ریشمی ساڑیوں کا مرکز،ہندو۔مسلم یکجہتی کا گہوارہ اورعلماء کا قصبہ، مبارک پور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ریشمی ساڑیوں کا مرکز،ہندو۔مسلم یکجہتی کا گہوارہ اورعلماء کا قصبہ، مبارک پور
ریشمی ساڑیوں کا مرکز،ہندو۔مسلم یکجہتی کا گہوارہ اورعلماء کا قصبہ، مبارک پور

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اعظم گڑھ :یوپی کے دگر شہروں کے برخلاف مبارک پور کی گلیاں صاف ستھری اور سڑکیں پختہ نظرآتی ہیں۔سیوریج کے کھلے نالے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ اگرچہ کچھ گھر ویران نظر آتے ہیں اور دروازوں پر تالے پڑے دکھائی پڑتے ہیں، لیکن ان کے اہل خانہ خوشحالی کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت کر گئےہیں یا بیرون ملک مقیم ہیں۔

اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کا قصبہ مبارک پور اپنی گوناگوں خوبیوں کے لئے عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ وہ قصبہ ہے جس نے بڑے بڑے اہل علم ودانش کو جنم دیا۔ یہ خطہ ہینڈلوم صںعت، بنارسی ساڑیوں کی بنائی کے ساتھ ساتھ ہندو۔مسلم اتحادواتفاق کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تاریخی قصبے نے خودکو فرقہ وارانہ تنازعات سے دور رکھا۔یہی سبب ہے کہ کبھی بھی یہاں کوئی بڑافساد برپا نہیں ہوا۔

awaz

بنارس کے نام پربکتی ہیں مبارکپورکی سلک ساڑیاں

سیاسی منظرنامہ

قصبہ مبارک پور کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ہے جس میں لگ بھگ70 فیصد مسلمان ہیں مگریہاں ہندو اورمسلمان مل جل کر رہتے ہیں۔ اعظم گڑھ ضلع میں 10 ودھان سبھا سیٹیں ہیں ہیں جن میں ایک مبارک پور بھی ہے۔ یہاں آخری مرحلے میں آج 7 مارچ کو ووٹنگ ہے۔سبھی پارٹیوں کے تجربہ کار لیڈروں نے اعظم گڑھ میں ریلیاں کی ہیں اور ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اپنی باتیں رکھی  ہیں۔

مبارک پورمیں اصل لڑائی ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان ہے، لیکن امکان اس بات کا بھی ہے کہ اس سیٹ سے مجلس اتحادالمسلمین بازی مارلے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مجلس کے امیدوارشاہ عالم گڈوجمالی،یہاں سے موجودہ بی ایس پی ایم ایل اے ہیں جو اب مجلس کے ٹکٹ پرمیدان میں ہیں۔ ودھان سبھا حلقے میں سہ رخی مقابلے کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو بھی امید کی کرن نظر آرہی ہے،حالانکہ وہ یہاں سے کبھی نہیں جیتی۔ غورطلب ہے کہ اس سیٹ پر گزشتہ پچیس سالوں سے بی ایس پی کا قبضہ ہے۔

مبارکپورکی سلک ساڑیاں۔

مبارک پورہینڈلوم صںعت کی آماجگاہ ہے۔ اسےبنارسی ساڑیوں کی تیاری کے لیے جاناجاتا ہے۔ یہاں کی ساڑیاں اکسپورٹ بھی کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں لنگیاں، گمچھے اور دوسرے کپڑے بھی تیار ہوتے ہیں۔ قصبے کی خوش حالی کا راز اسی صنعت میں پوشیدہ ہے۔ حالانکہ نوٹ بندی اورکوروناکے سبب لاک ڈائون نے یہاں کی صںعت اورباشندوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

awaz

ہینڈلوم پرکام کرتاکاریگر

مبارک پور کی سلک ساڑیاں عموماً"بنارسی سلک ساڑی" کے نام سے فروخت کی جاتی ہیں مگر اب اس قصبے کی ساڑیوں کی بھی پہچان بنتی جارہی ہے اور خاص مبارک پورکے نام سے یہ فروخت ہونے لگی ہیں۔یہاں کئی نسلوں سے ہینڈلوم چل رہے ہیں اور کپڑوں کی صںعت قائم ہے۔

