلم نوجوانو ں کو علمی ،تعلیمی ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہا ۔ساتھ ہی  یہ ادارہ  سیاسی، سماجی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا بھی مرکز بن گیا۔
 انہوں نے کہا کہ جس ادارے کی بنیاد مدرسہ عالیہ میں رکھی گئی تھی اسے 1923میں حکومت نےمدرسہ عالیہ کےعقب میں زمین دی جس پر موجودہ عمارت کی تعمیر ہوئی تھی
پروفیسر منصور عالم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے کی تاریخ کو ابتک یکجا یا سمیٹا نہیں جاسکا ہے ،اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کولکتہ کی نیشنل لائبریری میں آزادی سے قبل کے اخبارات میں بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ 
اگر حالیہ برسوں کی بات کریں تو 1992-2000 تک میر محمد عمر،2000-2004 تک کلیم الدین شمس،سابق اسپیکر، 2004-2017 تک حیدر عزیز صفوی (ریٹائرڈ۔ آئی پی ایس)، 2017 -2017 تک سلطان احمد، ایم پی صدر رہے ۔ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے حالیہ برسوں ،میں  پرفیسر سلیمان خورشید،شیخ شمشیر عالم( آئی آر ایس)نثار احمد( اے سی پی) کے نام بھی قابل ذکر ہیں،اب ترنمول کانگریس کے ایم پی ندیم الحق نے  2017 سے اس کی صدارت سنبھال رکھی ہے
awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری 


awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ  میں سول سروسیز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے انٹرویوز کی مشق بھی کرائی جاتی ہے


اسٹارک سے ٹیگور تک ۔۔۔  غیر مسلم ممبر

یہ ادارہ صرف نوجوانوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ہی دانشوروں کا بھی مرکز بنا ۔ قبل آزادی سے ابتک نوجوانوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ  دانشورو طبقہ بھی اس سے جڑا رہا ہے ،جس میں صرف مسلمان نام ہی نہیں تھے بلکہ غیر مسلم بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کولکتہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں بڑے ادبی پروگراموں کے گواہ بنے ہیں۔ادارے نے مقبولیت پائی، یہی نہیں اس میں غیر مسلم بھی جڑ گئے۔نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور، سر گروداس بنرجی، ہری ناتھ ڈے، مشہور لسانی اسکالر جنہوں نے 28 زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ سر روپر لیتھ برج، سلم ریڈکلف۔ دی اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر، رائے سرت چندر داس، کمار دی کملندا سنگھ (سری نگر کے راجہ) اور ایسی کئی معزز شخصیات اس کے اعزازی ممبر بنیں۔ ادارے میں شہر کے نامی گرامی دانشوروں نے محفلوں کا انعقاد شروع کیا ۔ بات سمیناروں سے مشاعروں تک پہنچ گئی لیکن اس کے ساتھ ادارے کا نوجوانوں کے تئیں جوعزم تھا وہ بر قرار رہا۔کھیلوں کے میدان میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی پیشقدمی جاری رہی-۔

ایک چھت کے نیچے 14سیکشن

اس وقت مسلم انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم، لائبریری،ٹیبل ٹینس،بلیئرڈ اوراسنوکر،کیرم،جمنازیم ،کرکٹ ،فٹ بال،ہاکی ،سوشل،ڈرامہ،ڈیبیٹس اور کوئز کے سیکشن ہیں ۔ایک اہم سیکشن تعلیم کا ہے جو  ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انسٹی ٹیوٹ کے لیے باعث فخررہا ہے۔ یہ سیکشن اپنی مختلف، تعلیمی اورغیر نصابی سرگرمیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔اس سیکشن کی تین اہم ترین سرگرمیاں اعلیٰ ثانوی امتحانات کے طلبہ کے لیے کوچنگ سینٹر، کمپیوٹر ایجوکیشن سینٹر اور مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کا اسٹڈی سینٹر ہیں۔ کوچنگ سنٹر، جو کہ انٹینسیو کوچنگ سنٹر کے نام سے مشہور ہے۔محمد نظام شمیم، ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر جن کی کوششوں سے سینکڑوں طلباء کو مسابقتی امتحانات کی تیاری میں مدد ملی اور محمد جہانگیر، ماہر تعلیم اور کولکتہ میں قائم سیفی ہال اسکول کے سابق پرنسپل نے بھی اس مشن میں بہت مدد کی ۔طلباء کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اساتذہ کے ذریعہ آرٹس اور سائنس کے مضامین کے لیے باقاعدہ اور وسیع موک ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔  طلباء سے متعلق پروگرام بھی ترتیب دیتے ہیں جیسے کیرئیر کونسلنگ سیشنز، گروپ انٹرایکشن وغیرہ۔ ان پروگراموں میں معروف ماہرین تعلیم کو طلبا اور ان کے والدین کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

 تعلیم اور کھیل کے ساتھ  مسلم انسٹی ٹیوٹ نے آزادی کے بعد اردو ڈرامہ اسٹیج کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر نیاز احمد خان،  کمال احمد، ظہیر انور،  فیروز احمد شاہین نامور ڈرامہ نگاروں نے اردو ڈرامے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مسلم انسٹی ٹیوٹ نے بطور ڈرامہ نگار کیریئر کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب اس میں اردو کے ساتھ بنگالی اور ہندی زبان میں کئی ڈرامے اسٹیج کیے جاتے ہیں۔

