نادر مخطوطات کے سبب پوری دنیا میں خدا بخش لائبریری کی منفرد پہنچان

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 03-07-2025
نادر مخطوطات کے سبب پوری دنیا میں خدا بخش لائبریری کی منفرد پہنچان
نادر مخطوطات کے سبب پوری دنیا میں خدا بخش لائبریری کی منفرد پہنچان

 



محفوظ عالم ۔پٹنہ 

اگر ہندوستان کے ماضی کو قریب سے جاننا چاہتے ہیں تو پٹنہ کی خدا بخش لائبریری آپ کا خیر مقدم کرتی ہے۔ سیکڑوں سال کی وراثت کو مخطوطات کے شکل میں سنبھال  کر رکھنے والی خدا بخش لائبریری مرکزی حکومت کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔ خدا بخش لائبریری میں 21 ہزار سے زائد نادر مخطوطات کا خزانہ موجود ہے جو اس لائبریری کو بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد لائبریری بناتی ہے۔ پوری دنیا سے اہل علم اور محقق لائبریری کا رخ کرتے ہیں اور اپنی تحقیق مکمل کرتے ہیں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے خدا بخش لائبریری کے ذمہ داروں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

پوری دنیا کے اہل علم کی توجہ کا مرکز

دنیا کے علمی نقشہ پر پٹنہ اور بہار کو خدا بخش لائبریری کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اپنے نایاب اور قابل قدر مخطوطات کے سبب خدا بخش لائبریری پوری دنیا کے اہل علم کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ یہاں قرآن کریم کے قدیم نسخے، اسلامی فقہ، فلسفہ، طب، ادب اور تاریخ کے نادر نسخے کے علاوہ فارسی، عربی، اردو، ہندی، سنسکرت، پشتو اور پالی زبان کے نادر مخطوطات موجود ہیں۔

موجودہ وقت میں خدا بخش لائبریری کے انچارج ڈاکٹر سید مسعود حسن نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خدا بخش لائبریری بنیادی طور پر مخطوطات کے لیے مشہور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے قیام کے فورن بعد ہی خدا بخش لائبریری اپنی اہمیت کی وجہ سے علمی دنیا میں ایک منفرد نام بن گئی۔ مسعود حسن کے مطابق لائبریری میں 21 ہزار سے زائد مخطوطات ہیں اس کے علاوہ 3 لاکھ سے زیادہ مطبوعہ کتابیں ہیں۔ ملک کے جتنے بھی بڑے مصنف ہیں ان سب کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ لائبریری میں موجود ہے۔ سفر نامہ، سوانح حیات کی کتاب، ناول ، ساہتیہ اکیڈمی کی سبھی کتابیں، پریم چند کی لگ بھگ کتابیں لائبریری میں مل جائے گی۔

خدا بخش لائبریری


 نایاب و نادر مخطوطات کا خزانہ

ڈاکٹر سید مسعود حسن کا کہنا ہے کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مخطوطات کا مطلب قرآن، حدیث، تفسیر یا تاریخ کی کتابیں ہوتی ہے اور وہی کتابیں خدا بخش لائبریری میں موجود ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ خدا بخش لائبریری میں اردو، فارسی، عربی، ہندی، ترکی، پشتو زبان کے جو مخطوطات ہیں ان کا سبجیکٹ صرف مذہبی نہیں ہے۔ بہت سے ایسے مخطوطات ہیں جس کا سبجیکٹ سرجری اور میڈیسن ہے۔ اس بات پر لوگ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ چھ سو سال پہلے ہاتھ سے لکھی ہوئی مخطوطات بھی اس موضوع پر ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلا نام سرجری کی کتاب کا ہم لینا چاہیں گے جس کے لکھنے والے الزہراوی ہیں۔ وہ کتاب عربی میں ہے، ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب ہے اور وہ کتاب سرجری پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں جو انسٹرومنٹ سرجری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس کی تصویر اس کے اندر بنی ہوئی ہے۔ اور تصاویر کے ساتھ اس کا ڈس کرپشن بھی لکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر مسعود کے مطابق پٹنہ کے مشہور سرجن ڈاکٹر احمد عبدالحئ نے اس کتاب پر ریسرچ کرنے کے بعد جب اپنا فائن ڈینگ پیش کیا تو انہوں نے بتایا کی جو اس کتاب میں سرجری کا انسٹرومنٹ اور گراف بنا ہوا ہے اور آج جو ہم استعمال کر رہے ہیں وہ 60 فیصدی وہی گراف ہے اور وہی انسٹرومنٹ ہے۔ صرف شکل بدلی ہوئی ہے لیکن بنیاد بلکل وہی ہے جو آج سے کئی سو سال قبل مخطوطات میں اس کی تصویریں بنائی گئی ہے۔

