عبدالرحمٰن پاشا
ریختہ فاؤنڈیشن کی جانب سے جشن ِریختہ کسی تہوار کی طرح گزر گیا۔ تین دنوں کے دوران دہلی میں جشن ِریختہ کے چرچے رہے۔ ایک زمانے میں لوگ جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے ناولوں کو پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھتے تھے؛ کسی حد تک یہ بات ریختہ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کوششوں کی وجہ سے کئی لوگ اردو پڑھنا سیکھ رہے ہیں۔
جشن ِریختہ میں شرکت کرنے والی ایک لڑکی نے، جس کا تعلق کیرالہ سے ہے، کہا کہ میں ریختہ کے مختلف پلیٹ فارمس پر شاعری کی پیشکش کی وجہ سے متاثر ہو کر اردو سیکھ رہی ہوں۔ لڑکی کو ہندی بھی نہیں آتی، لیکن جب اس سے اردو کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے کہا گیا تو اس نے عمدہ انداز میں ’ا‘ سے لے کر ’ے‘ تک حروف تہجی کو صرف تیس سکنڈ میں بخوبی منہ زبانی سنایا اور بتایا کہ میں ریختہ کی مدد سے اردو پڑھنا، لکھنا اور بولنا سیکھ رہی ہوں۔
زبانوں کے سلسلے میں جتنی محبت، اپنائیت اور فخر کا جو احساس ہونا چاہیے، یہی لگاؤ جشن ِ ریختہ کے تین دن (وقتیہ ہی صحیح) اردو زبان کے سلسلے میں نظر آیا، مختلف فکر و خیال کے لوگ ایک ساتھ جمع ہوئے اور تبادلہئ خیال کیا۔ ہر طرف اردو کے بارے میں کہا گیا، اردو کے اشعار پڑھے گئے۔ جہاں جہاں اردو کے اشعار کنندہ ہیں؛ وہاں ٹھہر کر بڑے فخر اور خوشی سے سلیفی اور تصاویر لی گئی۔ کئی نوجوانوں نے تو مشہور اشعار کو یاد بھی کیا اور اس کو دہراتے گئے۔ ہر طرف جوش، جذبہ اور والہانہ وابستگی نظر آئی۔
نئی دہلی میں واقع انڈیا گیٹ کے سامنے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم جیسے وسیع و عریض میدان میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی تھی۔ ریختہ کے بانی سنجیو صراف نے افتتاحی تقریب میں گلزار دہلوی، شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ اور دیگر شعراء، ادبا اور عاشقانِ اردو کو یاد کیا تھا، جو گزشتہ دو تین سال کے دوران اردو دنیا کو خیر آباد کہہ گئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ زبان سے محبت کرنے والوں، اس کی بھرپور تاریخ اور ثقافت کا جشن منانے کا تہوار ہے۔
سسراف نے کہا کہ نوجوانوں میں اردو شاعری میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہمارے زیادہ تر قارئین اردو رسم الخط نہیں پڑھ سکتے، ہم نے ریختہ ویب سائٹ پر دستیاب مواد کو رومن اور دیوناگری میں شامل کیا ہے۔
افتتاحی تقریب میں نغمہ نگار جاوید اختر سب کے مرکز ِنگاہ رہے۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ تمام تر ترقی کے باوجود ادب اور شاعری کو کہیں نہ کہیں نظر انداز کیا گیا۔ اس خلا ء کو پر کرنے کے لیے سنجیو صراف نے بے مثال اور منفرد کوشش کی۔ آج ریختہ دنیا بھر میں اردو کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔
اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اردو ہندی ایک جیسی زبان ہے۔ دونوں زبانوں کے الفاظ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ دونوں زبانوں کو ایک دوسرے سے مدد لینا چاہیے۔ اردو زبان سے نئے نئے خیالات کے حامل لوگ جڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے اردو کا مستقبل روشن تر ہے۔
