ہولی کارنگ،ہندو۔مسلم ایکتاکے سنگ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 17-03-2022
ہولی میں ہندو۔مسلم اتحادکارنگ
ہولی میں ہندو۔مسلم اتحادکارنگ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

رنگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ ہر مذہب کے انسان پر خود کوچڑھاکر ہم آہنگ کردیتا ہے۔ ہولی کی بھی یہ خاصیت ہے کہ یہ سب کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالتی ہے مگرہندوستان کو اتحاد،یکجہتی اور محبت کا رنگ بھاتاہے۔ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تہوار مناتے ہیں۔ جہاں عیدکی تقریبات میں ہندوبرادران شامل ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف ہولی پر مسلمان بھی اپنے ہندواحباب کو مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں۔ اتحادویکجہتی کی ایسی بے شمار مثالیں ملک بھر میں دیکھنے کوملتی ہیں جن میں کچھ کی جھلکیاں ذیل میں پیش ہیں۔

awaz

رام پورکے امبیڈکرپارک میں پھولوں کی ہولی

باندہ کی ہولی

باندہ ،رشی بام دیوکا شہرہے جہاں نواب کے دور سے ہی شہر میں یکجہتی کی ہولی کی روایت چلی آرہی ہے۔ 1890 میں باندہ کےنواب ذوالفقارعلی بہادر ثانی نے یہاں ہولیکادھن کی بنیاد رکھی تھی۔

باہمی ہم آہنگی اتنی زبردست تھی کہ ہولی کے رنگ ہندو۔ مسلم کی شناخت کو مٹا دیتے تھے۔ اس سال بھی ہولی یہاں ہم آہنگی کے نئے رنگ پھیلائے گی کیونکہ اسی دن شب برات اور نماز جمعہ بھی ہے۔

یہاں پر ایک ساتھ ہولی منانے کی روایت باندہ کےنواب کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ نواب ذوالفقار علی بہادر نے شہر کے راہونیہ (کھتلہ) گراؤنڈ میں ہولیکا دھن کا آغاز کیا تھا۔

اس روایت میں اس وقت کے بااثر مسلم بزرگ مختار رحیم بخش اور میونسپلٹی چیئرمین ڈاکٹر شیام لال شرما ایک ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر شہر کا دورہ کرتے تھے اور لوگوں کو ہولی کی مبارکباد دیتے تھے۔

ڈاکٹر انور (بلکھنڈی ناکہ)، امین خان (جوتوں والے، کوتوالی روڈ)، چوہدری رحیم (کھٹلہ)، مولا بخش (مڑھیا ناکہ) ہولی کی ایک خاص پہچان بن چکے تھے۔

پہلوان سنگھ، امراؤ سنگھ، رام راجہ دوبے، چنکئی مہاراج، بھوری مہاراج، چوہدری خاندان کے جاگیردار مسلمان ساتھیوں کے ساتھ ہولی مناتے تھے۔

بزرگ کہتے ہیں کہ بلکھنڈی ناکہ کی ہولی سب سے مشہور تھی۔ تانگے والےمنظور میاں اس کے لیڈر تھے۔ جب شہر کے رئیس اور بیرسٹر مسعود الزماں (بلکھنڈی ناکہ) ہولی والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔تب ہولی صرف قدرتی رنگوں سے کھیلی جاتی تھی اور کسی قسم کی بدتمیزی نہیں ہوتی تھی۔

اس سال ہولی جمعہ کے دن ہے اور اتفاق سےشب برات بھی اسی دن ہے۔ ایسے میں ایک بار پھر شہر کے مکینوں نے ہم آہنگی کے ورثے اور روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تینوں اجتماعات کے ذریعے ہم آہنگی کا پیغام دینے کا عزم کیا ہے۔ کلکٹریٹ میں منعقدہ امن کمیٹی کی میٹنگ میں ڈی ایم انوراگ پٹیل اور ایس پی ابھینندن کی موجودگی میں دونوں مذاہب کے نامور لوگوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے۔

رام پورمیں پھولوں کی ہولی

ہولی سے ایک دن قبل رام پورمیں آل انڈیا مسلم فیڈریشن کے اراکین نے پھولوں کی ہولی کھیلی۔ اس کے بعد اراکین نے سب کو ہولی کی مبارکباد دی۔ تنظیم کے ارکان امبیڈکر پارک میں جمع ہوئے۔

یہاں تنظیم کے قومی صدر فرحت علی خان نے کہا کہ تنظیم کے اراکین تقریباً ایک دہائی سے امن، بھائی چارہ، ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے پھولوں کی ہولی کھیلتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہولی قومی یکجہتی، سالمیت اور باہمی بھائی چارے کی علامت ہے۔ اس موقع پربڑی تعداد میں ہندواور مسلمان موجودتھے۔

شاہجہاں پورمیں پھولوں کی بارش

شاہجہاں پورکی ہولی بھی یادگارہوتی ہے اوریہاں قدیم دور سےہولی کا تہوار ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کے رشتے کو مضبوط کرتا آیا ہے۔

اس تہوار میں ہرتفریق کو بھلا کر سب ایک دوسرے کو گلال لگاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہندوستان میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بستے ہیں۔ ان کے اتحاد سے ملک کی سلامتی کا نظام مضبوط رہے گا۔

شاہجہاں پورمیں ہر سال مسلمان،چوک کوتوالی علاقے کے چارکھمبا قلعہ کے قریب جلوس پر پھول نچھاور کرتے ہیں۔ یہ روایت تقریباً 17 سال سے چلی آ رہی ہے۔ مسلمان ،اپنے ہندو بھائیوں کو ہولی پرنیک تمنائیں بھی پیش کرتے ہیں۔

اس بار بھی مہندی حسن اور ان کی ٹیم کے ارکان نے پھولوں کا اہتمام کیا ہے جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے۔ سب مل جل کرباہمی ہم آہنگی کا پیغام دے رہے ہیں۔

وشوناتھ جی کی نگری میں ہولی بارات

کاشی کو سماجی تہواروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، یہاں کی سماجی زندگی کی ایک شاندار خصوصیت ہے۔ مربوط طرز زندگی کے ساتھ زندہ دلی کی، ان کوششوں میں سے ایک "ہولی بارات" بھی ہے۔

بھیلو پور کے جیودھی پور علاقے میں 1972 سے یہ بارات جاری ہے۔ سماجی ہم آہنگی کی عمدہ مثال یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہاں جب جلوس ہاتھی، گھوڑے اور ساز کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقے بجرڈیہا میں داخل ہوتا ہے تو مسلمانوں کی طرف سے جلوس کا استقبال پھولوں اور خوشبوؤں سے کیا جاتا ہے۔یہ سلسلہ 50 سال سے جاری ہے۔

یہ جلوس جیویدھی پور علاقہ کے رہنے والے میوا سردار نے شروع کیا تھا، جس میں آنجہانی راجیندر اپادھیائے، نت دیو، آنجہانی شیتل چوہان، بابولال پرجاپتی سمیت دیگر معززین نے اپنے سماجی تعاون سے انہیں مضبوط کیا۔