سرجری اور نباتیات پر مخطوطات

 ڈاکٹر سید مسعود حسن کا کہنا ہے کہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی ہے کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی عربی کی کتاب سرجری پر بھی ہو سکتی ہے لیکن وہ کتاب ہے اور خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح ایک کتاب ہے نباتیات پر جس کا نام ہے کتاب الحسائس اور اس کتاب میں جڑی بوٹی کی تصویریں بنی ہوئی ہے اور ان تصاویر کا ڈس کرپشن بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر کسی پودے کی تصویر بنائی گئی ہے تو لکھا ہوا ہے کہ یہ پودا کہا پا یا جاتا ہے اور اس کی خصوصیت کیا ہے۔ یعنی آج کوئی محقق نباتیات پر ریسرچ کرتا ہے تو تصویر کے ساتھ میڈیسنل ویلیو اور ڈس کرپشن بھی اس کو حاصل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے دیکھا جائے تو محقق کو اپنا ریسرچ پورا کرنے کے سلسلے میں مخطوطات خود بھی گائڈ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

 نایاب و نادر مخطوطات کا خزانہ


مغلیہ لائبریری کی اہم ترین کتابیں

ڈاکٹر سید مسعود حسن کا کہنا ہے کہ اسی طرح دیوان حافظ کا نسخہ ہے جو مغل بادشاہوں کے لائبریری میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے بادشاہ بدلتے گئے ویسے ویسے ان کی لائبریری میں وہ کتاب ٹرانسفر ہوتی گئی۔ خدا بخش لائبریری میں دیوان حافظ کا وہی نسخہ موجود ہے۔ مغل حکمران اس کتاب کا استعمال فال نکالنے کے لئے کیا کرتے تھے۔ دیوان حافظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فال دیکھنے کا یہ طریقہ ہے کہ آپ ذہن میں سونچ لیجئے کہ یہ کام ہمیں کرنا ہے یا یہ کام ہمیں نہیں کرنا ہے۔ یہ سوچنے کے بعد دیوان حافظ کو کھولیں اور آنکھ بند کر کے پہلی یا دوسری یا تیسری لائن پر اپنی انگلی رکھ دیجئے تو جس شعر پر آپ کی انگلی رکھی ہوئی ہے اس کے معنی پڑھے تو زیادہ چانس رہتا ہے کہ آپ کو وہ معنی مل جائے جو آپ کے ذہن میں ہے کہ کیا ہمیں گھر سے باہر نکلنا چاہئے؟ یا کیا ہمیں یہ کام کرنا چاہئے؟ تو اس میں ایک اشارہ مل جائے گا کہ یہ کام کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے۔ خدا بخش لائبریری کے پاس دیوان حافظ کا وہ نسخہ ہے اور اس پر شاہجہاں کی ہیڈ رائٹنگ موجود ہے۔ جب شاہجہاں نے کسی وجہ سے اپنا فال نکالا تھا اور فال نکالنے کے بعد لکھا کہ آج کے دن میں، میں نے دیوان حافظ سے رجوع کیا اور اس کے بعد جو بات ہمیں معلوم کرنی تھی وہ ہم نے دیوان حافظ سے معلوم کی۔ شاہجہاں نے اپنا دستخط کیا اور تاریخ ڈالی اپنی ہیڈ رائٹنگ میں۔ وہ نسخہ لائبریری میں ہے اور ایک نادر چیز ہے۔

حضرت علیؓ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی قرآن کی آیت

ڈاکٹر مسعود کے مطابق خدا بخش لائبریری میں نادر مخطوطات کو مزید دیکھیں تو 9ویں صدی میں ہرن کے چمڑے پر قرآن کی تین چار آیت لکھی ہوئی ہے جس کو کہتیں ہیں کہ حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور ان سے یہ منسوب ہے۔ خط کوفی ایک قدیم رسم الخط ہے جو آغاز اسلام کے دور کا اسکرپٹ تھا اس میں لکھی ہوئی ہے اور وہ نادر مخطوطات لائبریری میں ہے۔ اس کے علاوہ دارا شکوہ کی ہیڈ رائٹنگ کے ساتھ کتاب لائبریری میں ہے۔ فیضی کی تفسیر ہے جس میں کوئی نقطہ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کا چھوٹا سے لیکر بڑا تمام طرح کے نسخے لائبریری میں موجود ہیں۔ تین جلدوں پر مشتمل قرآن کا ایک نسخہ ہے جس کا سا‏ئز کم سے کم ڈھائی تین فٹ کا ہے، اور دس دس پارے کا ایک سیٹ ہے، اور تینوں سیٹ مل کر ایک قرآن ہے۔ وہ پوری طرح سے گولڈ اور اس زمانے کی سیاہی اور اسٹون سے لکھا ہوا ہے اور اس کے تمام بورڈ رس پر پھول پتی گولڈ سے بنی ہوئی ہے اور پانچ سو سال بعد آج بھی دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کوئی بنا کر گیا ہے۔ لکھاوٹ کا اتنا شاندار کمال ہے کہ کہیں پر کوئی ری رائٹنگ اور کہیں پر کوئی کریکشن نہیں ہے۔ آج کے دور میں کمپیوٹر سے جو ڈیزائن بنتا ہے اس زمانے میں لوگ اس طرح کا ڈیزائن ہاتھ سے بنایا کرتے تھے۔

