بے موسم برسات سے دسہری کی فصل متاثر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-07-2021
دسہری آم
دسہری آم

 

 

 سعید ہاشمی، لکھنؤ

آم کا سیز ن شروع ہوتے ہی ملک اور بیرون ممالک میں ریاست اترپردیش کے ضلع ملیح آبادی کے 'دسہری آم' کا ذکر ہر خاص و عام کی زبان پر عام ہے۔

ملیح آبادی دسہری آموں کی مٹھاس دور دور تک محسوس کی جاتی رہی ہے تاہم اس مرتبہ بے موسم برسات نے جہاں آم کا راجہ دسہری کی لذت کو پھیکا کردیا ہے وہیں دسہری آم پر لگنے والے داغ نے آم کے فصلوں پرمنفی اثر ڈالا ہے۔

رہی سہی کمی لاک ڈاؤن کے سبب بیرون ممالک آم سپلائی نہ ہونے کی بنا پر باغبانوں کے چہروں پر پریشانیوں کی لکیریں واصح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

دسہری میں پنپنے والی مرض کے سبب جلدی پکنے والا دسہری آم اب چند دنوں کا ہی مہمان رہ گیا ہے اور اگست میں ختم ہونی والی فصل اس بار جولائی کے اواخر تک ختم ہونے جا رہی ہے۔

awaz urdu

تاہم ملیح آبادی چوسا اور سفیدہ،لنگڑا آموں کی دستک نے لوگوں کی تھوڑی سی دلچسپی بڑھائی ہے اور چوسا و لنگڑے آموں سے دستر خوان کی رونق دوبالا ہوگئی ہے۔

دوسو سال پرانی ہے ملیح آبادی آم کی تاریخ

مینگو ویلفیئر ایسوسی ایشن(mango walfare association) کے صدر انصرا م علی بتاتے ہیں بے موسم برسات نے آم کی فصلوں کا کھیل بگاڑ دیا ہے رہی سہی کسر نقلی داؤں نے پوری کردی ہے نیز سبسڈی کے خاتمہ کے سبب بیرون ملک ملک آم سپلائی متاثر ہونے کے سبب نے باغبانوں کی کمر توڑ دی ہے۔

انہوں نے کہاکہ نقلی داؤں نے آم کی مٹھاس کو بھی پھیکا کردیا ہے اور گذشتہ سال کے مقابلہ سال رواں فصلوں پر منفی اثر پڑاہےاور بے موسم برسات کی وجہ سے جہاں آم کو 44 ڈگری ٹمپریچر چاہئے تھا وہ نہیں ملا جس کی وجہ سے آم کا ذائقہ خراب ہوگیا اور سہی طریقے سے اس کی فروخت بھی نہیں ہو پائی۔

awaz urdu

آم کے دوسرے جانکارسچدیو سنگھ یادو کہتے ہیں کہ اس مرتبہ آم پرلگنے والی مرض نے سارا کھیل بگاڑا ہے اور نقلی دواؤں کے سبب آم کا مزہ بے ذائقہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ لاک ڈاؤن اور کورونا بحران کا بھی بازار میں اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

انہوں نے سرکار سے کسی بھی طرح کی مدد سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو چاہئے کہ ایسی دوائیں دستیاب کرائیں جس سے آم کی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہو۔

دسہری آم کے ایجاد میں پوشیدہ ہے،دسہری گاؤں کی ہوئی شناخت

اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے 25 کلو میٹرکی دوری پر واقع ملیح آباد کے آموں کی تاریخ 200سال پرانی ہے، جہاں آم کا راجہ ملیح آبادی دسہری کا چرچا عالمی منڈیا میں سنائی دیتا ہے تو وہیں ملیح آباد کی گود میں واقع،دسہری گاؤں،،کے نام سے آباد ہے۔

آم کی تاریخ داں کہتے ہیں کہ اسی گاؤں سے دسہری آم کی ایجاد ہوئی اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام دسہری گاؤں رکھا گیا ہے۔

awaz urdu

مقامی باشندہ قمر عالم خاں نے بتایا کہ دسہری آم کی نسل اسی گاؤں سے ایجاد ہوئی ہے۔یہ دسہری درخت دوسو سے ڈھائی سوسال پرانا ہے۔

اور پہلے لکھنؤ کا راستہ یہی سے گذرتا تھا نوابین اودھ لکھنؤ میں فقیر محمد خاں لکھنو نوابوں کے سپہ سالار ہواکرتے تھے اور جب وہ اس طرف سے گذرتے تھے وہ اس درخت کے نیچے آرام ضرور کرتے اس دوران انہوں نے ایک مرتبہ آم کھایا تو انہیں کافی ذائقہ دار لگا تو یہاں سے قلم بناکر لے گئے یہاں کی مٹی طاقتور ہے اسی زر خیر مٹی سے پوری دنیا میں دسہری پھیل گئی ہے۔

awaz urdu

انہوں نے کہاکہ مرور ایام کے ساتھ سب کچھ بدل گیا اور مٹ گیا لیکن دسہری ایجاد کرنے والا بوڑھا درخت ابھی سلامت ہے اور اس کی سینکڑوں شاخیں راہگیروں اور مسافروں کا سایہ فراہم کرتی ہیں۔

ملیح آباد آم کا مزہ چکھنے والے دیوانے اس دسہری گاؤ ں کی سیر کرنا ضرروی سمجھتے ہیں۔ دراصل صدیوں پر محیط اس دسہری گاؤں کی داستان کافی دلچسپ ہے اس لئے کہ دسہری آم کی ایجاد اسی گاؤں سے ہی جس کو دیکھنے کے لئے دور دراز سے طویل سفر طے کرکے لوگ آتے ہیں۔