جنوبی افریقہ: شراب خانے میں فائرنگ سے متعدد ہلاک

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-07-2022
جنوبی افریقہ: شراب خانے میں  فائرنگ سے متعدد ہلاک
جنوبی افریقہ: شراب خانے میں فائرنگ سے متعدد ہلاک

 

 

ڈربن: جنوبی افریقہ کی پولیس کے مطابق سوویٹو ٹاؤن شپ کے ایک بار میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے جن میں کئی کی حالت نازک ہے۔  پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ اتوار کو آدھی رات کے کچھ دیر بعد ایک گروپ منی بس میں سوار ہو کر آیا اور بار میں موجود کچھ لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ زخمی ہونے والوں کو کرس ہانی بارگواناتھ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

صوبہ گوٹینگ کے پولیس کمشنر لیفٹیننٹ جنرل ایلیئس ماویلا کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول سے اشارہ ملتا ہے کہ فائرنگ کرنے والے گروپ کی شکل میں تھے۔ ماویلا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ بنیادی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ یہاں لطف اندوز ہو رہے تھے، ایک لائسنس یافتہ شراب خانے میں جسے اس وقت کام کی اجازت تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ’اچانک انہوں نے کچھ گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ اسی وقت لوگوں نے شراب خانے سے باہر بھاگنے کی کوشش کی۔ اس وقت ہمارے پاس مکمل تفصیلات نہیں ہیں کہ فائرنگ کا مقصد کیا ہے اور انہوں نے ان لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا؟

انہوں نے مزید کہا کہ’ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ طاقتور آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور اندھا دھند گولیاں چلائیں گئیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر کوئی شراب خانے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘ صوبائی پولیس کمشنر نے کہا کہ جس علاقے میں فائرنگ ہوئی وہاں بہت اندھیرا تھا جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو ملزموں کو شناخت کر سکیں۔ قومی پولیس کے ترجمان ڈیماکاٹسو سیلو نے بتایا کہ حملے میں نو ایم ایم کا پستول اور رائفلز استعمال کی گئیں۔

پولیس نے کہا ہے کہ اورلینڈو ایسٹرن ٹیورن نامی بار میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے اور ابھی مفرور ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آور تعداد میں کتنے تھے۔ جنوبی افریقہ دنیا کے پرتشدد ترین ممالک میں سے ایک ہے جس میں ہر سال 20 ہزار افراد قتل ہوتے ہیں جو عالمی سطح پر قتل کی وارداتوں کی سب سے بلند شرح ہے۔ جوہانسبرگ کے قریب واقع سویٹو ملک کی سیاہ فام بستیوں میں سب سے بڑی بستی ہے۔ انہیں اس سفید فام اقلیتی حکومت نے قائم کیا جو 1994 میں ختم ہو گئی لیکن ان بستیوں میں بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور نوجوانوں کی بے روزگاری کی وراثت تقریباً تین دہائیوں بعد بھی برقرار ہے۔