مسجدوں اور مدرسوں میں عصری تعلیم کے سو مرکزقائم کرنے کا پرعزم متین مجاور

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 27-02-2024
مسجدوں اور مدرسوں میں عصری تعلیم کے سو مرکزقائم کرنے کا پرعزم متین مجاور
مسجدوں اور مدرسوں میں عصری تعلیم کے سو مرکزقائم کرنے کا پرعزم متین مجاور

 

شاہ تاج خان(پونے)

              مسجدوں اور مدرسوں میں اِ س سال عصری تعلیم کے سو مرکزقائم کرنا چاہتا ہوں۔ شکشن حق منچ کے ڈائیریکٹرمتین مجاور اپنے اِس ہدف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ابھی تک چار سے پانچ مساجد اور کچھ مدرسوں میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔قریشی مسجد،روشن مسجد، نورانی مسجد،شواجی نگر کی مسجد اور ہڈپسر کے دینی تعلیم کے مدرسے میں اب باقاعدہ عصری تعلیم کا انتظام کیا جا رہا ہے۔جہاں جھگی بستیوں میں رہنے والے غریب بچوں کی ایک بڑی تعداد دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے۔اِن غریب گھروں سے آنے والے بچوں سے کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی ہے۔

پونے میں رضوانی مسجد سے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والے متین مجاور نیٹ،جے ای ای،یو پی ایس سی،وکالت اور دیگر امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کی تعلیم کا انتظام 2017 سے کر رہے ہیں۔ بہت کم فیس اور معیاری تعلیم کے ساتھ بہتر رہنمائی نے متعدد غریب بچوں کو اُن کے خواب پورا کرنے میں مدد کی ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے والوں میں لڑکیوں کی کثیر تعداد شکشن حق منچ کی اس کوشش کا نتیجہ ہے جس میں وہ گھر گھر جاکر لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے والدین سے میٹنگ کرتے ہیں۔متین مجاور کہتے ہیں کہ اکثر والدین لڑکیوں کو بارہویں کے بعد پڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔لڑکیوں کے والدین کو سمجھانا بہت مشکل کام ہوتاہے۔

جہالت ترقی کی دشمن ہے

                مایوسی، پسماندگی اور احساس کمتری سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم۔متین مجاورآگے کہتے ہیں کہ ترقی کے لیے دینی اور عصری دونوں ہی علوم کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جھگی بستیوں میں رہنے والے غریب مسلم بچوں کی تعلیم کا مناسب انتظام کر سکیں۔وہ بتاتے ہیں کہ غریب والدین بھی اب اپنے بچوں کوسرکاری اسکولوں میں بھیج رہے ہیں ۔مگر وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔ایک تو اُن کے پاس وقت نہیں ہے دوسرے وہ غیر تعلیم یافتہ ہیں۔غریب بستیوں میں رہنے والے والدین چاہ کر بھی اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش میں خود کو مجبور پاتے ہیں۔اِن کی مدد کے لیے شکشن حق منچ کے ادارے میں زیرِ تعلیم مسابقتی امتحانات کی تیاری میں مصروف طلبا نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

awazurdu

 

یہ طلبا ہی مساجد اور مدرسوں میں بچوں کو پڑھانے کی ذمہّ داری سنبھالتے ہیں۔متین صاحب بتاتے ہیں کہ میڈیکل ،انجینئرنگ ، فارمیسی، قانون کی پڑھائی کر رہے ہمارے ذہین طلبا اپنے قیمتی وقت میں سے غریب بچوں کو تعلیم دینے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔25 طلبا کبھی کبھی آتے ہیں اور 10 طلباپابندی سے اپنی خدمات دیتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ طلبا بھی غریب گھروں سے آتے ہیں ۔اِس لیے شکشن حق منچ ان طلبا کو اُن کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسکالرشپ کی شکل میں امداد کرتا ہے ۔متین صاحب کہتے ہیں کہ یہ نوجوان طلبا خود ہی ان بچوں کے لیے جیتی جاگتی ترغیب بن جاتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے جب انہیں ڈاکٹر ،انجینئر اور وکالت پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بھی جوش اور حوصلے سے بھر جاتے ہیں ۔وہ بھی خواب دیکھتے ہیں کہ ہم بھی اُن کی طرح بن سکتے ہیں۔

علم نے وہ دیئے جلائے ہیں

                ہمیں ڈاکٹر ،انجینئر،وکیل،سول سروینٹ اور قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔متین صاحب کا کہنا ہے کہ صرف کچھ جماعتیں پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔وہ مانتے ہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اِس دور میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر باوقار زندگی گزارنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔دینی تعلیم ضروری ہے لیکن جب اُس کے ساتھ عصری تعلیم بھی ہوگی تو ہمارے نوجوان بہتر طریقے سے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔اسی لیے ہم لگاتار کوشش کر رہے ہیں کہ عصری تعلیم کی اہمیت کو قوم سمجھے۔متین صاحب کا کہنا ہے کہ مساجد میں عصری تعلیم کے مرکز قائم کرنے کے لیے زیادہ تر مسجد انتظامیہ تیار نہیں ہوتا ہے۔