ایک بڑی بحث اردو کے رسم الخط سے جڑی ہوئی ہے جو ہر بار جشن ریختہ کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ دب جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سب کچھ اردو کے نام پر ہے لیکن رسم الخط غائب ہے جو کہ قابل فکر ہے لیکن ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو اردو کو سننے اور رومن یا دیوناگری میں پڑھنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے
اردو رسم الخط اور خدشات
رواں برس جشن ِریختہ(2 تا 4 دسمبر2022) بینک آف بڑودہ کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ وہیں 34 مختلف خالص کمرشیل اور غیر اردو اداروں نے بھی جشن ِریختہ میں تعاون کیا۔ جس میں بی ایف ایل، ٹرولیکس انڈیا پرائیوٹ لمیٹیڈ، بسلری، پنجاب ہائڈرو پرائیوٹ لمیٹیڈ، ایچ ڈی ایف سی آرگو، گنگا، ایئرٹل، دینک بھاسکر، پراتھم انٹرنیشنل اور دیگر سپورٹرس قابل ذکر ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خالص اردو اداروں نے جشن ِریختہ کے تعاون کے لیے پیشکش نہیں کیا ہوگا؟ حد تو یہ ہے کہ جشن ِ ریختہ 2022 کا جو سووینیر /کتابچہ شائع کیا گیا، اس میں بھی کسی اردو ادارہ کا اشتہار نظر نہیں آیاتو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ وہ اس موقف میں نہیں ہوں گے کہ کمرشیل تعاون پیش کرسکے۔
اردو اداروں کی اپنی سرگرمیاں ہیں۔تین سال کے طویل وقفہ کے بعد جشن ِریختہ کی تاریخوں کا جیسے ہی اعلان کیا گیا، تو ’صارفین‘نے مختلف پلیٹ فارمس پر کمنٹس کیے کہ اس میں اردو رسم الخط کو ’نظر انداز‘ کیا جا رہا ہے۔ پروگرام کے شیڈول میں بھی اردو رسم الخط کے بجائے رومن انگلش کو جگہ دی گئی۔ جشن کے مختلف متوازی سیشنس جیسے صدا و ساز، محفلِ خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سکون زار جیسے خالص اردو کے الفاظ کو بھی اردو رسم الخط کے بجائے رومن میں لکھا گیا ہے۔
جشن ِریختہ کے سووینیر میں از اول تا آخر سوائے ’جشن ریختہ‘ کے اور کوئی اردو رسم الخط نظر نہیں آیا۔ جب کہ سال 2017 کے سووینیر میں اردو رسم الخط کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا تھا۔ کئی اردو الفاظ کا اردو رسم الخط سمیت رومن انگریزی اور ہندی و انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔
دہلی میٹرو اور دہلی کی ایک مشہور ہوٹل میں، میں نے نوجوانوں کو جشن ِ ریختہ میں اردو رسم الخط کے عدم استعمال یا اسے ’نظر انداز‘ کرنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوا سنا۔ دونوں جگہ اس بارے میں گفتگو ہوتے رہی کہ ریختہ کا سفر اردو زبان سے اور اردو زبان کے لیے شروع ہوا ہے، ریختہ نے اپنے سفر میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں؛ لیکن عوامی مقبولیت کی وجہ سے ’اردو کی اصل روح‘ یعنی اردو رسم الخط کو نظر انداز کیا جانا مناسب نہیں ہے۔
جشن کے دوسرے دن ’اردو صحافت کے دو سو سال‘ کی نشست میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا اردو کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے دیوناگری رسم الخط کو بھی استعمال کیا جائے؟ اس پر معروف صحافی شاہد صدیقی نے کہا کہ اردو کی اصل اس کا رسم الخط ہے، دیوناگری بھی استعمال کی جاسکتی ہے؛ لیکن پابندی کسی رسم الخط پر نہیں لگانا چاہیے اور صرف ایک رسم الخط تک زبان کو محدود نہیں رکھنا چاہیے۔