ایسے نادر مخطوطات سے دنیا حیران

ڈاکٹر مسعود حسن کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ایک اور ہمارے یہاں ہے کہ ایک صفحہ میں دونوں طرف قرآن کا دس پیج لکھا ہے۔ یہ میگنفائنگ گلاس سے پڑھ سکتے ہیں۔ اب غور کیجئے آج سے تین سو سال قبل کھلی آنکھوں سے کسی نے قلم سے چالیس صفحہ میں اس کام کو انجام دیا ہے جو پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ نادر مخطوطات لائبریری میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کپڑے کے اوپر کاغذ چپکا کر لکھا جاتا ہے جس کو طومار کہا جاتا تھا، ہمارے پاس سات یا آٹھ فٹ کا ایک طومار ہے اور تین چار انچ چوڑا ہے اس کو آنکھ سے دیکھیں گے تو لگے گا کہ یہاں پر مچھلی بنی ہوئی ہے، یہاں پر تلوار ہے اور یہاں پر پھول ہے یا دوسری جگہ کسی اور پھول کی تصویر بنی ہوئی ہے، کہیں پر خنجر بنا ہوا ہے۔ لیکن میگنفائنگ گلاس سے دیکھیں گے تو جو آپ کو دیکھنے میں مچھلی دکھ رہی ہے، معلوم چلے گا اس کے اندر سورۃ رحمان لکھا ہوا ہے۔ ڈیڑھ انچ اور دو انچ کا مچھلی بنایا ہے اور اس کے اندر پوری سورۃ اس نے لکھ دی ہے۔ دیکھنے میں مچھلی اور پھول کی تصویر دکھائی دیتی ہے لیکن میگنفائنگ گلاس سے دیکھیں گے تو پوری ایک سورۃ ہے جس کو آپ پڑھ سکتے ہیں۔

 خدا بخش لائبریری کا خزانہ


مخطوطات میں ہندوستان کا ماضی

ڈاکٹر مسعود حسن کا کہنا ہے کہ خدا بخش لائبریری کی خصوصیت ہے کہ ایسی نادر و نایاب چیزیں لائبریری میں موجود ہے جس پر دنیا حیران ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا بخش لائبریری میں صرف اسلامیات کی چیزیں ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ رامائین، گیتا کے بھی نسخہ ہیں اور تاریخ کا تو بہت ہی بڑا ذخیرہ لائبریری میں موجود ہے۔ مغل تاریخ کا ایک بڑا کلیکشن ہے، اور صرف ٹیکسٹ نہیں باقاعدہ البم کے ساتھ ہے اور تصویریں بنی ہوئی ہے کہ اگر اکبر کسی لڑائی میں خود لڑ رہا ہے تو کس طرح سے وہ فائٹ کر رہا ہے۔ اگر تاج محل بنانے کا پروسس شروع ہوا ہے تو کس طرح سے ہوا ہے۔ بادشاہ اپنے دربار میں کیسے بیٹھا کرتے تھے، کس طرح سے ان کی شادی بیاہ ہوتی تھی اور کیسے ان کا جنازہ نکلتا تھا، آج تک وہ چیزیں خدا بخش لائبریری میں موجود ہے اور یہ سب نادر ہے۔ فرمان کس طرح سے دیا جاتا تھا وہ سب چیزیں تصویروں میں بھی ہے اور یہ نادر ہے جو خدا بخش لائبریری میں مخطوطات کے شکل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخطوطات کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ہے لیکن انگریزی میں ہم لوگوں نے ترجمہ کرایا ہے اور اس کام کو مسلسل آئندہ بھی کرایا جائے گا۔ مخطوطات کا ڈیجیٹلائجیشن کا کام بھی ہو رہا ہے۔