ادارے میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صد سالہ، مولانا عبدالکلام آزاد صد سالہ رابندر ناتھ ٹیگور کی 125ویں یوم پیدائش، کثیر لسانی افریقی ایشیائی مصنفین کا سمپوزیم منعقد کیا۔اس نے پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے تیسرے مشترکہ کنونشن کی میزبانی کی جس میں پاکستان سے 167 مندوبین اور ہندوستان سے 200 مندوبین نے شرکت کی۔ کئی آل انڈیا سیمینار اور آل انڈیا مشاعرے کامیابی سے منعقد ہوئے۔ 1997 میں مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ایک بہت بڑے پیمانے پر اور شاید مرزا غالب کی دو صد سالہ تقریب کا سب سے بڑا اہتمام کیا تھا ۔

awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ کا بلئیرڈ س روم 


awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ  کا جمنازیم ۔۔۔نوجوانوں کے لیے کشش کا باعث رہا ہے 


ایک روشن ادارہ

اتار چڑھاو تو ہر کسی کی زندگی یا تاریخ میں آتے ہیں ۔ ایسا مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ بھی ہوا ،اچھے دن آئے ،کبھی برے دن بھی آئے لیکن اس چراغ کی لو ہمیشہ روشن رہی،طوفان اورآندھیاں اسے نہیں بجھا سکیں ۔اہل کولکتہ نے ادارے کو ہمیشہ سہارا دیا یہی وجہ ہے کہ ایک سو بیس سال گزر جانے کے باوجود مسلم انسٹی ٹیوٹ بنگال کے مسلمانوں کی سماجی، ثقافتی، کھیل اور تعلیمی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔

مسلم انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سکریٹری اور ریٹائرڈ ڈی سی پی،کولکتہ پولیس نثار احمد نے آواز دی وائس کو بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں،جدت کاری کا سہارا لیا گیا۔مسلم انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری مکمل تزئین و آرائش اور خودکار ہے۔ کمپیوٹرائزڈ کیٹلاگنگ اور جدید ترین سافٹ ویئر اور ایئر کنڈیشنڈ ماحول کے ساتھ کتابوں کی جدید اسٹیکنگ کے ساتھ لائبریری کو ایک نئی زندگی دی گئی ہے ۔ کمپیوٹر ہال کی تزئین و آرائش کی گئی اور جدید ترین اور ضروری سافٹ وئیر کے ساتھ نئے کمپیوٹر نصب کیے گئے۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں ایک منزل کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ جس میں آٹھ کمرے تعمیر کئے جائیں گے۔اس کے ساتھ عمارت میں لفٹ کی کمی ہے ،اسے دور کیا جائے گا۔ نئے ہال بنائے گئے ہیں تاکہ آمدنی کے مزید وسائل پیدا ہوسکیں 

اسی طرح جمنا زیم کی بھی شکل بدل گئی ہے ۔جس میں کئی جدید آلات اور مشینیں لگائی ہیں ۔ موجودہ سال میں ایک نیا کارڈیو-جیم خاص طور پر درمیانی عمر والوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ بلیئرڈس اینڈ سنوکر انسٹی ٹیوٹ کا قدیم ترین سیکشن ہے،جس کی پچھلے چند سال کے دوران اس کی شکل بدل دی گئی ہے ۔ بلیئرڈ ہال کو مکمل طور پر تزئین و آرائش اور ایئر کنڈیشنڈ کیا گیا ہے ۔ یہ انسٹی ٹیوٹ کے بلیئرڈ سیکشن کے لیے ایک عہد ساز سال تھا۔اس نے 2017میں بلیئرڈز اور اسنوکرز کے لیے سیزن کے پہلے مغربی بنگال اسٹیٹ رینکنگ چیمپین شپ ٹورنامنٹ کے انعقاد کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ دانشوروں کا مرکز 


awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ میں کیرئیر کاونسلینگ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے


مسلم  انسٹی ٹیوٹ کے اغراض و مقاصد کی ایک طویل فہرست ہے جن میں تعلیم ،تربیت،کوچنگ اور روزگار کے تعلق سے عزائم کا ذکر ہے لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ پہلے دو نکات کچھ یوں ہیں ۔۔۔ اول  مختلف مذہبی سماجی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کے رشتوں کی حوصلہ افزائی اور پروان چڑھانا، اس طرح "قومی یکجہتی" کے تصور کو تقویت دینا۔دوئم مذہبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور مختلف مذہبی، سماجی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کے درمیان خیالات اور افکار کے تبادلے کو فروغ دینا۔

مسلم انسٹی ٹیوٹ اس بات پر یقینا فخر کرسکتا ہے کہ ایک سو بیس سال کے دوران ادارہ ان  قراردادوں،عزائم اور وعدوں  کو دل و دماغ میں زندہ رکھا ہے بلکہ ان پر قائم بھی ہے۔

awazurdu

مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ایک کوچنگ کلاس کا منظر