روزنامہ انقلاب دہلی کے سابق ایڈیٹر شکیل شمسی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہندی زبان کا اپنا رسم الخط ہے، اس کے اپنے الفاظ ہیں؛ اسی طرح اردو کا بھی رسم الخط ہے۔ کئی ایسے الفاظ ہیں، جو دیوناگری یا رومن میں ادا نہیں کیے جاسکتے۔
شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ کی یاد میں منعقد’میں گیا وقت نہیں ہوں‘ نشست میں ایک صاحب نے سوا ل کیا کہ جسے اردو رسم الخط نہیں آتی، وہ کیا کرے؟اس کے جواب میں شاعر شین کاف نظام نے کہا کہ اردو رسم الخط کو سیکھنا ضروری ہے، تب ہی زبان و ادب کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اردو رسم الخط کو روزمرہ زندگی میں برتنا بھی چاہیے۔
رومن یا دیوناگری رسم الخط؟
روزنامہ انقلاب دہلی کے ریسیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر یامین انصاری نے لکھا ہے کہ ”الزام لگتا ہے کہ ریختہ اردو رسم الخط کو ختم کر رہا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ دیکھیں تو اردو خوب نظر آئے گی۔ اردو کی کتابوں کے اسٹال پر، اردو خطاطی کے نمونوں پر، اردو کی تحریروں سے مزئین بہت سی اشیاء پر عام لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔ ہاں دیوناگری اور رومن خط میں بھی اردو رہتی ہے، مگر ہم خالص اردو کے پروگراموں میں، جہاں بس اردو ہی اردو ہو، کیا اس طرح کے لوگوں کی شرکت کو یقینی بنا سکتے ہیں؟“
اس کے برعکس جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے لکھا کہ ”ریختہ ایک ایسی نسل تیار کر رہا ہے، جو اردو رسم الخط سے نابلد ہو لیکن اردو کے تمام اسٹیج پر اسی کی جلوہ گری ہو۔ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہے۔ ریختہ کوئی سرکاری ادارہ نہیں، بلکہ ایک نجی تنظیم ہے۔ نجی تنظیم کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ ریختہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہے کہ انھیں اگلے دس برسوں میں ایک ایسی نسل تیار کرنی ہے جو الف ب سے بھی واقف نہ ہو لیکن وہی نسل اردو کی ہر سطح پر نمائندگی کرے۔ البتہ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اردو کو اپنی بساط بھر سینچیں“۔
ایک ضمنی تاثر
ہندی اور انگریزی کے اشاعتی ادارے اردو ادب، شاعری اور فکشن کو بڑے اہتمام سے شائع کررہے ہیں۔ اردو کے کلاسیکل شعرا ء و ادبا کی تخلیقات کو قارئین کے ذوق کے پیش نظر رکھ ہندی اور انگریزی میں کتابیں دستیاب ہیں، جس میں ضخیم کتابوں سے لے کر پاکٹ سائزکے مختصر کتابچے بھی شامل ہیں۔ ہندی و انگریزی خواہ طبقہ حالی، اکبر الہ آبادی، علاقہ اقبال، ذوق، مرزا غالب، ابن صفی، فیض احمد فیض، قرۃ العین حیدر، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو سے لے کر خالد جاوید تک شوق سے پڑھ رہا ہے۔
ہندی و انگریزی کے اشاعتی ادارہ اردو کے شعری و ادبی سرمایہ کو دوسری زبانوں میں منتقل کر کے اس کے قارئین تک پہنچا رہے ہیں اور یہ کتابیں مارکٹ میں اچھا خاصا ’اسپیس‘ بھی بنارہی ہیں۔ جشن ِریختہ میں جتنے اسٹالس تھے، ان سب میں رومن ہندی اور رومن انگریزی کتابوں کی بھرمار رہی، اسے ہاتھوں ہاتھ خریدا بھی کیا، لیکن معاملہ اس کے برعکس نظر آیا۔ اردو میں انگریزی و ہندی ادب، شاعری اور کلاسیکل شعرا سے متعلق کتابوں کی کمی محسوس ہوئی۔ اردو زبان کے فروغ کے لیے جو بھی آگے آئے، اس کے لیے ’موسٹ ویلکم‘ ہے!