زمزم کا کنواں: کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-04-2021
زمزم کا کنواں
زمزم کا کنواں

 

 

خانہ کعبہ سے صرف 20 میٹر دور زمزم کا کنواں کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ قرار دیا جاتا ہے جس کی عمر پانچ ہزار سال سے زاید ہوچکی ہے۔ جیسا کہ تاریخی روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ زم زم کا چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیا رگڑنے کی جگہ سے پھوٹا۔

آج تک کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ کوئی چشمہ ساٹھ ستر سال سے زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہتا مگر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو آج سے پانچ ہزار سال قبل اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیوہ ھاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیں۔ پانی کا یہ کنواں تیس میٹر گہرا ہے جس میں پانی کی سطح زیادہ سے زیادہ 18.5 لیٹر اور کم سے کم 11 لیٹر بتائی جاتی ہے۔ جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے یہاں پر اللہ کے پہلے گھرکی بنیاد رکھی تو یہ چشمہ اس وقت موجود تھا۔

حرمین الشریفین کے امور کے ماہر محی الدین الھاشمی کہتے ہیں کہ زمزم کا دشمہ اس وقت پھوٹا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خدا وندی کے تحت اپنی زوجہ ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو مکہ مکرمہ کی اس چٹیل میدان وادی میں چھوڑنے کا حکم دیا۔

حضرت ہاجرہ کے پاس جب کھانا اور پانی ختم ہوگیا تو انہوں نے صفا اور مرہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں چکر لگانا شروع کردیے۔ اس دوران حضرت جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نےاللہ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کےنیچے سے پانی کا ایک چشمہ جاری کیا۔ حضرت ہاجرہ نے بچے کو اس چشمے سے پانی پلایا اور خود بھی پی کر پیاس بجھائی۔

زمزم کے پانی کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’اللہ ام اسماعیل پر رحمت نازل کرے اگر وہ انہیں کچھ دیر اور وہاں چھوڑ دیتیں تو ایک بڑا چشمہ نکلتا‘ یا آپ نے فرمایا کہ ’ایک معین دریا بہہ پڑتا‘۔

تجزیہ نگار محی الدین ہاشمی کے بہ قول جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مکہ میں آمد ہوئی تویہ برکتوں والی سرزمین بن گیا۔ اطراف و اکناف میں قبائل کی بڑی تعداد یہاں منتقل ہونا شروع ہوگئی۔ جب حضرت ابراہیم نے یہاں پر اللہ کا پہلا گھر تعمیر کیا اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔ مکہ مکرمہ جزیرۃ العرب اور شام کے درمیان ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا۔

مرور وقت کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے بئر زم زم کا پانی خشک ہوگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں کنوئیں کو دوبارہ کھودنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کنواں دوبارہ کھودا اور پانی پھر نکل آیا۔ آج تک یہ چشمہ جاری ہے اور ہرسال حجاج کرام اور ہر روز عازمین عمرہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ حجاج ومعتمرین کے لیے السقایہ اور الرفادہ کی ذمہ دار آل عبدالمطلب ہی کے پاس ہے۔ پانی کہاں سے آتا ہے؟

محی الدین الھاشمی نے کہا کہ بئر زم زم میں پانی تین مقامات سے آتا ہے۔ یہ پتا چلا ہے کہ اس کنوئیں میں حجر اسود، جبل ابو قیس اور المکبریہ کی سمتوں سے جمع ہوتا ہے۔ زمز زم کنوئیں کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے ارد گرد ایک عمارت بنائی گئی ہے۔ مطاف کے وسط میں یہ کئی منزلہ عمارت ہے۔ کنوئیں کے اطراف میں ایک جالی بھی لگائی گئی ہے۔ اس کنوئیں کا ایک پرانا ڈول جس پر 1299ھ کی تاریخ تحریر ہے حرمین شریفین عجائب گھر میں موجود ہے۔

سنہ 1377ھ میں مطاف کی توسیع کے لیے زمزم کی عمارت مسمارکردی گئی تھی اور اس کی جگہ صحن مطاف میں ایک راستہ بنایا گیا تھا۔ حالیہ توسیع میں یہ راستہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔ بئر زم زم کے کنوئیں کو سنہ 1400ھ میں شاہ خالد مرحوم کے حکم پر صاف کیا گیا تھا۔ سنہ 2010ء میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے زم زم کے پانی کو صاف اور محفوظ کرنے کے لیے 700 ملین ڈالر کےمنصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کے تحت مسجد حرام سے ساڑھے چار کلو میٹر دور زمزم کارخانہ قائم کیا گیا۔

  اس کارخانے میں زم زم کے پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ 13 ہزار 405 مربع میٹر پر بنائی گئی اس عمارت میں یومیہ دو لاکھ گیلن زم زم زخیرہ کیا جاتا ہے جسے حرم مکی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ زم زم کے پانی کو ٹینکروں کی مدد سے مدینہ منورہ بھیجا جاتا ہے۔ مسجد حرام میں زم زم کے پانی کو ٹھنڈہ رکھنے کا معقول انتظام ہے۔ پانی کو محفوظ بنانے کے لیے سات ہزار پوائٹنس بنائے گئے ہیں۔

آب زم زم کا کنواں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباََ 21میٹر کے فاصلے پر تہہ خانے میں واقع ہے ، اس کنویں کی گہرائی تقریباََ 98فٹ (30میٹر) اور اس کے دھانے کا قطر تقریباََ3 فٹ 7 انچ تا 8 فٹ 9 انچ ہے ۔ 1953 ء تک یہ پانی ڈول کے ذریعے نکالا جاتا تھا ، مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر کے مختلف مقامات پر آبِ زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ زم زم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج اکرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔آبِ زم زم دنیا کا وہ واحد پانی ہے ، جس کو پینے کے بعدبیماریوں سے شفاءملتی ہے اور جس کے پیتے وقت مانگی جانے والی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔

آزمزم کا پانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو آج تک جاری ہے۔

چاہ زمزم مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں واقع ہے۔ یہ کنواں وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنووں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

جناب عبد المطلب کے زمانے میں چاہِ زم زم کی کھدائی کے بعد سے لے کر اب تک اس کنویں کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ یعنی یہ آج تک 18 فٹ لمبا، 14 فٹ چوڑا اور تقریباً 5فٹ گہرا ہے۔ مکہ کا شہر جس وادی میں ہے وہ چاروں طرف سے گرینائٹ چٹانوں والے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ حرم شریف ( مسجد الحرام) وادی میں سب سے نچلے مقام پر ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام سمیت پورا شہر مکہ، ریت اور گاد کی تہ پر واقع ہے۔ جس کی گہرائی 50 سے 100 فٹ تک ہے اور جس کے نیچے آتشی چٹانوں کی ایک تہ پھیلی ہوئی ہے۔ چاہِ زم زم بھی ریت / گاد کی اسی تہ پر واقع ہے اور اس میں پانی کی سطح، اطراف کی زمین سے 40 تا 50 فٹ کی گہرائی پر ہے۔