بنگلورو کے پاور لیفٹر محمد عظمت ، کورونا دور میں بنے غریبوں کے مسیحا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-05-2021
پاور لیفٹر محمد عظمت
پاور لیفٹر محمد عظمت

 

 

بنگلورو

محمد عظمت بنگلورو میں ڈی ایکس سی ٹیکنالوجیز سے منسلک ہیں ۔ ان کا ایک خوش حال کنبہ ہے ، ایک بیوی ، ایک 13 سالہ بیٹی اور ایک 10 سالہ بیٹے کی صورت میں الله نے انہیں زندگی کی بہترین نعمتوں سے نوازا ہے ۔ لیکن جب ایک بار انہوں نے شمالی کرناٹک میں لاشوں کو توہین آمیز طریقے سے ڈمپ ہوتے دیکھا تو ان کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔

آج کی تاریخ میں عظمت بنگلورو کی ہیلپ لائن میں کام کرتے ہیں اور جب راشن کی تقسیم ، کورونا کے مریضوں کی تدفین اوردیگر متعدد خدمات کی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ تیار ملتے ہیں ۔ وہ ایک پرجوش پاور لیفٹر بھی ہیں جو اب غریبوں اور مسکینوں کی زندگی بچانے والے بن چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی پاور لفٹنگ کے لئے تربیت دیتا ہوں ، چیمپیئن شپ کا اہتمام کرتا ہوں ، لیکن اب میری ترجیحات بدل گئیں ہیں ۔

ان کی تنظیم بھی اس حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے ۔ عظمت کا کووڈ امدادی کام پچھلے سال اس وقت شروع ہوا جب وہ مرسی مشن سمیت متعدد گروپوں کا حصہ بنے ۔ تارکین وطن کے لئے فوڈ پیکیجنگ سے لے کر آکسیجن سلنڈر کو پہنچانے تک ، مریضوں کی مدد کے لئے وہ بے صبر رہتے ہیں ۔

عظمت کہتے ہیں کہ بہت سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو دن رات مجھے پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایک مریض کو لیکر مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں جو سانس نہیں لے پا رہا ہے ، اور ہم آخر کار کسی طرح اسپتال میں اس کے بستر کا انتظام کرتے ہیں ، پھر اس کے کچھ ہی دیر کے بعد ہم یہ سنتے ہیں کہ مریض مر چکا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرنے والے کے اہل خانہ کی چینخیں ان کے ذہن میں رقص کرتی ہیں ۔ جب کبھی بھی مریض کو انتقال کے بعد ان کے گھر والے چھوڑ جاتے ہیں تو عظمت اور ان کے ممبروں کی ٹیم ہمیشہ اپنی وینوں کے ساتھ وہاں موجود رہتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ مرنے والوں کی عزت کے ساتھ آخری رسومات ادا کی جائیں ۔

ایک وقت تھا جب عظمت کو کورونا کے شکار دو لاشیں لینے کی درخواست موصول ہوئی ، ایک وائٹ فیلڈ سے اور دوسرا ملسورام سے۔ اور اس کے فورا بعد ہی اسے معلوم ہوا کہ دونوں بھائی تھے۔ ہر ایک لمحہ میری یادوں میں کھڑا رہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ دونوں بھائیوں کے بچے حیران اور غم سے دوچار ہیں۔

عظمت اور اس کی ٹیم کورونا پروٹوکول کو یقینی بنانے کے لئے انتہائی محتاط رہتی ہے۔ ماسک ، سینی ٹایزرس ، پی پی ای کٹس اور معاشرتی دوری ہر چیز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ عظمت نے کہا کہ یہ میری بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر ہی گزشتہ سال میں کوویڈ کا نشانہ بنا ۔عظمت نے مزید کہا کہ ان کے گھر کے افراد پچھلے سال سے ہی ان کی حفاظت کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔

ان کے بقول دوسری لہر بے انتہائی مضر ہے۔ یہ قتل عام ہے۔ آئی سی یو بیڈ کے لئے جگہ نہیں ہے ۔ سنگین مقدمات بڑھتے جا رہے ہیں۔ صحت کا بنیادی ڈھانچہ گر رہا ہے۔ اور جب بہت سارے لوگ مجھ سے مدد طلب کرتے ہیں تو میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں ۔

عظمت کے لئے ، بستر الاٹمنٹ گھوٹالہ نیا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ "بستر کے لئے رشوت " والا ڈھانچہ حفظان صحت کے نظام کا ایک لازمی حصہ رہا ہے جس کا مشاہدہ ہم نے پہلی لہر کے دوران بھی کیا تھا ۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ میں نے ایک بستر بک کرایا ، مریض لے کر جب پہنچا تو پتہ چلا کہ میرا بستر دوسرے کو دے دیا گیا ہے جو 50،000 روپے ادا کرنے کو تیار تھا ۔

عظمت نے کہا گھوٹالوں سے قطع نظر ، کیسز کی غیر معمولی تعداد ہی اپنے آپ میں قاتل ہے۔ اسپتال کے بیڈ کی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہونے کے باوجود عظمت کے ایک ساتھی کا بھائی فوت ہوگیا۔ عظمت کہتے ہیں کہ ہمیں بستر نہیں مل سکا۔ یہاں تو صرف 100 بستر ہیں ، یہاں ایک دن میں 20،000 کیسز سامنے آتے ہیں۔ اگر ہم فرض کریں کہ ان میں سے 10 فیصد بھی بیڈ آئی سی یو ہیں تو آپ اس کا حساب خود کرسکتے ہیں۔

عظمت کی صرف یہی خواہش ہے کہ بیمار کو احتیاط سے رکھا جائے ، چاہے اسٹریچر پر ہو یا تابوت میں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ کووڈ کے وقت سیاستدان فرقہ واریت کرنا چاہتے ہیں لیکن صورتحال زمینی سطح پر مختلف ہے۔ اگر میں مسلمان ہوں تو کسی کو اب اسکی پرواہ نہیں ہے۔ اور میری ٹیم کے ممبروں میں سے کسی کو بھی اس شخص کے مذہب کی فکر نہیں ہے جس کی وہ خدمت کر رہے ہیں۔ زمینی سطح پر کبھی بھی نفرت نہیں ہوتی ہے۔ میری ٹیم میں راہل ، امبروز ، سنگھ وغیرہ ہیں ، جو میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اور وہ ایک غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔ ہم سب خدمت کے لئے حاضر ہیں۔

عظمت کہتے ہیں کہ جب لوگ میرا شکریہ ادا کرتے ہیں تو مجھے دلی سکون محسوس ہوتا ہے۔ اور مجھے مزید تحریک ملتی ہے کہ میں اور بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں ۔