ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور بریانی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 11-10-2023
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور بریانی
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور بریانی

 



غوث سیوانی، نئی دہلی    

      اگر ہندوستان کے مقبول کھانوں کا سروے کیا جائے تو اس فہرست میں سب سے اوپر بریانی کا نام آئے گا۔ ملک کا کوئی ایسا صوبہ نہیں جہاں بریانی نہ پسند کی جاتی ہو۔ اسے پکانے کی سینکڑوں ترکیبیں مل جائیں گی اور اس کے بہت سے ذائقے بھی مل جائیں گے مگر بریانی بہرحال ایک ہے۔ اس ڈش کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ہندوستانی ہے۔ ہندوستانی مسلمان جس قدر دیسی ہیں اسی قدر بریانی بھی دیسی ہے۔جس طرح لٹی،چوکھا، مکے کی روٹی، سرسوں کا ساگ، اڈلی،ڈوسا دیسی ہیں،اسی طرح بریانی بھی دیسی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا وجود مکمل نہیں ہوسکتا، اسی طرح بریانی کے بغیر ہندوستانی کھانوں کا ذائقہ بھی ادھورا ہے۔ اس کے مکمل ہندوستانی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے انواع واقسام کے مسالوں کے پیدا ہونے کی زمین ہندوستان ہی ہے۔ یہ مسالے اگر دنیا کے دوسرے ملکوں میں ملتے بھی ہیں تو وہ یہاں سے ایکسپورٹ ہوکر جاتے ہیں اور ہزاروں سال سے سرزمین ہند کی شناخت دنیا بھر میں مسالوں کی سرزمین کے طور پر رہی ہے۔

            آپ نے بریانی کھائی ہے؟ اگر کھائی ہے تو کونسی بریانی کھائی ہے؟ کلکتہ والی بریانی یا حیدرآبادی بریانی؟ یخنی بریانی یا دم بریانی؟ لکھنوی بریانی یا سندھی بریانی؟کچی بریانی یا میسوری بریانی؟میمنی بریانی یا کلیانی بریانی؟ مغلئی بریانی یا کوفتہ بریانی؟بریانی کی اس کے علاوہ بھی بہت سی قسمیں ہیں اور ان دنوں تومچھلی بریانی،جھینگابریانی، سبزی بریانی، جیسے الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں۔ اگر آپ نے ان میں سے کسی بھی قسم کی بریانی کا ذائقہ چکھا ہوتو قسم کھاکربتائیے کہ کیا آپ کو مزہ نہیں آیا؟ اگر نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی زبان اورقوت ذائقہ کو علاج کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ بریانی کھائیں اور مزہ نہ آئے۔ یہی سبب ہے کہ آج ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں بریانی ملنے لگی ہے اور ریسٹوراں سے لے کر گھروں تک میں پکنے لگی ہے۔ برصغیر کے لوگوں کے بیچ تو بریانی مقبول ہے ہی مگر اب تو اس کا ذائقہ غیر ملکیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس کی مقبولیت سرحد کی حدود کو پار کر رہی ہے۔

awaz

بریانی ایک ذائقہ انیک

کیسے ایجاد ہوئی بریانی؟

          بریانی کب ایجاد ہوئی اور کیسے ایجاد ہوئی، اس تعلق سے مختلف روایتیں ہیں۔ ان روایتوں کو تاریخی کم اور عوامی زیادہ سمجھنا چاہئے۔ ”بریانی“ کا لفظ فارسی کے ”بریاں“ سے بنا ہے،جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو تیل یا گھی میں پکانا۔اصل میں بریانی ہندوستان کے مسلم عہد حکومت کی ایجاد ہے اور بعض روایتوں کے مطابق اس کا سہرامغل حکمراں شاہجہاں کی بیگم ممتازمحل کو جاتا ہے۔حالانکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے تیمورلنگ نے وسط ایشیا میں پھیلایا تھا جس کا زمانہ اس سے پہلے کا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بریانی ایک فوجی ڈش ہے۔ فوج کے پاس ہمیشہ مختلف قسم کے پکوانوں کے لئے برتنوں کا فقدان رہتا تھا لہٰذا وہ چاول کے ساتھ گوشت اور تمام قسم کے اجزاء اور مسالے کو ایک ہی برتن میں رکھ کر پکا دیتے تھے۔

