اردو سائنس : صرف میگزین نہیں،ایک مشن ہے: ڈاکٹر اسلم پرویز

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | 10 Months ago
 اردو سائنس : صرف میگزین نہیں،ایک مشن ہے: ڈاکٹر اسلم پرویز
اردو سائنس : صرف میگزین نہیں،ایک مشن ہے: ڈاکٹر اسلم پرویز

 

شاہ تاج خان ۔ پونے 

اردو میں میگزین اور وہ بھی سائنس کا۔ یعنی جوئے شیر لانا ۔۔۔ اردو پڑھنے والے اردو اخبار نہیں پڑھ رہے ہیں تو نئی نسل سائنس پر اردو میگزین کیوں اور کیسے پڑھے گی ۔ مگر کہتے ہیں کہ ہمت مرداں مدد خدا ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز  نے یہ بیڑا اٹھایا اور کسی مشن کی طرح اس میں کچھ ایسے جٹے کہ تین دہائیوں کا سفر طے کرلیا ۔ایک قابل ستائش حوصلہ  مندی کی کہانی  کے مرکزی کردار ڈاکٹر محمد اسلم پر ویز نے بحیثیت مدیر اس میگزین خون جگر سے  سینچا ہے ۔ بقول  چکبست برج نرائن  کہ ۔۔۔

 میں نے سینچا ہے اسے خون جگر سے اپنے

 ہر برس رنگ پہ آتا ہی گیا یہ گلزار

 پھول تہذیب کے کھلتے گئے مٹتے گئے خار

 پتی پتی سے ہوا رنگ وفا کا اظہار

اب وہ کہتے ہیں کہ  ۔۔۔۔۔ 

 ماہنامہ اردو سائنس" کے اِس سفر میں ہم نے ایک تحریر بھی انگریزی سے ترجمہ کر کے شائع نہیں کی ہے۔ ہر موضوع پر مضامین ہمیں اردو زبان میں ہی موصول ہوئے، اندرونِ ملک سے اور بیرونِ ممالک سے بھی۔"سائنسی مضامین پر مشتمل معیاری رسالہ سائنس جو اپنی اشاعت کے 29سال مکمل کر چکا ہے اور اب تیسویں سال کے اپنے سفر پر گامزن ہے۔مسلسل اور پابندی وقت کے ساتھ نکلنے والا یہ واحد رسالہ ہے جو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مارکیٹ پہنچ جاتا ہے۔ سائنس ماہنامے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ پہلے ہی شمارے سے آئی ایس ایس ان کے ساتھ شائع ہوا ۔

اِس رسالہ نے عوام میں سائنسی شعور پیدا کرنے اور سائنسی علوم کوعام کرنے کے لیے اردو سائنسی ادب تخلیق کیا ۔ساتھ ہی ادیب،مصنف، مؤلف ،مترجم اور سائنس سے متعلق افراد کو یکجا کرنے کا کام بھی عمدگی سے انجام دیا ۔اِس طرح رسالے نے اردو سائنسی یا معلوماتی ادب تخلیق کرنے والوں کے لیے ایک پلیٹ فارم تیار کر دیا۔ماہنامہ اردو سائنس کے بانی اور مدیر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اُس دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس سال ماہنامہ اردو سائنس رسالہ کی اشاعت شروع ہو رہی تھی ٹھیک اُسی سال ٹائمز آف انڈیا نے اپنا بہت پرانا سائنسی رسالہ "سائنس ٹوڈے "بند کیا تھا ۔

لوگوں نے اندیشے ظاہر کئے کہ جب انگریزی کا سائنسی پرچہ بند ہو گیا تو اردو کا کیسے چلے گا ؟تاہم رسالہ کے طویل سفر نے ہر اندیشے کو خارج کر دیا ہے ۔ آواز دی وائس کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے سائنس رسالہ پر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ۔

                           میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

"میں نے آٹھویں جماعت تک اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی تھی۔نویں جماعت میں جب سائنس اسٹریم کا اِنتخاب کیا تو مجھے بے حد دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔کیونکہ سائنس کو انگریزی میں ہی پڑھنا تھا ۔سائنس کی بنیادی کتابیں ،رسالہ تلاش کرنا تب میرا محبوب مشغلہ بن گیا تھا ۔جامع مسجد دہلی کے پاس ایڈورڈ پارک سے گزرتی ٹھنڈی سڑک پر پرانی کتابوں کی مارکیٹ ہر اتوار کو لگتی تھی ۔جہاں میں پابندی سے جاتا تھا کہ شاید کبھی اردو کی کوئی سائنسی کتاب ہاتھ لگ جانے ۔لیکن زیادہ تر ناکامی ہی ہاتھ لگتی تھی ۔

