پارسا مفتی: اسٹیفن شوارزمین فیلو شپ حاصل کرنے والی پہلی کشمیری

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-12-2021
 پارسا مفتی: اسٹیفن شوارزمین فیلو شپ حاصل کرنے والی پہلی کشمیری
پارسا مفتی: اسٹیفن شوارزمین فیلو شپ حاصل کرنے والی پہلی کشمیری

 


رضوان شفیع وانی، سری نگر

کشمیریوں میں سرکاری نوکری کا ایک بُرا اور غلط تصور ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ نوکریوں کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجئینر یا سیول سروس امتحان کولیفائی کریں۔ کشمیر میں اگر گوگل یا فیس بُک کا سی ای او آگے گا اس کو بھی یہاں لوگ غیر سنجیدگی سے لیں گے اور کہیں گے کہ معمولی آدمی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگوں میں شعور آئے اور اس تصور کو ختم کر کے سرکاری نوکری کے بجائے دیگر مواقعے ڈھونڈ لیں۔

ان خیالات کا اظہار ’آواز دی وائس‘سے گفتگو کرتے ہوئے پارسا مفتی نے کیا، جو ان  کشمیری لڑکیوں میں سے ایک ہیں جو قدامت پسندی اور فرسودہ روایت کی بندشوں سے نکل کراپنےخواب اور خواہشات کی تعبیر کے لیے دنیا کے دوسرے ممالک کا رُخ کر رہی ہیں۔

انہیں معروف اسٹیفن شوارزمین فیلو شپ کے لیے انتخاب کیا گیا ہے۔ پارسا مفتی اس فیلو شپ کو حاصل کرنے والی کشمیر کی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔ پارسا مفتی کا تعلق جنوبی کشمیر کے بجبہاڑہ علاقے سے ہے۔

رواں برس ہندوستان کے پانچ طالب علم اس فیلو شپ کے لیے منتخب ہوئے ہیں، جن میں پارسا مفتی بھی شامل ہے۔ پارسا مفتی بہت خوش اور فخر محسوس کررہی ہیں کہ ان کا نام دنیا کے ممتاز گریجویٹ اسکارلز میں آیا ہے انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا میں بہت خوش اور پُرجوش ہوں کہ میں شوارزمین اسکالرشپ کے لیے منتخب ہوئی۔

جب میں نے سنا کہ اس لسٹ میں میرا نام بھی شامل ہے تو میں پہلےحیرت میں پڑ گئی۔ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ بار بار لسٹ دیکھ رہی تھی کہ کیا واقعی یہ میں ہی ہوں۔ اس کے بعد گھر والوں کو فون کر کے بتایا۔

وہ بھی بہت خوش ہوگئے اور مبارک باد دینے لگے۔ 'سات برس قبل اس اسکالر شپ کو شروع کیا گیا ہے اور آج تک شاید سینکٹروں کشمیری لڑکوں اور لڑکیوں نے اس کے لیے درخواست جمع کی ہونگی، لیکن آج تک کوئی منتخب نہیں ہوا۔ میں کشمیر کی پہلی لڑکی ہوں جو اس اسکالرشپ کے لیے منتخب ہوئی ہوں اور میرے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ میں عالمی سطح پر جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کی نمائندگی کر سکوں اور یہاں کے مسائل کو اجاگر سکوں۔' شوارزمین کالج چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سنگھوا یونیورسٹی کے کیمپس میں واقع ہے۔شوارزمین دنیا کا سب سے باوقار گریجویٹ فیلوشپس میں سے ایک ہے، جسے امریکی ارب پتی اسٹیفن اے شوارزمین نے فنڈ فراہم کیا ہے۔

اس اسکالرشپ سے متعلق پارسا مفتی کہتی ہے کہ پوری دنیا سے ایسے ہونہار طالب علموں کو منتخب کیا جا ہے جو گلوبل لیڈرز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں نے اس اسکالرشپ کے لیے ستمبر میں درخواست جمع کی تھی۔ اکتوبر میں انٹرویو ہوا تھا۔الحمدللہ انٹرویو بھی کولیفائی ہوا۔ تذبذب کا شکار پارسا مفتی نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ اس مقام تک پہنچے گی اور اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کا نام روشن کرے گی۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے ایسا کچھ سوچا نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے، اسی وجہ سے میرا سفر ہمیشہ سے تذبذب میں رہا ہے میں سوچتی تھی کہ یہ بھی کرنا ہے وہ بھی کرنا ہے، پہلے اکنامکس پڑھا پھرجب اس میں دلچسپی کم ہونے لگی، تو قانون کی پڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

'قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ ایک ہی چیز پر فوکس کرنا ہے اور کامیابی بھی اُسی میں ہے۔ میرے اندر سوجھ بوجھ آنے لگی اور ملک کی پالیسی سمجھنے لگی، ملک کیسے چلتا ہے، اس کو چلانے کے لیے کس طرح کے ضوابط، قوانین اور اصول ہیں۔ میں نے زیادہ محنت کرنا شروع کیا۔ آج اس محنت کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔' 'کچھ سالوں سے ملک میں کس طرح کا ماحول ہے، حالات کیسے بنے ہوئے ہیں اور کیسے چیزیں بدل گئی ہے۔ ہم سوچتےہیں کہ باہر سے آکر کوئی ہماری مدد کرے گا اور چیزوں کو بدلنے میں مدد کرے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔

awazthevoice

پارسا مفتی ۔کشمیر کی بدلتی تصویر 


کبھی کبھی ہمیں خود ہی میدان میں اتر کر تبدیلی لانی ہوتی ہے اور میں بھی سماج کے دقیانوسی تصور کو تبدیل کرنے کوشش کر رہی ہوں۔' پارسا مفتی کا کہنا ہے کہ 'میں عالمی سطح پر کشمیر کی عکاسی کرنا چاہتی ہوں اور کشمیر کو دنیا کے سامنے لانا چاہتی ہوں۔ کشمیر اور کشمیریوں کی ترقی اور روشن خیالی دکھاناچاہتی ہوں، کشمیریت کی خصوصیت اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔۔ وہ کہتی ہے کہ کشمیر میں بہت کچھ ہے،بہت ٹیلنٹ ہے،باصلاحیت نسل ہے۔ میں ان چیزوں کو انٹرنیشنل سطح سامنے لانا چاہتی ہوں اور میں بہت خوش ہوں کہ مجھے وہ موقع ملا ہے۔

پارسا مفتی نے نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی سے قانون میں گریجویشن کیا۔ وہ ایک وکیل اور پولیٹیکل سٹریٹجسٹ ہیں اور نئی دہلی میں سمردھا بھارت فاؤنڈیشن کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ The Tryst کی سربراہ بھی ہیں، جس کے یوٹیوب پر تین لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔ پارسا ان طلباء کے لیے معشل راہ ہے جو زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے اس کارنامے سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں جوش اور جذبہ پیدا ہوگا جو دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں۔ پارسا کہتی ہیں کہ کشمیر میں ٹیلینٹ کی کوئی نہیں ہے یہاں کے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے صلاحیتوں سے بھرے ہیں، تاہم ان صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے پلیٹ فارم مہیا ہونے چاہیے۔ 'کشمیر میں انفرااسکٹچر اور پلیٹ فارم کی کمی کے باعث یہاں کے نوجوان آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ 

awazurdu

شوارزمین اسکالرز کیا ہے

واضح رہے کہ شوارزمین اسکالرز کو امریکی ارب پتی اسٹیفن شوارزمین کی طرف سے مالی معاونت حاصل ہے۔

اس اسکالر شپ کے لیے ایسے ہونہار طالب علموں کو منتخب کیا جاتا ہے جو گلوبل لیڈرز بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جن میں ثقافتی اور سیاسی اصولوں کی سوجھ بوجھ ہو ہر برس امریکہ، چین اور دوسرے ملکوں سے ہزاروں امیدوار اس اسکالر شپ کے لیے درخواست جمع کرتے ہیں، تاہم ان میں سے 3 فیصد امیدوار منتخب ہوتے ہیں۔

یعنی 200 ہونہار طالب علموں کو اس اسکالر شپ کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ طالب علم بیجنگ کی سنگھوا یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کرتے ہیں اور اس دوران یونیورسٹی انہیں کھانا سمیت تمام سہولیات مفت میں فراہم کرتی ہے۔ شوارزمین اسکالرز کے لیے دنیا کی سرکردہ شخصیات، اسکالرز، سائنسدان مالی معاونت فراہم کرتے ہیں جن میں ناسا کے اسکالر، کینیڈا کے وزیر اعظم کی یوتھ کونسل کے رکن، 'میگزین فوربس 30 انڈر 30' کے امیدوار، آکسفورڈ اسٹریٹجی گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر اور متعدد اسکالرز شامل ہیں۔