awaz

کچی بریانی

اس طرح بریانی کی ایجاد ہوئی ہوگی۔اصل بات یہ ہے کہ وسط ایشیا اور ایران میں بریانی سے مشابہ جس کھانے کا رواج تھا وہ فارسی پلاؤ تھا،جس میں چاول اور گوشت کو ساتھ ملاکر پکایا جاتا تھا مگر ممتا زمحل نے اس سے الگ بریانی ایجاد کی جس میں بیشتر مسالے خالص دیسی تھے اور یہیں کے خانسامے پکایا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق جب آصف جاہ کو دکن کانواب مقرر کیا گیا تو انھوں نے اس لذیذ ڈش کو شاہی پکوان کی حیثیت دی اور اسے ٹوئسٹ دینے کی کوشش کی۔ نتیجہ کے طور پر حیدرآبادی بریانی وجود میں آئی۔ یہ بریانی آج مشہور عالم ہے۔ خوش قسمتی سے بریانی کو ابتدا سے ہی بادشاہوں اور نوابوں کی سرپرستی حاصل رہی اور اس نے شاہی باورچی خانوں سے نکل کر عوام کا بھی دل جیتا۔

شاہی سرپرستی اور لاجواب ذائقے کے سبب بریانی کو خاص طور پر مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے لکھنو کے نوابوں کے کچن میں بھی اہتمام کے ساتھ پکایا جانے لگا۔ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کو جب کلکتہ جلاوطن کیا گیا تو ان کے ساتھ بریانی بھی کلکتہ پہنچی اور یہاں کے ماحول میں اسے ایک الگ ٹوسٹ ملا۔ اصل میں کلکتہ ہندوستان کی راجدھانی تھا،جہاں پورے ملک سے آئے ہوئے مختلف فنون کے ماہرین سے لے کر مزدور تک رہا کرتے تھے، البتہ یہاں کے سماج پر اہل بہار کا غلبہ تھا کیونکہ بہار جغرافیائی اعتبار سے بنگال کے قریب تھا،بلکہ کسی زمانے میں بنگال کا حصہ ہی تھا لہٰذا بریانی پر بھی اہل بہار کا اثر پڑا۔ یہاں کے باروچی بھی بہار سے تعلق رکھنے والے تھے۔

awaz

سندھی بریانی

کلکتہ کی بریانی میں کئی الگ الگ مسالے شامل ہوئے۔ یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ بریانی میں آلو شامل کیا جانے لگا۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ شہر میں غریب لوگ بھی تھے اور گوشت مہنگا،جب کہ آلو سستا تھا لہٰذا بریانی میں اضافے کی غرض سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ اسے بعض علاقوں میں ”بہاری بریانی“ بھی کہتے ہیں اور آج آلو اس کا جزولاینفک ہے۔ اس میں قسم قسم کے مسالے ڈالے جاتے ہیں اور یہ بریانی ذائقے میں لاجواب ہوتی ہے۔ اگر آپ کلکتہ جائیں اور اس بریانی کا لطف نہ لیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ آپ نے کچھ کھایا ہی نہیں۔ یوں تو یہ بریانی مٹن اور چکن میں بھی بنتی ہے مگر بیف بریانی کی بات ہی کچھ اور ہے۔