ڈاکٹر اسلم پرویز اپنے بچپن کی اُس جستجو اور تلاش کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو میں سائنسی کتابوں ،رسالوں ، کہانیوں کی یہ کمی میرے دماغ میں ایک چبھن کی طرح بیٹھ گئی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسر روزگار ہوتے ہی اردو میں سائنسی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔پہلا مضمون " قومی آواز" میں 1982 میں شائع ہوا ۔اُس وقت موہن چراغی اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔میں سائنس اور ماحول پر مضامین لکھا کرتا تھا ۔لوگوں نے پسند کیا اور پھر ہر منگل  روزنامہ قومی آواز اخبار  کے لیے ایک خاص آرٹیکل طویل عرصے تک لکھتا رہا۔طلباء میں سائنس کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے میں نے باقاعدہ لیکچر،راہنمائی، اور کاؤنسلنگ کا کام رضاکارانہ طور پر ایک عرصے تک جاری رکھا ۔

اسکول کے طلباء کی جانب سے مستقل فرمائش رہتی کہ سائنسی موضوعات پر باضابطہ تحریریں تیار کر کے شائع کی جائیں ۔ڈاکٹر اسلم پرویز سائنس رسالہ کی اشاعت کے ابتدائی دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ" متعدد لوگوں سے اِس ضمن میں گُفتگو کے دوران سمجھ آگیا تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے اللہ کے بھروسے اور اپنے بل بوتے پر ہی کرنا ہے ۔اِس لیے فنڈ کے لیے پرویڈنٹ فنڈ سے پیسے نکالنے کی کوشش کی ۔نئے اور نوجوان اساتذہ کو فنڈ سے پیسے نکالنے کی اجازت آسانی سے نہیں ملتی تھی ۔اُس وقت سلمان غنی ہاشمی ،کالج کے پرنسپل تھے  اُن کےپاس فارم لےکرپہنچا۔وجہ جان کر انہوں نے کہا کہ آپ بہت اچھا کام کرنے کا بیڑہ اٹھا رہے ہیں اِس کی بہت ضرورت ہے ۔اور فارم پر دستخط کر دیئے.

ماہنامہ اردو سائنس رسالہ کا پہلا شمارہ دنیائے اردو کی معروف شخصیت پروفیسر آل احمد سرور کی سرپرستی اور مشہور سائنس داں و ماہر حشریات ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی اور عبداللہ ولی بخش کی مجلس ادارت میں منظر عام پر آیا ۔ڈاکٹر اسلم پرویز کے اداریہ اور مضامین نے شمارے میں چار چاند لگا دیے ۔رسالہ کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ڈاکٹر اسلم پرویز بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی صاحب نے شروع سے اِس پرچے کے لیے لکھا ہے اور آج تک باوجود اپنی پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے اِس سے وابستہ ہیں اور لگاتار سائنسی مضامین لکھ رہے ہیں ۔

سدا قائم رہے یہ عزم پیہم

 اردو میں سائنسی موضوعات پر مضامین لکھنے والوں میں ڈاکٹر اسلم پرویز کا نام نمایاں ہے ۔سائنس کے موضوعات پر لکھی گئی اُن کی کتابیں "سائنس کی باتیں", "سائنس نامہ" ,"ماحول ایک تعارف"اور "سائنس پارے" لوگوں کے درمیان کافی مقبول ہیں ۔ڈاکٹر اسلم پرویز کی کتاب "سائنس پارے"پر نوبل انعام یافتہ سائنس داں پروفیسر عبدالسلام نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ"اردو میں سائنسی لٹریچر کی فراہمی اِس بر صغیر کا ایک اہم مسلہ ہے ۔مجھے ہے حد خوشی ہے کہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اردو میں عام فہم سائنسی مضامین نہ صرف یہ کہ پابندی سے لکھ رہے ہیں ،بلکہ اِن کی تحریروں نے سائنس کے تقریباً سبھی جدید موضوعات کا احاطہ کیا ہے ۔بلا تامل یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں سائنسی صحافت کو از سر نو زندہ کرنے میں اِس نوجوان نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔"

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

ڈاکٹر اسلم پرویز آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران سائنس رسالہ کی اشاعت کے تعلق سے کی گئی اُن کی تگ و دو کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ادارے ادارے جا کر ایسے افراد سے ملاقات کی جو اردو داں تھے اور سائنسدان بھی ۔بہت کچھ تجربے ہوئے۔ تاہم کچھ افراد نے بے حد حوصلہ افزائی کی جن میں آنند سروپ صاحب ،جو اُس وقت نیشنل بک ٹرسٹ کے چیئرمین تھے ،پروفیسر مونس رضا صاحب ،جو دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ،نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبدالسلام صاحب ،سید حامد صاحب ،حکیم عبدالحمید صاحب ،پروفیسر آل احمد سرور صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

