طالبان لیڈران کا سفری پابندیوں سے استثنیٰ: سلامتی کونسل فیصلہ کرنے میں ناکام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 20-08-2022
طالبان لیڈران کا سفری پابندیوں سے استثنیٰ: سلامتی کونسل  فیصلہ کرنے میں ناکام
طالبان لیڈران کا سفری پابندیوں سے استثنیٰ: سلامتی کونسل فیصلہ کرنے میں ناکام

 

 

نیویارک:اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس بات پر تقسیم ہے اور اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے کہ آیا افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان کے 13 عہدیداروں کا سفری پابندی سے استثنیٰ جاری رکھا جائے یا نہیں۔ سفری پابندی کا یہ استثنیٰ جمعے (19 اگست) کو آدھی رات کے بعد ختم ہونا تھا۔  اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین تمام 13 طالبان رہنماؤں کے لیے سفر کی سہولت جاری رکھنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کی بحالی اور جامع حکومت کا وعدہ پورا نہ کرنے کے خلاف احتجاج کے طور پر ان طالبان رہنماؤں کی تعداد کم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

سلامتی کونسل کے سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روس اور چین نے جمعے کی شام امریکی تجویز پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا کیوں کہ اس ضمن میں ہونے والی بحث نجی نوعیت کی تھی۔ اس طرح 13 طالبان عہدیداروں پر عائد سفری پابندیاں پیر (22 اگست) تک ہی بحال ہوں گی، جب روس اور چین امریکی تجویز کا جواب دیں گے۔

ان 13 طالبان عہدیداروں میں افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر اور نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی بھی شامل ہیں۔ درجنوں طالبان برسوں سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں، جن پر سفری، اثاثوں کے منجمد کیے جانے اور ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد ہے لیکن کچھ طالبان عہدیداروں کو چھوٹ دی گئی ہے تاکہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی کے مقصد سے ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے سفر کر سکیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کی گذشتہ ماہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی اور نیٹو افواج کے 20 سال بعد ملک سے انخلا کے آخری مراحل کے دوران جب 15 اگست 2021 کو طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا، اس کے بعد سے اب تک 700 افراد ہلاک اور 1400 زخمی ہو چکے ہیں حالانکہ مجموعی طور پر سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح افغان خواتین سے ان کے بہت سے انسانی حقوق چھین لیے گئے، انہیں ثانوی تعلیم سے روک دیا گیا اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ افغان طالبان اپنی حکومت کو دنیا میں تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں، تاہم ابھی تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