کلکتہ والی بریانی ان دنوں دلی میں بھی مقبول ہورہی ہے اور جو لوگ اسے چکھتے ہیں، اس کے دلدادہ ہوجاتے ہیں۔ بنگال میں ملنے والی بریانی،سے ملتی جلتی بریانی بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بھی ملتی ہے۔ یہ بھی بہت مقبول ہے۔ وہیں بھوپال میں بھی اس سے الگ ایک بریانی عام ہے۔ یہ بریانی کافی دم دار ہوتی ہے۔ اس کی انوکھی خوشبو بہت پرکشش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آج کل مرادآبادی بریانی اچانک دہلی میں فروخت ہونے لگی ہے۔

awaz

ویج بریانی

راجستھانی بریانی کا بھی دھیرے دھیرے چلن ہورہاہے۔ جب کہ حیدرآبادی بریانی میں کچھ نئے تجربے کئے گئے  تو اس نے میسوری بریانی کا روپ لے لیا۔ یہ کام شیرمیسور ٹیپوسلطان کے کچن میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپوسلطان کو بریانی پسند تھی اور اس نے اس میں کئی تجربات کئے تھے۔ ٹیپو کے سبب ہی بریانی کا ایک الگ روپ میسوری بریانی وجود میں آیا۔ جب مغلوں نے حیدرآباد فتح کیا تو یہ حیدرآباد پہنچی اور آصف جاہی سلطنت میں اسے قومی ڈش کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہیں سے یہ ریاست میسور بھی پہنچی اور اسے ٹیپو سلطان کے کچن میں خاص مقام مل گیا۔

ٹیپو کو بریانی کا ذائقہ پسند آیا اور اس نے اسے ٹوسٹ دینے کا کام کیا جسے بعد کے دور میں میسوری بریانی کہا جانے لگا۔ اس بریانی میں کھٹائی اور ناریل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی بریانی ملک کے کسی دوسرے حصے میں نہیں ملتی ہے۔ معروف شیف محی الدین سلطان کا خیال ہے کہ ٹیپوسلطان بیس سال تک حکمراں رہے اور ان میں سے اٹھارہ سال انھوں نے جنگ میں گزارے لہٰذا ٹیپوسلطان اور ان کی فوج کے لئے مٹن، مسالے، قدرتی جڑی بوٹیوں اور کئی اقسام کے میووں کو ملاکر کھانا تیار کیا جاتا رہا۔ یہ کھانا اصل میں بریانی تھا۔  ان کا کہنا ہے کہ کباب میں تلسی ڈالی جاتی تھی جس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جسم میں امراض سے لڑنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔

awaz        

کیرالہ کی بریانی 

 کیرالہ میں مالاباری یا موپلا بریانی ملتی ہے۔ کئی بار تو اس میں گوشت یا چکن کی جگہ مچھلی یا جھینگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں مسالے تیز ہوتے ہیں لیکن اس میں پڑنے والے مواد سے حیدرآبادی خوشبو ضرور آتی ہے۔ پاکستان میں سندھی بریانی پسند کی جاتی ہے۔ فی الحال اپنی خاص خوشبو اور ذائقے کے لیے مشہور بریانی برصغیر کا مقبول ترین کھانا ہے۔ یہ ملک بھر میں بہت شوق سے کھائی جاتی ہے اور کم از کم سو قسم کی بریانی برصغیرپاک وہند میں پکائی جاتی ہے۔ بھارتی مؤرخ اور کھانے کے ماہرپروفیسر پشپیش پنت مانتے میں کہ انڈیا میں بریانی کو نوابی کھانے کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی خوشبو بے مثال ہے اور بریانی اپنے آپ میں ایک مکمل کھانا ہے۔

