پاکستان میں مندر پر حملہ: پہلے زخم ۔ پھر مرہم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-08-2021
پہلے توڑ پھوڑ او مرمت
پہلے توڑ پھوڑ او مرمت

 

 

نئی دہلی /اسلام آباد

پاکستان میں ایک اور مندر کو تہس نہس کردیا گیا،وہی ہوا جو ہر بار ہوتا رہا ہے،ایک ہجوم آیا ،مندر میں گھسا،مورتیوں کو توڑا ،تباہی مچائی،نعرے لگائے اور بے خوف انداز میں چلا گیا۔

 اس کے بعد بھی وہی ہوا ،جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے طوفان اٹھا،دنیا بھر میں تھو تھو ہوئی۔اور پھر وزیر اعظم عمران خان حرکت میں آگئے۔ زبانی جمع خرچ کی۔

بد معاشوں کی گرفتاری کا حکم دیا گیا۔مندر کی مرمت شروع کرادی۔ اس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر تقسیم ہو گئیں ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جانب عمران خان خود کو دودھ کا دھلا ثابت کررہے ہیں تو دوسری جانب رحیم یار خان میں پولیس نے اس حملے کے ثبوت مٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔ جن مقامی لوگوں نے اس حملے کے ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کئے تھے انہیں ڈیلٹ کرایا جارہا ہے۔

Strongly condemn attack on Ganesh Mandir in Bhung, RYK yesterday. I have already asked IG Punjab to ensure arrest of all culprits & take action against any police negligence. The govt will also restore the Mandir.

ثبوت اور ویڈیو غائب کئے جارہے ہیں

 

 اس واقعہ کے بعد رحیم یار خان میں مندر پر حملے کے بعد بھونگ قصبے میں تمام کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔

پورے علاقے کو پولیس کی چھاونی بنا دیا گیا ہے۔ مگر یہ چھاونی انصاف دلانے یا ملزمین کو گرفتار کرنے سے زیادہ اس واقعہ کے ثبوت مٹانے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔

 ایک مقامی صحافینے ایک غیر ملکی اخبار کو بتایا پولیس اور رینجرز نے لوگوں کو مندر اور اس کے ارد گرد علاقوں کی تصاویر اور فوٹیج بنانے سے منع کر دیا ہے ’بلکہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر تصاویر اور فوٹیجز شئیر کی ہیں ان کی شناخت کر کے بھی وہ مواد ہٹایا جا رہا ہے۔

 اس کے لیے پولیس کا ماننا ہے کہ اس صورت حال سے سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پر ذمہ داری کا ثبوت دے کر صورت حال کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔

  ان کے مطابق ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اس لئے ابھی زیادہ تفصیلات میڈیا کے ساتھ شئیر نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن پولیس لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتی ہے کہ آئین پاکستان کے تحت اولین طور پر تمام شہریوں کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

اب پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے رحیم یار خان میں مندر پر ہونے والے حملے کا نوٹس لے لیا ہے۔

معاملہ سپریم کورٹ میں گیا 

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے عہدیدار رمیش کمار نے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سے اس واقعہ کا نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس گلزار احمد اس معاملے کی شنوائی چھ اگست کو کریں گے اور اس سلسلے میں پنجاب کے چیف سیکریٹری اور صوبائی پولیس کے سربراہ کو حاضری کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

 مگر سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایسے حملے رک نہیں رہے ہیں؟

 کیا وجہ ہے کہ عمران خان اس بات کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں کہ ایسے واقعات مستقبل میں نہیں ہونگے۔ کیا اقلیتوں کے زخم پر مرہم رکھنا مسئلہ کا حل ہے ؟ یہ زخم کیوں نہیں روکے جاسکتے؟

تازہ واقعہ کے بعد ایک بار دنیا میں تھو تھو شروع ہوئی،دنیا نے پاکستان کے اسلامی کردار کے بارے میں سوال اٹھانے شروع کئے۔تو عمران خان نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔

 وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رحیم یار خان کے مندر میں ہونے والے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت مندر کی دوبارہ تعمیر کرے گی۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں آئی جی پنجاب کو پہلے ہی واضح ہدایات دے چکے ہیں کہ تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور پولیس اہلکاروں کی مبینہ نااہلی کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں۔

 پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان کے موضع بھونگ شریف میں مدرسہ دارالعلوم عربیہ تعلیم القرآن کے طلبہ اور اساتذہ نے شہریوں کے ساتھ مل کر ایک مقامی مندر میں توڑ پھوڑ کی تھی اور انتظامیہ کو بھی یرغمال بنا لیا تھا۔

بعد ازاں مشتعل مظاہرین نے صادق آباد روڑ بلاک کر دی اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی، پولیس کے ہاتھوں امن امان قائم نہ ہوا تو ضلعی انتظامیہ نے رینجرز طلب کی جس کے کئی گھنٹے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے صورت حال پر قابو پا لیا۔

ہنگامہ آرائی مدرسے کےنائب امام حافظ محمد ابراہیم کی درخواست پر نو سالہ ہندو بچے کے خلاف درج عدالتی مقدمے میں ضمانت منظور ہونے پر شروع ہوئی۔ بچے پر مدرسے میں پیشاب کرنے کا الزام ہے۔

 وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے واقع کے بعد اس بارے میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا تھا کہ یہ واقعہ افسوس ناک ہے۔

 واقعہ پیش کیسے آیا؟

 اس ہنگامہ کے بعد اس کا سبب بیان کیا گیا ،یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ انتقامی کارروائی تھی۔

ایک مدرسہ کی بے حرمتی کا ردعمل تھا۔پولیس کے مطابق ’24جولائی کو مدرسے کے نائب امام حافظ ابراہیم نے دیگر افراد کے ہمراہ تھانے میں ایک نو سالہ بچے کو پیش کیا اورمقدمہ درج کرایا کہ یہ بچہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس نے مدرسے کی لائیبریری میں کھڑکی سے گھس کر پیشاب کیا اور ناپاک ہاتھ الماری کو لگائے، اس نے توہین مذہب کی ہے۔‘

 عدالت نے بچے کو دی ضمانت

 پولیس نے مقدمہ درج کر کے بچے کو گرفتار کرلیا اور چار اگست بروز بدھ مقامی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے بچے کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دیا تو عدالت کے باہر موجود مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ مشتعل ہوگئے جس کے بعد احتجاج شروع کردیا گیا۔

 مظاہرین نے بھونگ شریف میں مندر کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ شروع کردی اور بازار بھی بند کروا دیا۔

مظاہرین نے صادق آباد روڑ بلاک کیے رکھی، پولیس نے انہیں پر امن منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن حالات زیادہ کشیدہ ہونے پر رینجرز طلب کرنا پڑی لہذا کئی گھنٹے بعد روڑ خالی کرالی گئی