امریکی رپورٹ جس نے پاکستان کی پول کھول کر رکھ دی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 29-07-2021
امریکی رپورٹ جس نے پاکستان کی پول کھول کر رکھ دی
امریکی رپورٹ جس نے پاکستان کی پول کھول کر رکھ دی

 

 

اسلام آباد

امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عام طور پر شفافیت اور مؤثر پالیسیوں اور قوانین کا فقدان ہے۔ اسی رپورٹ میں پاکستان کے عدالتی نظام اور دیگر معاملات پر نکتہ چینی بھی کی گئی ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے پاکستان کے عدالتی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نظریاتی طور پر پاکستان کا عدالتی نظام ایگزیکٹو کے دائرہ اثر سے نکل کر، آزادانہ طور پر کام کرتا ہے لیکن حقیقت مختلف ہے۔ پاکستان فوج عدالتی نظام پر خاصا اثر و رسوخ رکھتی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کے عدالتی نظام کی اہلیت، منصفانہ اور قابلِ اعتماد ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق کسی عدالت کی کمزوریوں کے بارے میں بات کرنے سے عوام کو توہین عدالت کا قانون روکتا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی محکمۂ خارجہ کی مذکورہ رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور ملک کے عدالتی نظام سے متعلق ریمارکس پر کہا ہے کہ ملک میں عدلیہ مکمل آزاد ہے، فیصلے بروقت کیے جاتے ہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کی اہلیت و قابلیت قابلِ بھروسہ ہے۔

یاد رہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے ہر سال دنیا بھر کے مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کے ماحول کے حوالے سے رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں اس ملک میں نظام انصاف سمیت سرمایہ کاری کے حوالے سے سہولیات اور اس میں شامل مختلف اداروں کے بارے میں رپورٹ دی جاتی ہے۔

رواں برس جاری ہونے والی 'انویسٹمنٹ کلائمٹ اسٹیٹمنٹ 2021' نامی رپورٹ میں پاکستان کے مختلف محکموں سے متعلق ذکر شامل ہے۔ رپورٹ میں ریگولیٹری اداروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تمام کاروباری اداروں پر یہ لازم ہے کہ وہ مخصوص ریگولیٹری قواعد پر عمل پیرا ہوں جو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرِ انتظام ہیں جب کہ حکومتِ پاکستان قانونی قواعد و ضوابط کے قیام اور نفاذ کی ذمہ دار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں کوئی مرکزی آن لائن فورم موجود نہیں جہاں کلیدی ریگولیٹری کارروائیوں کو شائع کیا گیا ہو۔ مختلف ریگولیٹرز اپنی ویب سائٹ پر اپنے قواعد و ضوابط اور ان پر عمل درآمد شائع کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر معاملات میں ریگولیٹری قواعد نافذ کرنے والے اقدامات آن لائن شائع نہیں ہوتے۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) مرکزی ریگولیٹری ادارہ ہے جو پاکستان میں کمپنیوں کے لیے اکاؤنٹنگ معیارات قائم کرنے کا مجاز ہے تاہم ان معیارات پر عمل درآمد ناقص ہے۔

پاکستان میں کمپنی کے مالی معاملات اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، سوشل ویلفیئر یا ملازم اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے ذریعے بھی ریگولیٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح توانائی کے شعبے میں تمام معاملات نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی جیسے اداروں کے زیر انتظام ہوتے ہیں۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی) سمیت ہر ادارے کا آزادانہ نظم و نسق ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان ساؤتھ ایشین ریجنل کوآپریشن (سارک)، وسطی ایشیا علاقائی اقتصادی تعاون (CAREC) اور اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کا رکن ہے۔ تاہم ریگولیٹری ترقی یا اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں پاکستان اور دیگر رکن ممالک کے درمیان کوئی علاقائی تعاون نہیں ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تجارتی معاملات سمیت ریگولیٹری نظام میں شامل بیشتر بین الاقوامی قواعد اور معیار برطانوی قانون سے متاثر ہیں۔ گھریلو یا ذاتی معاملات کو چلانے والے قوانین اسلامی شریعت کے قانون سے سختی سے متاثر ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے متاثر ہے۔ ماتحت عدالتیں اعلیٰ انتظامی حکام سے متاثر ہیں اور اسے قابلیت اور انصاف پسندی کی کمی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کا قانونی ضابطہ اخلاق اور معاشی پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا لیکن کمزور عدلیہ کی وجہ سے معاہدوں کا نفاذ مسئلہ بنتا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی 2020 کی کرپشن کے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 124ویں نمبر پر ہے اور چوں کہ یہاں سزاؤں پر عمل درآمد اور احتساب کا فقدان ہے لہٰذا کرپشن کے مسائل بدستور موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ضابطہ قانون کے تحت رشوت ایک جرم ہے جس کی سزا مقرر ہے لیکن اس کے باوجود حکومت میں ہر سطح پر رشوت کا چلن موجود ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو اچھی ساکھ کا حامل سمجھا جاتا ہے لیکن نچلی عدالتیں کرپٹ، نا اہل اور امیر، مذہبی، سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات کے دباؤ میں آ جاتی ہیں۔

تفتیشی اداروں کا معیار امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کے لیے قائم ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کی فنڈنگ بھی کم ہے اور ادارے میں پیشہ ورانہ قابلیت بھی نہیں. اپوزیشن جماعتیں اس ادارے کو سیاسی لحاظ سے متعصب اور حکومتی احتساب کا ایک آلہ سمجھتی ہیں۔ نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