بجٹ میں چھوٹے کاروبار، صحت اور تعلیم پر توجہ کی ضرورت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-01-2021
وزیرخزانہ نرملا سیتارمن
وزیرخزانہ نرملا سیتارمن

 

سشما رام چندرن

رواں مالی سال کا بجٹ ایک ایسے پس منظر میں پیش کیا جا رہا ہے جب ایک عالمی سطح کے وبائی مرض نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے- ہندوستان کی معیشت بھی اس کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں- وزیرخزانہ نرملا سیتارمن کے کاندھوں پر اب مانگ کو بڑھا کر اور سرمایہ کاری اور بچت کے لئے مراعات میں اضافہ کرکے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری آن پڑی ہے- وزیرخزانہ کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارسمیت معیشت کے ان مخصوص عناصر پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جسے کورونا نے بری طرح تباہ کر دیا- بے روزگاری کی شرح اپنی انتہاء پر ہے جس کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ صنعتی اور تجارتی کام معمول پر آئیں اورسروس شعبے کو معمول کے مطابق کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔

وزیر خزانہ کے لئے یہ بھی اہم ہے کہ وہ معاشی درجہ بندی میں سب سے نیچے آنے والے طبقے کی ضروریات پرغور کریں- پچھلے سال معیشت کو بحال کرنے کی غرض سے کئے گۓ اقدامات میں زیادہ تر توجہ نقد فراہمی کے پہلو پرتھی، جس میں قرض کے حصول کو آسان بنانا سر فہرست تھا- اگرچہ ان اقدامات کا صاف طور پر اثربھی دیکھنے کو ملا ہے اور معیشت کے وی شکل کی بحالی کی طرف گامزن ہونے کے آثار ہیں ، لیکن جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ ہے مانگ میں اضافہ کے لئے زیادہ واضح نقطہ نظر- مانگ میں اضافہ غریب ترین اورکورونا سے بدترین طورپر متاثرہ افراد کے کھاتوں میں نقد رقم کی منتقلی کرکے کیا جاسکتا ہے- آکسفیم کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں جس میں عالمی سطح پر ۔کورونا کے باعث ہونے والی عدم مساوات کا انکشاف کیا گیا ہے، ایسا قدم اور بھی ضروری ہو جاتا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان کے ارب پتی افراد کی دولت میں پینتیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے- اس کے برعکس بارہ کروڑ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہوگئے جن میں سے دو تہائی غیرمنظم یا انفارمل شعبے سے تھے- اس منظر نامے میں یہ واضح ہے کہ فوری طور پران انتہائی نادار طبقے کو جن میں وبائی امراض کی وجہ سے ملازمت سے محروم ہونے والے افراد بھی شامل ہیں، نقد کی براہ راست منتقلی کی جائے

دوسرا شعبہ جس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار- پچھلے سال اس شعبے کے لئے دیا گیا پیکیج آمدنی کے نقصان سے دوچارکمپنیوں کو بچانے کے لئے کافی نہیں تھا -حالیہ دنوں میں بظاھر نظر آنے والی معاشی بحالی بڑے شعبے کی کمپنیوں کی طرف سے ہونے والے محرکات تک ہی محدود ہے- ان بڑی کمپنیوں کے پاس چھوٹے کاروباریوں کے برعکس لاک ڈاؤن اور پابندیوں کا دباؤ برداشت کرنے کے وسائل موجود ہیں- کورونا کی وجہ سے سروسز کا شعبہ خصوصاً مہمان نوازی کا شعبہ جس میں ہوٹل اور چھوٹے ریستوراں شامل ہیں، بری طرح متاثر ہوئے ہیں- اس شعبے میں لاکھوں چھوٹے کاروبار شامل ہیں جن میں کثیر تعداد منظم اور غیرمنظم لیبرکی ہے- ایک اندازہ کے مطابق چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروباری طبقہ تقریباً گیارہ کروڑافراد کو ملازمت فراہم کرتا ہے لیکن ان میں سے بیشتر نے اپنی ورک فورس کو یا توختم کردیا ہے یا کم کردیا ہے- انھیں وجوہات کی بنا پرمعاشی حالات میں قدرے بحالی کے باوجود سی ایم آئی ای کے اعداد و شمارحالیہ مہینوں میں نوکریوں میں غیر معمولی کمی کا انکشاف کررہے ہیں- پچھلے سال اعلان کردہ مراعات کا پیکیج بڑی حد تک ان کمپنیوں کو تازہ کریڈٹ فراہم کرنے کےتعلق سے تھا جنھوں نے بھاری قرض لیا ہوا تھا- چھوٹی صنعتوں کے اسوسیئیشن نے شکایت کی ہے کہ وہ نئی سہولت حاصل کرنے میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں جبکہ چھوٹے اور مائیکرو طبقے کے کاروباریوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں ہے- اس طبقے کے لئے جو کہ ملک کی جی ڈی پی میں 30 فیصد تک حصہ ڈالتا ہے، واضح طور پر موثر اقدامات مرتب کرنے کی ضرورت ہے