متعدد افراد سے گفتگو کے بعد یہ واضح ہو گیا تھا کہ رسالہ جاری کرنے کی خواہش سبھی رکھتے ہیں لیکن اپنی مصروفیات کے سبب وقت نہیں دے سکتے ۔"باوجود اس کے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے ہمت نہیں ہاری اور تنہا ہی کوشش جاری رکھی ۔جو فروری 1994 میں"ایڈز " کے ٹائٹل کے ساتھ ماہنامہ اردو سائنس کی شکل میں وجود میں آئی ۔رسالہ کا مطالعہ کریں تو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو سائنس رسالہ صحیح معنوں میں ایک عام فہم سائنسی پرچہ ہے ۔

ڈاکٹر صاحب نے پرچہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ"ہماری کوشش تھی کہ سائنسی پرچہ میں ہر عمر اور ہر ذوق کے قاری کے لیے مواد ہو اور کچھ صفحات طلباء کے لیے مخصوص کئے جائیں ۔اسی کے مد نظر رسالے کو گوشوں میں تقسیم کیا گیا ۔رسالے میں عام دلچسپی اور معلومات کے مضامین شامل کئے گئے ۔

"بانو نامہ " میں خواتین کے لیے ،"لائٹ ہاؤس" میں طلباء کے لیے ،"میراث" میں ہماری میراث کو جگہ دی گئی ۔وقت اور ضرورت کے مطابق گوشے ایک دوسرے میں ضم بھی ہوئے اور کچھ نئے وجود میں بھی آئے ۔" ڈاکٹر صاحب زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رسالہ کسی بھی طرح بچوں کا رسالہ نہیں ہے بلکہ یہ رسالہ ہر عمر کے قاری کو سائنسی معلومات فراہم کرتا ہے ۔یہ رسالہ ہر اُس شخص کے لیے ہے جو کچھ نیا سیکھنا اور پڑھنا چاہتا ہے ۔

 اردو میں سائنسی ادب

دہلی جو اب اردو زبان اور اُس کی تہذیب سے یکسر خالی نظر آتی ہے پہلے ایسی نہ تھی۔میں جب لیکچر دینے کے لیے اسکولوں میں جاتا تھا تب کی ایک ڈائری میرے پاس محفوظ ہے۔اُس وقت دہلی میں 24 اردو میڈیم اسکول ہوا کرتے تھے۔جہاں اردو میں تعلیم کا باقاعدہ انتظام بھی تھا۔ڈاکٹر اسلم پرویز اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب اسکول کے باہر محض اردو میڈیم اسکول کے نام کے بورڈ باقی ہیں اور اسکولوں سے اردو غائب ہو گئی ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ نصابی کتب انگریزی میں تیار کی جاتی ہیں۔

پھر ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔اردو میں ترجمہ کرنے والوں کا تعلق اردو زبان سے ہوتا ہے۔نفسیات کی کتاب کا ترجمہ جب کوئی اردو پی ایچ ڈی والا بھی کرے گا تب بھی اُس میں وہ بات پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ نفسیات سے واقف نہیں۔ہماری کتابوں کا سب سے بڑا مسلہ یہی ہے کہ اردو جاننے والے مضمون نہیں جانتے اور مضمون جاننے والے اردو سے ناواقف ہیں۔

اب کتاب چاہے حیاتیات کی ہو،علم کیمیا ،طبیعیات یا پھر ریاضی کی ہو ۔اُس کا ترجمہ اردو کے گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہی کرتے ہیں ۔اُن کی معلومات محدود ہوتی ہیں تو اُلٹے سیدھے تراجم ہوتے ہیں ۔میں ایسے تراجم کو " بانجھ تراجم" کہتا ہوں ۔انہیں پڑھ کر بچے بدظن ہو جاتے ہیں اور اردو سے دوری بنا لیتے ہیں ۔

زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو

 تقسیمِ ہند سے قبل انجمن ترقی اردو ہند سے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے" سائنس" نام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکالا تھا۔جب انجمن کا دفتر حیدرآباد منتقل ہوا تو یہ رسالہ کچھ وقت کے لیے ماہنامہ کر دیا گیا تھا لیکن نامساعد حالات کے سبب تقریباً بیس سال تک جاری رہنے کے بعد رسالہ بند کر دیا گیا۔ انجمن کے سیکرٹری خلیق انجم کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز کہتے ہیں کہ "وہ ایک مرتبہ پھرمولوی عبدالحق کے رسالے "سائنس"کی اشاعت شروع کرنا چاہتے تھے لیکن میں مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے بچوں کی ضرورت کا شدت سے احساس تھا۔اِس لیے میں نے اپنی تمام توانائی یکجا کی اور رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ ماہنامہ اردو سائنس کا آج بھی کوئی دفتر نہیں ہے ۔پہلے دن ،پہلے شمارے سے یہ رسالہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے گھر پر ہی تیاری کے تمام مراحل طے کرتا ہے ۔پروف ریڈنگ کی ذمّہ داری ابتدا سے ہی ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے سنبھالی ہوئی ہے ۔ حالات کیسے بھی ہوں ماہنامہ اردو سائنس اپنے  قارئین کے ہاتھوں میں مقررہ وقت پر پہنچ جاتا ہے ۔

