فراسو:اردوزبان کا پہلاجرمن شاعر

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-06-2022
فراسو:اردوزبان کا پہلاجرمن شاعر
فراسو:اردوزبان کا پہلاجرمن شاعر

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہندوستان، اس لئے بھی کثرت میں وحدت کا نمونہ ہے کہ یہ مختلف خطوں سےآئی اقوام کا مسکن ہے۔گزشتہ ہزاروں سال کی کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے الگ حصوں سے لوگ آتے گئے اور ہندوستان بنتا گیا۔باہر سے آنے والوں نے یہاں کی تہذیب کو کچھ دیا تو اس سے کچھ حاصل بھی کیا۔انگریزی عہدِ حکومت میں یوروپ سے آنے والوں کی کثرت رہی۔ اہل مغرب بھی ہندوستان کی تہذیبی روایات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ایسے ہی لوگوں میں ایک جرمن سخنور فرانز گوٹلیب کوئن فراسو بھی تھا جو اردو زبان وادب اور تہذیب کا دلدادہ تھا۔ وہ متعدد ہندوستانی زبانوں سے واقف تھاجن میں اردواور ہندی شامل تھیں۔ وہ ان زبانوں کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شاعری کرتا تھا۔فراسو کو جرمن اور انگلش میں بھی دسترس تھی۔ فرانز گوٹلیب کوئن فراسو کو اردو زبان کا پہلا جرمن شاعر مانا جاتا ہے۔ فراسوؔ اس کا تخلص بھی تھا۔

کون تھافراسو؟

فراسو کے تعلق سے کچھ تفصیلات اس کے نواسے جارج پیش شورؔ نے اپنی تحریروں میں دیاہے۔اس سلسلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک محقق ڈاکٹرراحت ابرار نے بھی تحقیقات کی ہیں جن کے مطابق فراسو کے دیوان کا نام ’گنبد گیتی نما‘ تھا۔ دیوان میں اس کا اردو، فارسی اور ہندی کا تمام کلام محفوظ ہے۔ مولانا حسرت موہانی اردوئے معلیٰ کے نام سے ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں انھوں نے اس کے کلام کا انتخاب پیش کیا تھا۔فراسو ایک نثر نگار بھی تھا اور اس نے”شمس الزکائی“ کے عنوان سے شاعروں کا ایک تذکرہ لکھا تھا۔

جارج پیش شورؔ کی تحریروں کے مطابق فراسوکا قیام میرٹھ کے سردھنہ میں ایک مدت تک رہا تھا۔حالانکہ اس کی حویلی باغپت میں تھی جو 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے دوران گوروں کی پناہ گاہ بنی تھی۔ جارج پیش شورنے ضلع باغپت کے مقام ہر چند پور میں فراسو کا مقبرہ تعمیر کروایا تھا اوراس پرایک تختی بھی نصب کروائی تھی۔واضح ہوکہ فراسو کا انتقال 84سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اس کی حویلی کے آثار آج بھی موجود ہیں اورمقبرہ بھی۔

خاندانی پس منظراور اردو تہذیب کا اثر

فراسو کے بارے میں جو جانکاریاں موجود ہیں، ان کے مطابق ان کے والد کا نام جان آگسٹس گوٹلیب کوہن تھا جو ایک جرمن یہودی تھے۔ کوہن ، ریاست سردھنا کی نواب بیگم سومرو کے دربار سے وابستہ تھے۔ یہیں1777ء میں فراسو کی پیدائش ہوئی۔

فراسو کی ماں ایک مغل شہزادی تھی۔ فراسو کی تربیت اس کے خالو لوئی بالتھر رین ہارٹ نے کی تھی جو نواب ظفر یاب خاں کے نام سے مشہور تھا۔ وہ بھی ایک  جرمن تھا مگر ہندوستانی نوابوں اور رئیسوں کی طرح زندگی بسر کرتا تھا۔

جس طرح رئیسوں کے دربار میں ان کے مصاحبین ہوتے تھے اور شاعروفنکار ملازمت میں رکھے جاتے تھے،اسی طرح نواب ظفریاب خان کے دربار میں بھی اردو اور فارسی کے شعرا موجود ہوتے تھے۔ خالو کی تربیت کا اثر فراسو پر بھی تھا اور وہ اردو تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے ایک افغان شاعر خیراتی خاں دلسوز دہلوی کو اپنا استاد بنا رکھا تھا اور اصلاح لیتا تھا۔دلسوزؔ ، نواب ظفر یاب کے قریبی دوست تھے۔

’غدر‘کا دور

فراسو،ان یوروپی لوگوں میں شامل تھا، جنھوں نے1857ء کا زمانہ دیکھا تھا اورجو خطروں کی زد میں تھے۔ایک گورے کی حیثیت سے فراسو کا اثر ورسوخ تھا اورانگریزوں نے جان بچانےکے لئے اس کی حویلی میں پناہ لیا تھا۔ ہنگامہ ختم ہونے اور جان بچ جانےکے بعد وہ بے حد خوش تھا۔ اس نے مجاہدین آزادی کا قتل کرایا تھااور جوش میں ایک مثنوی ’فتح نامہ‘ لکھی تھی۔2482 اشعار پر مشتمل، یہ مثنوی فارسی زبان میں میں ہے جو’غدر‘ کی منظوم تاریخ بھی ہے۔اس میں انگریزوں کی جرات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اورہندوستانیوں کو برا بھلا کہا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ’فتح نامہ‘کا ایک قلمی نسخہ خدا بخش لائبری میں موجود ہے۔

سخن نیک را خلق دارد سپاس

نہ باور شود انکہ دور از قیاس

سخن راست موزون دارد فروغ

چوباور نہ افتد شود آں دروغ

فراسو سبک باش تا زندگی

نہ آید بدل تو پرا گندگی

فراسوکی شاعری

فراسو زبان وبیان پر قدرت رکھنے والا شاعر تھا۔وہ اردو،ہندی اور فارسی میں تمام فنی لوازمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے شاعری کرتا تھا۔ اس نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہیں جن میں مثنوی، نظم اور غزل شامل ہیں۔فراسو کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:

درد ہے، غم ہے، نا توانی ہے

مرگ کا نام زندگانی ہے

قصر تعمیر کر چکے ہیں بہت

منزلِ گور اب بنانی ہے

جس کی الفت میں دل دھڑکتا ہے

اب تلک اس کی بد گمانی ہے

اور بھی اک غزل فراسوؔ پڑھ

اب یہ ہنگامہ شعر خوانی ہے

محنت و درد و رنج و غم اور علم یہ رات دن

کرتے ہیں مجھ کو خوار و زار ایک دو تین چار پانچ

نالہ و گریہ آہ و اشک اور فغاں ترے بغیر

میرے ہوئے ہیں دوست دار ایک دو تین چار پانچ

عشوہ نگہ ادا و ناز اور ہے غمزہ ہم رکاب

ساتھ ہیں تیرے شہسوار ایک دو تین چار پانچ

آنے کی خبر ہے تیری لیکن

آتا نہیں اعتبار دل کو

گردش نے تری تو جی سے کھویا

اے گردشِ روزگار دل کو

گر پختہ مزاج ہو تو سمجھو

ہے رشتہٴ خام زندگانی

یہ صبح سے حال ہے تو کیونکر

ہوگی تاشام زندگانی

قلم بھی جان پر روتا ہے میری

یہ آنسو ہیں نہ سمجھو تم سیاہی