پاکستان کے گلے کی ہڈی بنا سعودی قرض

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-11-2021
پاکستان کے گلے کی ہڈی بنا سعودی قرض
پاکستان کے گلے کی ہڈی بنا سعودی قرض

 

 

 اسلام آباد  نئی دہلی

پاکستان کے لیے ایک ایسا دور چل رہا ہے جب ہر جانب مصیبت ہی مصیبت ہے۔ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے جو ان سے نجات دلا سکے۔معاشی بحران نے سنگین شکل اختیار کرلی ہے ۔دانے دانے کو محتاج پاکستان اب قرض میں اتنا ڈوب چکا ہے کہ اس جال سے باہر آنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ قرض لیتے لیتے پریشان پاکستان کو اب قرض دینے والے  بھی تھک گئے ہیں ۔

حال میں سعودی عرب نے پاکستان کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر ایک بار پھر مدد کی لیکن حکومت پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اس قرض کی حصولیابی پر جشن منائے یا آنسو بہائے۔کیونکہ اس بار سعودی عرب نے کسی ہمدردی کے بغیر سخت شرائط کے ساتھ قرض کا جام دیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب مسئلہ یہ ہے کہ کرے تو کیا کرے؟

سعودی عرب نے پاکستان کی علیل معیشت میں بہتری کی خاطر تین بلین ڈالر کی خطیر رقوم فراہم کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ۔سعودی امداد میں تیل کی فراہمی اور مؤخر ادائیگیوں کو ممکن بنانے میں آسانی ہو گی۔ پاکستانی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نےاس سعودی امداد کو پاکستان کی زبوں حال معیشت میں ایک نئی جان ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت سعودی فنڈ پاکستان سٹیٹ بنک کے پاس تین ارب ڈالر رکھوائے گا۔ معاہدے کے تحت ڈپازٹ کی رقم سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر کا حصہ بن جائے گی اور کووڈ 19 کی وبا کے منفی اثرات دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کو پاکستان کی علیل معیشت میں بہتری کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت نے سن دو ہزار اٹھارہ میں بھی پاکستان کے لیے ایک ایسے ہی پیکج کا اعلان کیا تھا تاہم پاکستان کی ترکی اور ملائیشیا کی طرف قربت کی وجہ سے ریاض حکومت اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ لیکن پردے کے پیچھے کی حقیقت کچھ اور ہے۔

کئی ناقدین کے خیال میں یہ شرائط انتہائی کڑی ہیں اور ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جو گرم جوشی کبھی پائی جاتی تھی، وہ ختم ہو رہی ہے۔

 کڑی شرائط کیا ہیں؟

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پہلی دفعہ اس طرح کی کڑی شرائط پیش کی گئی ہیں ورنہ ماضی میں یہ بھی ہوا ہے کہ سعودی عرب نے کچھ قرضوں کو گرانٹ میں تبدیل کر دیا یا کچھ قرضے معاف بھی کیے۔ معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ خالصتاً کمرشل بنیادوں پر ہیں۔

 اگر پاکستان آئی ایم ایف کی رکنیت چھوڑتا ہے تو بھی ڈیفالٹ ہوگا۔ اگر کسی پیمنٹ کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو بھی ڈیفالٹ ہوگا۔ یہاں تک کہ شرح سود کی ادائیگی بھی اگر نہیں کر پاتا، تو وہ بھی ڈیفالٹ سمجھا جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کسی وقت بھی بہتر گھنٹے کا نوٹس دے کر پاکستان سے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت سارے معاملات رازداری میں ہوتے ہیں اور ان کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ ان شرائط کو منظر عام پر لانے سے پاکستان میں سعودی عرب کا امیج متاثر ہوا ہے۔

انہوں نےبتایا کہ جب سے یہ شرائط منظر عام پر آئی ہیں چاروں طرف ان شرائط پر بحث ہو رہی ہے اور بظاہر پاکستانیوں کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ اس طرح کی کڑی شرائط رکھی گئیں۔ جب پاکستان نے جوہری دھماکے کیے تو پوری دنیا سے پیسے آنے بند ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان ادائیگی پر ڈیفالٹ نہیں ہوا۔ تو ڈیفالٹ کی یہ بات اس معاہدے میں ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اسی طرح پاکستان کبھی آئی ایم ایف کی رکنیت نہیں چھوڑ سکتا۔ ہم اس کے رکن ہیں اور یہ رکنیت رکھنا چاہتے ہیں، تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان شرائط میں اس رکنیت کے حوالے سے شرط کیوں رکھی گئی۔

 پاک سعودی باہمی تعلقات میں گرم جوشی کا خاتمہ

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے ہی بہت قریبی رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ماضی میں نہ صرف پاکستان کی کئی مواقع پر مالی مدد کی بلکہ ادھار تیل کی فراہمی بھی کی ہے۔ پاکستان کی افرادی قوت کا ایک حصہ سعودی عرب میں کام کرتا رہا ہے۔ وہاں سے زر مبادلہ بھیجا جاتا ہے، جو ملک کی معیشت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور سعودی عرب بہت قریبی اتحادی رہے اور افغانستان جہاد میں ریاض اور اسلام آباد نے بڑھ چڑھ کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔ تاہم یہ تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے تلخی کا شکار ہیں۔

ایک اور تجزیہ کا ر کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات میں جو گرم جوشی تھی، اب ختم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ ماضی میں سعودی عرب سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کنگ عبداللہ کے دور تک بھی پاکستان کی کوئی مجبوری ہوتی تھی تو سعودی عرب اس کی مدد کرتا تھا لیکن محمد بن سلمان کا طریقہ حکومت بہت مختلف ہے اور وہ ہر معاملے کو کمرشل بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔

اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں جو برادرانہ گرم جوشی تھی وہ کس حد تک ختم ہو رہی ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو یا تو ان شرائط کے بعد قرضہ لینے سے معذرت کر لینی چاہیے یا پھر سعودی عرب کا یہ قرضہ جلد از جلد واپس کر دینا چاہیے۔

صرف رسمی بات تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ شرائط کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کے مشیر برائے مالیاتی امور سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ مالی معاہدوں میں اس طرح کی شرائط کوئی نئی نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عموماً لوگ مالی معاہدوں کی دفعات نہیں پڑھتے۔ اگر وہ غور سے پڑھیں تو تقریبا تمام مالی معاہدوں کی دفعات ایسی ہی ہوتی ہیں۔

یہاں تک کہ اگر آپ کسی بینک سے قرضہ بھی لیں تو اس میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ بینک چوبیس گھنٹے کے اندر یہ قرضہ واپس طلب کر سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا یہ صرف رسمی باتیں ہیں جو مالی معاہدوں میں ہوتی ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایسی نوبت نہیں آنے دے گا۔