شیخ محمد یونس ۔ حیدرآباد
ریاست تلنگانہ کے محبوب آباد کی ایک نوجوان مسلم لڑکی محمد سوما خطروں کے کھلاڑی کے طورپر جانی جاتی ہیں۔جانوروں کی زندگیوں کا تحفظ اس نوجوان لڑکی کا محبوب مشغلہ ہے۔وہ مصیبت میں پھنسے جانوروں کے تحفظ کیلئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ جانوروں سے بے پناہ محبت کے باعث وہ سارے ضلع میں مشہور ہے اور تاحال درجنوں جانوروں کو بچانے کے علاوہ ان کا علاج بھی کرچکی ہیں۔
محمد سوما کی بہادری اور جانوروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوے سال 2020میں عالمی یوم خواتین کے ضمن میں منعقدہ تقریب میں گورنر تلنگانہ تمیلی سائی سندرا راجن نے ایوارڈ عطا کیا۔محمد سوما انٹر میڈیٹ کامیاب ہیں۔محمد سوما کے والد محمد سبحانی پیشہ سے جرنلسٹ ہیں اور وہ اپنی لڑکی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
سوما کی محبت جانوروں اور پرندوں کےلئے نئی زندگی کی ضمانت ہے۔
سماج میں آج بے حسی عام ہوتی جارہی ہے۔کوئی بھی ناگہانی واقعہ پیش آنے کی صورت میں متاثرین کی مدد کیلئے کوئی بھی آگے نہیں آرہے ہیں تنگ نظری کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرین کی صرف فوٹوز اور ویڈیوز بنانے میں لوگ مصروف دیکھے جارہے ہیں۔ایسے بے حس سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے محمد سوما کی خدمات مثالی ہیں۔محمد سوما جانوروں کو بچانے کیلئے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال دیتی ہیں ۔
عالمی یوم خواتین کے موقع پر گورنر تلنگانہ تمیلی سائی سندرا راجن نے ایوارڈ سے نوازا تھاپچھلے سال
کنویں میں اتر گئیں
تلنگانہ کے ضلع محبوب آباد میں واقع ایک کنویں میں ایک لومڑی گرگئی جس کے ساتھ ہی مقامی افراد کنویں کے پاس پہنچے اور لومڑی کو پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اس لومڑی کو کس طرح بچایا جائے ۔دوسرے الفاظ میں وہ اس جانور کو بچانے کی ہمت نہیں کرسکے اس دوران میںمحمد سوما کنویں کے پاس پہنچی اورکمر کو رسی باندھ کرمقامی افراد کی مدد سے 40 فٹ گہرے کنویں میں اتر گئی اور لومڑی کو نکالتے ہوئے احتیاط سے کنویں سے باہر نکل آئی ۔تاہم اس دوران پانی میں کافی دیر تک رہنے کی وجہ سے لومڑی کی موت واقع ہوئی۔لومڑی کی موت پر لڑکی نے شدید افسوس کا اظہار کیا ۔
زخمی لومڑی کو بچانے کےلئے سوما اتر گئیں تھیں گہرے کنویں میں
گیارہ سال کی عمر سے
محمد سوما11سال کی عمر سے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے جانوروں کو بچا رہی ہیں اورکئی جانوروں کا علاج بھی کرچکی ہیں۔ محمد سوما نے نہ صرف لومڑی کی جان بچانے کیلئے جان توڑ کوشش کی اس طرح یہ نوجوان لڑکی نے تاحال 120 جانوروں کو بچایا۔ زخمی جانوروں اور پرندوں کے علاج کیلئے بھی محمد سوما شہرت رکھتی ہیں۔کوئی بھی جانور یا پرندہ خطرہ میں ہونے کی اطلاع ملتے ہی دن ہویا رات محمد سوما مقام واقعہ پہنچ جاتی ہیں اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جانوروں کی جانیں بچاتی ہیں۔
ایک زخمی بندرعلاج سے پہلے اور علاج کے بعد
والدین نے دکھائی راہ
سوما نے بتایا کہ وہ اس کام کے لئے اپنے والدین سبحانی اور سلیمہ کی خدمات سے متاثر ہوکریہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔محمد سوماکے والد ماحولیات کے تحفظ کیلئے بھی کام کرتے ۔ سوما نے بتایا کہ وہ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھی کہ اس نے ایک جنگلی جانور کو بچایا تھا۔لڑکی نے بتایا کہ جانوروں کے تحفظ کے کام میں اس کے والد بھی اس کی بھر پور مدد کرتے ۔محمد سوما نے بتایا کہ جانوروں کو بچانے کا کام خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔تاہم کبھی بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ سوما نے کئی سال قبل ایک اژدھے کو پکڑا تھا اور محکمہ جنگلات کے حوالے کیا تھا۔
سوما کو جانوروں سے کافی لگائو ہے۔یہی وجہ ہے کہ سوما کے گھر پر جانوروں کے علاج کیلئے خصوصیت کے ساتھ ایک شیڈ بھی بنایا گیا ہے۔
ٹول فری موبائل انیمل میڈیکل ایمبولنس نمبر 1962پر کسی بھی جانور کے خطرے میں ہونے کے متعلق اطلاع ملتے ہی محمد سوما اپنے مشن پر روانہ ہوجاتی ہیں۔
سوما زخمی جانوروں کی خدمت میں سکون محسوس کرتی ہیں
محمد سوما اپنے اسلحہ کے طورپرایک رسی ' بیاگ اور دستانے لیکر جانور کی مدد کیلئے پہنچ جاتی ہیں۔جانوروں کے ساتھ محمد سوما کے لگائوکو دیکھ کر مقامی عوام حیرت زدہ ہیں۔جانوروں کے تحفظ ' جانوروں کی جان بچانے کے علاوہ علاج و معالجہ کے باعث سوما سارے گائوں میں کافی مقبول ہیں۔