بریانی کیسے پکتی ہے؟

          بریانی کے اصل اجزاء میں چاول، گوشت ہوتے ہیں مگراس میں مختلف اقسام کے مسالے ڈالے جاتے ہیں اور علاقے علاقے کے اعتبار سے اس میں بدلاؤ بھی آتا ہے۔مسالوں میں گھی، جائفل، جاوتری، کالی مرچ، لونگ، دار چینی بڑی اور چھوٹی الائچی، تیز پات، ادرک، لہسن، پیاز، کاجو، کشمش،دہی اور دودھ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ کچھ علاقوں کی بریانی میں دال، انڈے اور ٹماٹر بھی ڈالے جاتے ہیں۔ اچھی کوالیٹی کی بریانی میں زعفران بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بریانی کی مختلف اقسام ہیں اور انھیں الگ الگ طریقوں سے پکایا بھی جاتا ہے۔دھیمی آنچ پر کافی دیر تک مسالے میں لپیٹے ہوئے گوشت کو اس کے اپنے ہی رس میں پکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس میں چاول کی تہہ ہوتی ہیں اور خوشبودار مسالے بھی ہوتے ہیں۔

awaz

میسوری بریانی

یہ بریانی کتنی بریانی ہے؟

          دلی سے کلکتہ تک اور حیدرآباد سے بھوپال تک آپ جہاں بھی جائیں آپ کو فٹ پاتھ پر کچھ بریانی فروخت کرنے والے مل جائینگے مگر سچ پوچھو تو یہ سب بریانی کے نام پر کوئی اور ہی چیز ہے۔ اصل میں فٹ پاتھ پر بریانی فروخت کرنے والے کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور کھانے والوں میں بھی بیشتر غریب طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، جنھیں سستا کھانا چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کم قیمت پر بریانی کو اس کے اصل لوازمات کے ساتھ تیار کیا جاسکے۔ سچ پوچھا جائے تو بیشتر لوگ اب بھی بریانی کے حقیقی ذائقے سے بے خبر ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر ملنے والی بریانی کو صرف ’کڑھائی بریانی‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں لمبے چاول تو ہوتے ہیں اور زرد رنگ بھی ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی بریانی سے یہ بلکل مختلف ہے۔ اس بریانی میں رنگ ڈالا جاتا ہے جو صحت کے لئے نقصاندہ ہوتا ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کا زیادہ استعمال کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کا رنگ بریانی کے علاوہ کھانوں میں بھی عام ہے۔ کچھ بڑے ہوٹلوں یا اچھے ریستوران میں ہی اسے روایتی طریقے سے پکایا جاتا ہے۔

awaz

جھینگے کی ناریل والی بریانی

اصل میں بریانی دو اقسام سے بنائی جاتی ہے۔ پکی بریانی اور کچی بریانی۔ پکی بریانی بنانے کے دوران سینکا ہوا چاول اور گوشت کی تہیں ایک کے اوپر ایک کرکے ڈالی جاتی ہیں جب کہ کچی بریانی میں خام چاول اور خام تیل، مسالے وغیرہ کے مرکب میں لپیٹے ہوئے گوشت کو ایک کے اوپر ایک رکھ کے پکایا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چکن اور مٹن کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور کبھی مچھلی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اخیر میں ہانڈی کو گوندھے ہوئے آٹے سے سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی ہی بھاپ سے پک سکے۔ دلی میں یخنی بریانی کا رواج ہے جس میں ثابوت مسالوں کو پانی میں ابال دیا جاتا ہے۔ اس میں پسے ہوئے مسالوں سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سبزی بریانی کا رواج بھی ان دنوں بڑھ رہا ہے۔سبزی بریانی میں آلو، گوبھی، گاجر، سویابین اور مٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

          ہندوستانی تہذیب کو گلدستے سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی جس طرح ایک گلدستے میں کئی رنگ اور خوشبو کے پھول ہوتے ہیں اسی طرح ہماری تہذیب بھی ہے مگر مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے ارتقاء کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اسے بریانی کے ذریعے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بریانی،ابتدا میں ایک تھی مگر وہ الگ الگ ریاستوں میں پہنچ کر کئی فلیور والی ہوگئی۔ جس طرح ہندوستانی اقوام، مختلف رنگ ونسل، افکارونظریات اور زبان ورسوم کے پس منظر سے آکر ایک تہذیبی دھارے میں مل جاتی ہیں،بالکل وہی صورت حال بریانی کی بھی ہے۔