ایسے ہوتی ہے مخطوطات کی حفاظت

خدا بخش پبلک لائبریری کے مخطوطات کے انچارج شکیل احمد شمسی کا کہنا ہے کہ دراصل خدا بخش لائبریری کی پہنچان مخطوطات کے وجہ سے ہے اور لائبریری مخطوطات کی حفاظت کے سلسلے میں کافی سنجیدگی سے کام کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں ایسے بھی مخطوطات ہیں جس کے سنگل کاپی خدا بخش لائبریری میں ہے۔ جیسے تاریخ خاندان تیموریہ، دیوان حافظ، شاہ نامہ، کتاب الحسائس وغیرہ یہ سب کتابیں بہت ہی نادر ہیں جو ہمارے یہاں موجود ہے۔ اور ان مخطوطات کو لائبریری نے بہت ہی حفاظت سے رکھا ہے، سیف میں ہے جس کی ایک چابی کمشنر کے پاس اور ایک لائبریری میں ہوتی ہے اور دونوں چابی کی موجودگی میں ہی نادر مخطوطات کا وہ ذخیرہ کھولا جا سکتا ہے۔

نادر مخطوطات


اس طرح سے جمع ہوا مخطوطات

شکیل احمد شمسی کا کہنا ہے کہ خدا بخش لائبریری میں تاریخ، میڈیکل سائنس، عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو کے مخطوطات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خدا بخش ذاتی طور پر کتابوں کو جمع کرنے کے بیحد شوقین تھے انہوں نے اپنی ساری دولت اور قوت کتابوں کو جمع کرنے میں لگا دی۔ اس کام کے لئے خدا بخش خان نے ماہانہ تنخواہ پر ایک آدمی کو رکھا تھا وہ آدمی ملک اور بیرونی ممالک کا دورہ کر کے کتابوں کو خرید کر لائبریری میں لاتے تھے۔ میڈل ایسٹ، ایران اور دیگر ملکوں سے بھی انہوں نے کتابیں خریدی۔ خرچ کی ادائگی خدا بخش خان کرتے تھے۔ خدا بخش خان کے والد صاحب نے قریب 1400 مخطوطات ان کے حوالہ کیا تھا اور خدا بخش نے اپنی زندگی میں قریب 4000 مخطوطات کا اس میں اضافہ کر دیا۔ بعد کے دنوں میں بھی یہاں کچھ مخطوطات خریدے گئے اور کچھ کتابیں تحفہ میں لائبریری کو ملی۔ اب مجموعی طور پر مخطوطات کی تعداد 21 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مطبوعات کی تعداد بھی تین لاکھ سے زیادہ ہے اور اس میں بھی لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔

محققین کے لئے خدا بخش لائبریری تحقیق کا بڑا مرکز

شکیل احمد شمسی نے کہا کہ ملک اور بیرونی ممالک سے جو ریسرچ اسکالر خدا بخش لائبریری میں آتے ہیں ان کے لیے بھی لائبریری میں خاص انتظام ہے۔ محققین کی تحقیق پوری ہو اس میں بھی لائبریری ان کی مدد کرتی ہے۔ ریسرچ اسکالر کے لیے لائبریری میں جدید سہولیات مہیا ہے۔ جیسے کیٹلاگنگ سسٹم، ڈیجیٹل آرکائیوز اور تحقیق کے لئے ایک پر سکون ماحول۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا بخش لائبریری میں ایسی کتابیں ہیں جو اس لائبریری کو منفرد بناتی ہے۔ مثال کے طور یہاں امام غزالی کی احیا علوم الدین، ابن سینا کی القانون فی الطب اور دیگر مخطوطات کے نایاب نسخے موجود ہیں۔ ان کے مطابق خدا بخش لائبریری ملک بلکہ بیرونی ممالک کے اسکالرز کے لیے ایک اہم ترین جگہ ہے جہاں وہ اپنے تحقیق کو پورا کرتے ہیں۔ شکیل شمسی کا کہنا ہے کہ خدا بخش لائبریری ایک نادر اور تاریخی مقام ہے جو علم کی روشنی کو پوری دنیا میں پھیلانے کا عظیم ذریعہ ہے۔ یہ لائبریری نہ صرف ہندوستان کی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب پر بھی کئی کتابیں موجود ہے۔ تاڑ پتر پر اور کیلے کے پتے پر لکھی ہوئی مخطوطات ہمارے یہاں ہے۔ یہ لائبریری خدا بخش خان کی رہائش گاہ تھی لیکن انہوں نے اپنے گھر کو لائبریری کے حوالہ کر دیا۔