مگر ہم بار بار سمجھاتے ہیں ،میٹنگ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کئی مساجد نے عصری تعلیم کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ہمارا ماننا ہے کہ غریب مسلمانوں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس کرانے کے لیے مساجد سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا ۔جھگی بستیوں میں رہنے والے بچے شام ہوتے ہی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔کثیر تعداد میں بچے ہر روز بلا ناغہ مسجد پہنچتے ہیں۔ہمارے نوجوان طلبا کی ٹیم وہاں بچوں کی اسکول کے ہوم ورک کو مکمل کرنے میں مدد کرتی ہے،اُن کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب دیتی ہے،ان کی رہنمائی کرتی ہے اور اُن میں حوصلہ بھرتی ہے کہ اگر وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے پورے گھر کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔متین مھاور بتاتے ہیں کہ ہم وقت وقت پر موٹیویشنل لکچرز کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔بچوں کی آنکھوں میں جو چمک اور جوش ہمیں نظر آتا ہے وہ ہمارے حوصلے اور ہمت بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔کیونکہ ہمیں بھی تو ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔

awazurdu

آنکھوں سے امید کا دیا بجھنے نہ دیا جائے

                موجودہ دور میں اچھی اور معیاری تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ایک بڑی تعداد جھگی بستیوں میں رہتی ہے۔وہ کھانے کا انتظام کرتے ہیں تو تن ڈھکنے کے لیے کپڑا کم پڑ جاتا ہے،سر پر چھت نہیں ۔ایسے میں تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے کی اُن کی حیثیت نہیں ہوتی۔بچے کچھ دن سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں لیکن والدین کی توجہ نہ ہونے کے سبب وہ کب اسکول جانا بند کر دیتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہو پاتا۔متین صاحب کہتے ہیں کہ اگر ہم بچوں میں ہی تعلیم کا شوق پیدا کر دیں تو بچے خود ذمّہ داری کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ہماری ٹیم بچوں میں تعلیم کی اہمیت کا احساس جگاتی ہے۔متین مجاور مانتے ہیں کہ ابھی بہت محنت کرنا ہے ۔یہ تو ابھی شروعات ہے۔جب تک ہم اپنی قوم کے اِس بڑے حصّے کو اوپر نہیں لائیں گے انہیں قومی دھارا میں شامل نہیں کریں گے تب تک ترقی کرنا ناممکن ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

ملے گی منزلِ مقصود

                آج کا طالبِ علم کل کا معمار ہے۔بشرط یہ کہ اُس کی آنکھوں سے امید کا دیا بجھنے نہ دیا جائے۔وہ تعلیم ہی ہے جو بچے کی بہتر نشوونما اور روشن مستقبل کے لیے بنیاد کا کام کرتی ہے۔متین مجاور آگے کہتے ہیں کہ مسلم معاشرہ عصری اور تکنیکی تعلیم کی طرف مثبت قدم بڑھا رہا ہے لیکن ہماری رفتار سست ہے۔آخر جھگی بستیوں میں رہنے والی ایک بڑی آبادی کو چھوڑ کر ہم کس طرح ترقی کی بات کر سکتے ہیں؟جھگی بستیوں کو نظر انداز کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔متین مجاور کہتے ہیں کہ عصری تعلیم سے روزگار ملے گا،اور آمدنی کے ذرائع ملنے کے سبب غربت، افلاس اور تنگ دستی جیسے مسلم معاشرے کے مسائل کاحل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے ہمیں لوگوں تک جانا ہوگا۔

کئی سالوں کی کوشش کے بعد بھی خاطر خواہ کامیابی تو نہیں مل سکی لیکن تجربات نے یہ سمجھا دیا کہ الگ الگ لوگوں سے بات کرنے کے بجائے مساجد میں ایک ہی وقت میں کثیر تعداد میں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔پڑھے لکھے لوگوں نے ہماری تجاویز پر غور کیا جس کے نتیجے میں کئی مساجد میں ہم کام کرنا شروع کر چکے ہیں۔مساجد میں عصری تعلیم کے مراکز کے قیام کے تعلق سے متین مجاور نے آواز دی وائس کو بتایا کہ پڑھے لکھے لوگوں نے ہماری بات کی تائید کی اور مساجد میں عصری تعلیم دینے پر رضامندی ظاہر کی مگر کئی مساجد کے انتظامیہ نے ہمیں سخت الفاظ میں منع کر دیا اور کہا کہ مساجد صرف دینی تعلیم کا مرکز ہیں۔مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری ہے۔اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مساجد اور مدرسوں میں عصری تعلیم کے سو مراکزقائم کرنے کی مہم کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا کیونکہ محدود ذرائع اور فنڈ کی کمی بھی شکشن حق منچ کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔صرف رمضان میں ملنے والی رقم سے یہ منچ اپنے سال بھر چلنے والے کاموں کا انتظام کرتا ہے۔ شکشن حق منچ کا یہ خواب کہ دینی تعلیم کے ہر مرکز پر عصری تعلیم کا انتظام، کب حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن ابھی اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کوئی کام ،کوئی بات اگر سوچی گئی ہے تو اسے عمل میں بھی لایا جا سکتا ہے۔امید کر سکتے ہیں کہ اِس مہم میں متین مجاور اور اُن کی نوجوان ٹیم کو کثیر تعداد میں لوگوں کا تعاون حاصل ہو گا۔