قصبہ کے رہنے والے رضوان احمد بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان 10پشتوں سے اس کپڑے کی صںعت سے وابستہ ہے۔ کہتے ہیں ،میں اپنی اہلیہ، بھائیوں اور ان کی بیویوں کے ساتھ مبارک پورمیں یہ کام کر رہا ہوں۔ ہم 6 کام کرنے والے بالغ لوگ اپنے 6 بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہم زری ساڑیاں اور دوپٹے بناتے ہیں، زیادہ تر کتان، ریشم، ڈوپیئن، ٹسر اور کچھ سوتی ساڑھیاں بنتے ہیں۔ہم خالص ریشم کے دھاگوں کا استعمال کرتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہماری خاصیت یہ ہے کہ ہم خالص ترین ریشم کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے تمام ڈیزائن مقامی ہیں، جو ہماری مقامی ثقافت اور طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم مغلوں کے زمانے سے خالص ریشم، چاندی اور سونے کا استعمال کرتے ہوئے کمخواب سے ساڑیاں اور دوپٹے بھی بناتے ہیں۔

ہندو۔مسلم اتحادکاگہوارہ

مبارک پور میں قومی یکجہتی کا سماجی تانا بانا بے حد مضبوط ہے۔یہاں کے لوگوں کا کہناہے کہ یہاں ہندو۔ مسلم ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بازار میں چہل قدمی کرتے ہوئے ایک چائے والے سے بات ہوئی اور یہاں کے فرقہ وارانہ ماحول کے بارے میں صحافی نے جاننا چاہا۔

ایک چائے والے نے اپنا نام سجیت بتایا۔ سجیت نے کہا کہ یہاں صرف دو چار دکانیں ہندو بھائیوں کی ہیں، باقی تمام مسلمان یہاں رہتے ہیں لیکن آج تک انہیں کبھی کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ یہاں کا ماحول کبھی خراب نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ 1992 میں جب پورے ملک کا ماحول خراب ہو چکا تھا تب بھی مبارک پور میں امن تھا۔ یہاں ہندو اور مسلمان مل کر تمام تہوار مناتے ہیں۔

علمی مرکز

awaz

مبارک پور کو معروف اسلامی ادارہ الجامعتہ الاشرفیہ کے لئے بھی جانا جاتا ہے جس کا شمار ہندوستان کے سب سے بڑے اداروں میں ہوتاہے۔ یہاں ملک بھر کے ہزاروں لڑکے دینی تعلیم پاتے ہیں۔ یہاں کے فارغین دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں اور بعض نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک رسائی پالی ہے۔

قصبہ کے قابل ذکر مقامات میں ٹھاکر جی کا مندر اور راجہ مبارک شاہ کی مسجد شامل ہیں۔ اس قصبے نے بڑے بڑے اہل علم کو پیدا کیا ہے جن میں مولاناصفی الرحمان مبارکپوری بھی شامل ہیں جن کی سیرت نبوی پر لکھی گئی کتاب ’الرحیق المختوم‘ عالمی شہرت کی حامل ہے۔ معروف ادیب حقانی القاسمی نے مبارک پورکے اہل علم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:۔

’’حضرت راجہ سید مبارک شاہ (م 965ھ)کے نام پر بسا ہوا مبارکپورچھوٹا قصبہ ہے جو پہلے قاسم آباد کہلاتا تھا۔ اس قدر زرخیز ہے کہ وہاں کی زمین سے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(صاحب تحفۃ الاحوذی) ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری (تاریخ المنوال کے مصنف)، مولانا عبید اللہ مبارکپوری( مرعاۃ المفاتیح کے مصنف)، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سیرت پر سب سے اچھی تصنیف الرحیق المختوم کے مصنف)، اور قاضی اطہر مبارکپوری جیسے ذی علم آفاقی شہر ت یافتہ افراد نے جنم لیا، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جن کی عظمت کا اعتراف بلا لحاظ مسلک و ملت پوری علمی دنیا نہ کرتی ہو۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ایسی بڑی بڑی شخصیتوں کی موجودگی اس کی عظمت پر مہرثبت کرنے کے لئے کافی ہے ۔‘‘