‘ڈاکٹرانورالدین چودھری: کیوں کہلاتے ہیں آسام کے ’برڈمین

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
‘ڈاکٹرانورالدین چودھری: کیوں کہلاتے ہیں آسام کے ’برڈمین
‘ڈاکٹرانورالدین چودھری: کیوں کہلاتے ہیں آسام کے ’برڈمین

 

 

دولت رحمان/ گوہاٹی

انسان اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا ہے، اس کے لیے وہ کبھی کبھی اپنی زندگی بھی داو پر لگا دیتا ہے، وہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیشہ وارانہ کام یا جاب کے علاوہ وہ اپنے شوق کو پورا کرنے کی بھی جدو جہد کرتا رہتا ہے۔

ایسے ہے ایک جنونی اور پرندوں کے شیدائی کا نام ہے ڈاکٹرانورالدین چودھری، آئیے آج ہم آپ کو ان سے رو برو کراتے ہیں۔

تقریباً تین دہائی قبل اپنے آرام دہ دفتر کا کمرہ چھوڑ کر بیوروکریٹ ڈاکٹرانورالدین چودھری ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست کے جنگلی جانوروں کے تحفظ پرکام کرنے کے لیے ایک نئے سفرپر روانہ ہوئے۔ انہوں نےجنگل کےاندرونی علاقوں تک رسائی کے لیے اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھایا۔ اس وجہ سے ان جگہوں تک رسائی ممکن ہو گئی، جہاں عام لوگوں کا جانا ممنوع ہے۔

پھر وہ آسام اوربقیہ شمال مشرقی ریاست کے جنگلوں میں کام کرنے لگے۔ خیال رہے کہ 63 سالہ انورالدین چودھری تین دہائی بعد آسام حکومت کے کمشنر اور سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

awaz

اب انہیں آسام کے پرندے(Birdman of Assam) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ آسام میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے شمال مشرقی ریاستوں کے پرندوں پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران علاقے کی مختلف انواع واقسام کے پرندوں کی دریافت کی اور اس تعلق سے اپنی کتاب میں معلومات درج کی ہیں۔

خیال رہے کہ وہ اب تک 28 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 50 تکنیکی رپورٹس اور 900 سے زیادہ مضامین اور سائنسی مقالات تحریر کر چکے ہیں۔

انورالدین چودھری نے 2003 میں ریاست آسام میں ایک مہم چلائی کہ رہائش گاہوں کی حفاظت اور سفید پروں والی لکڑی کے بطخ(wood duck ) کو ریاستی پرندہ قراردیا جائے۔ یہ پرندہ جسے کبھی انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN-International Union for Conservation of Nature) نے خطرے سے دوچار سمجھا تھا، اس کی اب یہاں 1300 اقسام پائی جاتی ہیں۔

سفید پروں والی بطخوں کی 1300 اقسام ہیں، جن میں تقریباً 1,000 شمال مشرقی ریاستوں میں پائی جاتی ہیں اورآسام850 اقسام کے ساتھ چارٹ میں سرفہرست ہیں، جو ملک کی کسی بھی ریاست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

 چودھری نے آواز دی وائس کو بتایا ہے کہ ان کے پاس فطرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے اور لکھنے کے لیے اب کافی وقت ہے، کیوں کہ وہ اب سبکدوش ہو چکے ہیں۔

حال ہی میں انھوں نے ایک پرندہ امور فالکن(Amur Falcon) پرکام کیا ہے۔ یہ ایک مہاجرپرندہ ہے، جوہرسال مشرقی سائبیریا میں اپنی افزائش کے مقام کے ساتھ آسام سے جنوبی افریقہ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کہ امورفالکن ایک لمبی دوری کا مہاجرپرندہ، جو مشرقی سائبیریا میں دریائے امور(Amur river) کے میں افزائش کرتا ہے، اس کے علاوہ یہ منگولیا اور اس سے متصل علاقوں میں ہجرت کرتا ہے اور پھرسردیوں کے دوران افریقہ کی طرف چلا جاتا ہے۔

a

نقل مکانی کرنے والے فالکن شمال مشرقی ہندوستان سےگزرتےہیں اور پھر جزیرہ نما ہندوستان اور بحیرہ عرب کے اوپر سے پرواز کرتے ہیں۔ راستے میں یہ فالکن ناگالینڈ، منی پور، آسام اور میگھالیہ کے کچھ منتخب مقامات پراکثر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بستے ہیں۔