تیسرا شعبہ جس پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے وہ ہے ہیلتھ کیئر۔ وبائی مرض کے دوران سب کے لئے صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت اب واضح ہوچکی ہے۔ اب یہ بات بھی بڑے پیمانے پرصاف ہوگئی ہے کہ معیشت کی صحت عوام کی صحت سے مشروط ہے- مثال کے طور پراب یہ ہر کوئی قبول کر رہا ہے کہ اگر ملک وسیع پیمانے پر ویکسینیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس طرح وائرس سے تحفظ حاصل کرلیتا ہے تو معیشت میں مزید کسی محرک اقدامات کے بغیرہی بحالی ہو سکتی ہے۔ تاہم ، اس عمل میں چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے

دریں اثنا ، وبائی مرض نے ملک کے صحت کے شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں موجود کمی کو بے نقاب کردیا ہے- بڑے شہروں میں بھی بحران کے عروج کے دوران بستر ملنا مشکل ہوگیا تھا- خوش قسمتی سےکورونا دیہی علاقوں میں بہت زیادہ داخل نہیں ہوا کیوں کہ ان علاقوں میں صحت کے شعبے کے بنیادی نظام کی حالت بہت زیادہ خراب ہے- یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہندوستان میں دواسازی کی ایک مضبوط صنعت ہے اورساتھ ہی ہندوستان ادویات برآمد کرنے والا ایک اہم ملک بھی ہے- صحت کے شعبے کے بنیادی ڈھانچےمیں فقدان کی اصل وجہ صحت پر ہونے والے قلیل اخراجات ہیں- ملک میں جی ڈی پی کا صرف ڈیڑھ فیصد ہی صحت پرخرچ ہوتا ہے جبکہ چین میں پانچ فیصد اور یورپی ممالک میں سات سے آٹھ سے فیصد خرچ ہوتا ہے- صحت پر مختص ہونے والی رقم کو نہ صرف بڑھانےکی ضرورت ہے بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کو بہتر بنانے پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

چوتھا شعبہ جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے وہ تعلیم ہے۔ یہاں بھی جی ڈی پی کا صرف دو عشاریہ آٹھ فیصد ہی خرچ ہوتا ہے- صحت کے علاوہ اس شعبے میں بھی کورونا کے دوران بہت سارے انتظامی شگاف بےنقاب ہوئے ہیں۔ آن لائن تعلیم کی ضرورت نے انکشاف کیا کہ بیشتر بچوں کے پاس ڈیجیٹل تعلیم کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ، ہندوستان کو ایک سافٹ ویئر سپر پاورتو قرار دیا جاسکتا ہے ، لیکن جب تعلیم کی بات آتی ہے تو بیشتر بچوں کو موبائل فون ، ٹیلی ویژن یا لیپ ٹاپ تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔ غذائیت کےلئے دوپہر کے کھانے پر انحصارنے بچوں کی صحت کو بھی متاثر کیا کیونکہ یہ تمام افراد جو مڈ دے میل سے غذائیت کو حاصل کر لیتے تھے, اسکول بند کی وجہ سے اس سے محروم رہے

اس سال کے بجٹ کو اس طرح بنانے کی ضرورت ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہ ملتی ہو- یہ بات درست ہے کہ محصولات میں کمی اور مالی خسارے کی زیادتی ایک ناگزیر امر ہے لیکن پھر بھی ملک میں لاکھوں افراد کو درپیش فوری بحران کو مناسب انداز میں حل کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ لہذا اب یہ وقت آگیا ہے کہ مراعات کی براہ راست منتقلی کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے لئے نرمی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ، چھوٹے کاروباری اداروں کو قلیل مدتی دشواریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے بہتر معاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ جب تک صحت اور تعلیم کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے زیادہ خرچ نہیں کیا جائے گا تب تک ملک اس کے طویل مدتی فوائد سے مستفید نہیں ہو سکے گا