قندھار میں دریا کنارے نوجوان طالبان کا گیتوں کی دھن پر رقص

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-09-2021
رقص کرتے طالبان
رقص کرتے طالبان

 

 

کابل: افغانستان میں طالبان تو آگئے مگر اب یہ طالبان میوزک زدہ بھی ہیں اور سیلفی زدہ بھی۔ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ناچ گانے کے شوقین ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں طالبان نے اپنے جنگجووں سے سیلفی لینے کی عادت کو بدلنے کا حکم دیا ہے۔ 

پچھلے ہفتے ایک دلچسپ نظارہ دیکھنے کو ملا۔ جیسے ہی ڈوبتے سورج کی کرنیں دریائے ارغنداب پر پڑیں تو قریب کھڑے طالبان جنگجوؤں نے دریا کا رخ کیا اور اپنے روایتی گیتوں کی دھن پر رقص کرنا شروع کر دیا۔ یہ منظر شاید 20 سال پہلے قابل تصور بھی نہ ہو جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے۔

رقص کرنے والے ایک نوجوان طالب حافظ مدثر نے بتایا کہ ’یہ گیت ہمارا ہے، یہ ہمارے ملک کا ہے۔‘ اس گیت کے الفاظ کچھ یوں تھے ’میری طرف سے کابل کو سلام کہنا، مجھے یاد آتا ہے۔

صرف ایک ماہ پہلے ہی صوبہ قندھار سے گزرنے والے دریائے ارغنداب کے کنارے پر طالبان اور حکومتی فوج کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔اور اب وہاں طالبان قومی گیت کی دھن پر رقص کر رہے تھے۔

 طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے دور اقتدار میں گائیکی، رقص سمیت ہر قسم کی تفریح پر پابندی عائد تھی۔ لیکن یہ نوجوان طالبان موسیقی سنتے ہیں چاہے مذہبی ہی کیوں نہ ہو-

دریائے ارغنداب کے کنارے بیٹھے یہ نوجوان طالبان کچھ سکون کے لمحات گزارنے یہاں آئے تھے۔ یہ سب اس بات پر بھی پرجوش تھے کہ 20 سال بعد انہوں نے امریکہ کو شکست دی ہے۔

 لیکن افغانستان میں اکثر لوگوں کو طالبان پر اعتماد نہیں ہے۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان 1990 کی دہائی والے سخت اقدامات ایک مرتبہ لاگو کریں گے۔

 جیسے جیسے سورج ڈھلتا گیا تو 20 کے قریب طالبان کا ایک گروپ دریا کے کنارے بیٹھے اپنے ساتھیوں کی محفل میں شریک ہوا۔ مغرب کا وقت ہوا تو سب نے مل کر نماز ادا کی اور اس کے بعد کھانا کھایا۔

awaz