چودھری نےفالکن کےبارےمیں بات کرتے ہوئے کہا کہ شکاریوی کی ایک بڑی تعداد آسام اور ناگالینڈ کے کچھ حصوں میں ان پرندوں کا شکار کیا کرتی تھی۔ ان کے مطابق آسام میں کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں امور فالکن اپنی ہجرت کے دوران دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان مقامات میں ہبنگ اور دیما ہاساو وغیرہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 1996میں ان پرندوں کے تحفظ کے لیے ایک مہم چلائی اس کے بعد ان کے شکار کے رفتار میں بہت کمی آئی ہے۔ سن 2004 میں ناگالینڈ کے موکوکچنگ ضلع میں ان  کی اسی طرح کی مہم کے نتیجے میں چونگٹونگیا میں پرندوں کے شکار میں کمی آئی ہے۔

خیال رہے کہ چودھری نے اپنا آخری پروجیکٹ آسام اینگلونگ ضلع میں 2017-2019 کی مدت کے دوران کیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ 2019 میں امور فالکن کے تقریباً 3 لاکھ 18 ہزار سے زائد  جوڑے یہاں دیکھے گئے تھے۔

انورالدین چودھری شمال مشرقی ریاست میں پرندوں کے تعلق سے اہم خدمات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں پرندوں پر ایک جامع فہرست بھی تیار کی ہے، اس کے بعد آسام کے پرندوں پر ایک تفصیلی کتاب 2000 میں شائع کی۔

انہوں نے آسام کے علاوہ اروناچل پردیش ، ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ وغیرہ کے پرندوں اور جانوروں پر بھی کام کیا ہے۔ اس تعلق سے بھی کتابیں لکھی ہیں۔ان میں کچھ کتابوں کے نام ہیں:

a comprehensive mammals of North-east India (2013)

mammals of India (2016)

Manas: India’s world heritage in danger (2019)

monograph of wild water buffalo (2010)

 ان سب کے علاوہ انوالدین چودھری نے اروناچل پردیش میں مشمی پہاڑیوں(Mishmi Hills) کے پار کرین (crane bird)کی ہجرت کا ایک نیا راستہ بھی دریافت کیا ہے -

وہ بتاتے ہیں کہ 1996 میں انہوں نے ناگالینڈ کے کوہیما کے ایک بازارمیں ٹاؤن ہال کے بالکل باہر فروخت کئے جانے والی غیر معمولی اشیاء کی ایک لمبی قطار دیکھی۔ ان میں مینڈک، چوہے، ہرن، پرندے، تیتر،چینی پینگولین اور ایک پگ ٹیل مکاک(pig-tail macaque ) وغیرہ شامل تھے۔ خواتین اپنے شکاری شوہروں کی طرف سے گھر لائے پرندوں اور جانوروں کو فروخت کر رہی تھیں۔

یہ دیکھ کر چودھری پریشان ہوگئے اور انہوں نے اسی وقت وہاں کی مقامی این جی او' پیپلز گروپ آف ناگالینڈ' سے رابطہ کیا اور حکام کو افزائش کے موسم میں جنگلی جانوروں کی فروخت اور شکار پر پابندی کا اعلان کرنے پر آمادہ کیا۔

تیس سال پہلے انورالدین چودھری کا سامنا ایک 50 سالہ کاربی قبائلی سارسنگ رونگفر سے ہوا تھا جو جنگلی جانوروں کو مارا کرتے تھےاور روزی روٹی کے لیے ان کا گوشت بیچا کرتے تھے۔چودھری نے رونگفر کو جانوروں کے شکار چھوڑنے پر آمادہ کیا اور اسے محکمہ جنگلات میں نوکری دلوا دی۔

مشرقی آسام کے باکسا ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے طور پر اپنی پوسٹنگ کے دوران چودھری نے بہت سے ان شکاریوں  پر کارروائی کی، جو ماناس نیشنل پارک(Manas National Park) شکار کر رہے تھے۔

انہوں نے ماناس نیشنل پارک سے دور بھوٹان کے نگگلم شہر کی طرف ایک ہائی وے کا رخ موڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 2007 میں جنگلی حیات کے لیے دو بڑے انڈر پاس۔ بنوانے میں ان کا اہم کردار ہے، جن کا کام 2010 میں مکمل ہوا تھا۔

a

شمال مشرقی ہندوستان میں جانوروں اور پرندوں پر کام کرنے کے اعزاز میں 2008 میں گوہاٹی یونیورسٹی سے انہیں ڈاکٹر آف سائنس سے سرفراز کیا گیا ہے۔ وہ دوسرے ایسے شخص ہیں جنیں یہ اعزازی ڈگری ملی ہے۔

انور الدین چودھری کا کام ابھی جاری ہے، ابھی وہ پرندوں کے تعلق سے اور بھی دریافت کرنے والے ہیں۔

انورالدین چودھری نے کہا کہ  بھوٹان، مشرقی نیپال، جنوبی تبت، شمالی اور مغربی میانمار اور مشرقی بنگلہ دیش کا دورہ کر وہاں کے پرندوں اور جانوروں پر تحقیق کا منصوبہ رکھتے ہیں۔