رپورٹس کے مطابق حملہ آور نے عبادت میں مصروف نوجوان پر چاقو سے متعدد وار کیے اور حملے کے دوران زمین پر گرتے ہوئے مقتول کی ویڈیو بھی اپنے فون سے ریکارڈ کی۔ بعدازاں، اس ویڈیو کو ایک دوسرے شخص کو بھیجا، جس نے مختصر وقت کے لیے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے حذف کر دیا۔
فرانسیسی وزیراعظم نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ’ویڈیو میں اسلاموفوبک ظلم کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ ہم متاثرہ شخص کے اہلِ خانہ اور تمام مسلمانوں کے ساتھ ہیں جو اس دل دہلا دینے والے واقعے پر غم زدہ ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ قاتل کی گرفتاری اور سزا کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستی وسائل متحرک کر دیے گئے ہیں۔
ابتدائی طور پر حملہ آور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ پولیس نے تصدیق کی کہ اس واقعے کو اسلاموفوبک جرم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حملے کے دوران مسجد میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی واردات کے مناظر ریکارڈ ہوئے ہیں، جن میں حملہ آور کی موجودگی اور اس کا یہ کہنا بھی محفوظ ہے کہ ’میری گرفتاری یقینی ہے۔‘
عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حملہ آور ایک بوسنیائی نژاد فرانسیسی شہری ہے جو غیرمسلم ہے۔ رپورٹ کے مطابق، حملہ آور نے نماز میں شریک ہو کر مقتول کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور پھر اچانک حملہ کر دیا۔
پراسیکیوٹر عبدالکریم گرینی کے مطابق مقتول نوجوان کی عمر 23 سے 24 برس کے درمیان تھی اور وہ مسجد میں باقاعدگی سے حاضری دیتا تھا۔ حملہ آور کو اس سے قبل مسجد میں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