 ایک جنون ۔۔ایک جذبہ

دہلی کے اجمیری گیٹ پر 1699 میں قائم ہونے والا مدرسہ غازی الدین وہ ادارہ ہے جہاں 1832 میں دہلی ورنا کلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔جہاں سے مغربی علوم خصوصاً سائنس اور ریاضی کو اردو زبان میں منتقل کیا گیا۔یہی وہ ادارہ ہے جو اینگلو عربک کالج اور پھر دہلی کالج کے نام سے مشہور ہوا ۔

اسی اینگلو عربک اسکول کے طالب علم ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے سائنسی معلومات کو اردو میں عوام تک پہنچانے کے لیے پہلے ایک "انجمن فروغِ سائنس"قائم کی اور پھر"ماہنامہ اردو سائنس"جاری کرکے اِس اِدارے کی علمی روایت کو ازسر نو زندہ کر دیا ۔ جس کی داغ بیل مولوی ذکا اللہ اور ماسٹر رام چندر نے ڈالی تھی۔جنہوں نے حساب اور فزکس کی اہم کتابیں انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کی تھیں۔

 بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی  

"میں پرانی دہلی میں رہتا تھا ۔اپنے ارد گرد مجھے لوگوں میں سائنسی فکر کی کمی کا شدّت سے احساس ہوتا تھا ۔سبھی کے ذہن تقلیدی تھے ۔گھر کے کسی بڑے یا محلّے کے کسی بزرگ نے جو کہہ دیا ،اُس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا تھا ۔میں سوچتا تھا کہ ہر بڑا سو فیصد درست کیسے ہو سکتا ہے ؟

کسی کے بڑے ہونے میں یہ راز مضمر نہیں ہے کہ وہ صاحب بصارت ہو ،سوچ سمجھ کر بات کر رہا ہو ۔آبا پرستی مجھے کبھی پسند نہیں آئی ۔تقلیدیت کو بھلے ہی لوگ فرماں برداری سے تعبیر کرتے ہیں لیکن میں کسی بھی بات کو بے چوں چراں مان لینے کا قائل نہیں ہوں ۔یہ چیز بچے کی شخصیت کو مار دیتی ہے ۔سائنس کی بنیادی معلومات لوگوں کو بیدار کرنے میں مدد کرتی ہیں ۔میں چاہتا تھا کہ لوگ سوچیں ،سوال کریں ۔تقلیدی ذہنوں کو کھولنے کی کوشش کی ۔"ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے آواز دی وائس کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ میں اپنی محنت سے مطمئن ہوں ۔

سائنس کے موضوعاتِ پر پرانے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔وہ بتاتے ہیں کہ پہلے ملک کی مختلف اردو اکیڈمی سائنس رسالے کو اسکولوں تک پہنچانے کی ذمّہ داری نبھاتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً بند ہو گیا ہے ۔پھر بھی وہ اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنس رسالے کو متعدد افراد اور اداروں نے فائلوں کی شکل میں محفوظ رکھا ہے اور اب تو سائنس رسالہ  ویب سائٹ پر بھی موجود ہے ۔جہاں رسالے کے تمام شمارے دستیاب ہیں ۔

پرنٹ ایڈیشن سے زیادہ ویب ایڈیشن نے لوگوں تک رسائی حاصل کی ہے ۔ڈاکٹر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ " اشتہار دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے اور گشت لگا کر تشہیر کے لیے وقت نہیں تھا۔اِس لیے بہت دور تک شاید نہیں پہنچ سکا۔" کیا یہ اساتذہ کی ذمّہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنے اسکولوں میں رسالہ کو جاری کراتے ؟ 250 روپے سالانہ خرچ کرنا شاید ناممکن نہیں لیکن ترجیحات بدل گئی ہیں ۔

ایسے میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ " جب ایک شخص اپنے جنون میں لگاتار ایک رسالہ نکال رہا تھا تو لوگوں کی ذمّہ داری نہیں بنتی تھی کہ وہ اسے پھیلائیں ،فروغ دیں."ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ماہنامہ اردو سائنس بر صغیر کا واحد سائنسی مجلہ ہے جو تواتر سے نکل رہا ہے ۔سائنسی مجلہ کا سفر جاری ہے ۔۔