روس نے کیا یوکرین کے دو شہروں پر قبضہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-02-2022
 روس نے کیا یوکرین کے دو شہروں پر قبضہ
روس نے کیا یوکرین کے دو شہروں پر قبضہ

 

 

کیف: روسی افواج نے یوکرین کے دو جنوب مشرقی شہروں اور ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے قریبی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ روئٹرز نے پیر کو انٹرفیکس نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا ہے کہ دوسرے مقامات پر روس کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔

 دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا انتہائی غیرمعمولی اور ہنگامی اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک یوکرین میں 102 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے ایک سو دو بچے بھی شامل ہیں۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے پیر ایک ایسا مباحثہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے جو یوکرین پر روس کے حملے کے حوالے سے ہو گا۔ دوسری جانب روس کے بارڈر کے قریب ہونے والے مذاکرات میں ’جنگ بندی اور روس کے فوری انخلا‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق یوکرین کے صدارتی دفتر کے پیر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ یوکرین کا وفد آج بیلا روس یوکرین بارڈر پر روسی نمائندوں سے مذاکرات کے لیے پہنچا۔ ان مذاکرات کا بنیادی نکتہ فوری جنگ بندی اور روسی فوجیوں کا یوکرین سے انخلا ہے۔‘

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس   میں تمام 193 ارکان اپنی رائے کا اظہار کریں گے کہ آیا وہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں جس میں ’روس کی بلااشتعال جارحیت‘ کی مذمت اور فوجیں نکالنے کے مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خصوصی سیشن بہت نایاب ہے اور غیرمعمولی حالات میں ہی بلایا جاتا ہے۔ تاریخ میں یہ 11 ویں مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ یہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔

اس حوالے سے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کو دنیا میں جمہوریت کے بیرومیٹر کے طور پر بھی دیکھا جائے گا، جہاں آمرانہ جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کا اشارہ میانمار، سوڈا، مالی، برکینہ فاسو، وینزویلا، نکاراگ اور یقینی طور پر روس کی طرف تھا۔ آج کا اجلاس دس بجے شروع ہو گا، آغاز میں اسمبلی کے صدر عبد اللہ شاہد اور سیکریٹری جنلر انونیو گٹرز خطاب کریں گے۔

یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سے ممالک اس پر بات کریں گے جبکہ قرارداد پر ووٹنگ کا مرحلہ شاید منگل سے قبل مکمل نہ ہو۔ قرارداد لکھنے والوں کو امید ہے کہ 100 کے قریب ووٹ حمایت میں آ سکتے ہیں جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کچھ ممالک جیسے شام، چین، کیوبا اور انڈیا روس کی حمایت کر سکتے ہیں یا پھر قرارداد کی حمایت سے گریز کر سکتے ہیں۔

  کیف کی درخواست پر پیر کو جنیوا میں مباحثے کے حق میں 47 میں سے 29 ووٹ پڑے۔ پانچ ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیے جن میں روس اور چین شامل ہیں، جبکہ 13 نے کسی قسم کی رائے دینے گریز کیا۔

روس نے 24 فروری کو یوکرین پر وسیع پیمانے کا حملہ کیا تھا، روسی صدر نے ملک کے اطراف میں فوجیں تعینات کر رکھی تھیں جن میں جہاز اور بحری جہاز بھی شامل تھے۔ یوکرین پر حملے کے چوتھے روز روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے نواح میں دنیا کے سب سے بڑے جہاز کو تباہ کردیا ہے۔ جہاز گوستومل کے ایئرپورٹ پر موجود تھا، جو دارالحکومت سے تقریباً 20 کلومیٹر پر واقع ہے.

تباہ ہونے والے جہاز کا نام ’ماریہ‘ تھا جس کا یوکرینی زبان میں مطلب خواب بنتا ہے۔ یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے اتوار کو ٹویٹ میں لکھا ’ماریہ، اے این 225 دنیا کا سب سے بڑا جہاز تھا۔ روسی اس کو تباہ کر سکتے ہیں مگر ہمارے یورپ کی آزاد، مضبوط اور جمہوری ریاست بننے کے خواب کو تباہ نہیں کر سکتے، ہم غالب آئیں گے۔‘

یوکرینی ادارے کا اندازہ ہے کہ جہاز کی مرمت پر تین ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا اور اسے اڑنے کے قابل بنانے میں پانچ سال سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔  یہ جہاز بنیادی طور پر روس کے ایروناٹیکل پروگرام نے ہی تیار کیا تھا اور اس نے 1988 میں اپنی پہلی پرواز بھری تھی۔

اس جہاز کو یوکرین کی انتونو ایئرلائنز کمپنی استعمال کرتی ہے اور کارگو مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد پچھلے کچھ سالوں کے دوران اس جہاز کی بہت ڈیمانڈ تھی۔ دوسری جانب کئی ممالک میں اتوار کو روسی حملے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔  دنیا بھر کے کئی ممالک میں اتوار کو روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج ہوا۔ یوکرین کے جھنڈے والے کپڑے پہنے لوگ سڑکوں پر نکلے، جن پر ’تیسری عالمی جنگ نہیں چاہیے‘ اور ’روس واپس جاؤ‘ کے نعرے درج تھے۔

ذرائع کے مطابق برلن سے بغداد اور واشنگٹن سے سینٹ پیٹرسبرگ تک ہونے والے احتجاج میں روسی صدر پوتن کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ برلن کی پولیس کا کہنا ہے کہ شہر میں ایک لاکھ لوگوں نے احتجاج کیا، اسی طرح پراگ میں 70 ہزار جب کہ ایمسٹرڈم میں 15 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا۔ برلن میں احتجاج کرنے والوں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کی تعداد پولیس کی جانب سے بتائی جانے والی تعداد سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ مظاہرین نے روس کی ایمبیسی پر پتھراؤ بھی کیا۔

  پتھراؤ کے وقت ایمبیسی میں روس کے سفیر موجود تھے تاہم عمارت کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مظاہرین نے یوکرین کے حق اور روس کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرے میں شریک 49 سالہ ہینس جیورگ کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ جرمنی یورپ میں جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے۔ روسی حملہ، بائیڈن آج اتحادیوں سے مشاورت کریں گے امریکی صدر جو بائیڈن آج اتحادیوں کو ٹیلی فون کال کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ’کال میں روس کے حملے کے بعد بننے والی ’صورت حال‘ اور ’تعاون و مشترکہ ردعمل‘ کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔‘ وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹیلی فون کال میں کون کون شریک ہو گا۔

خیال رہے روس کے صدر پوتن نے اتوار کو ایک اہم میٹنگ میں وزیر دفاع اور آرمی چیف کو نیوکلیئر فورسز کو ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ روس ایٹمی ہتھیار رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔  امریکہ نے روسی صدر کے اقدام کو’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ولادیمیر پوتن یوکرین کے خلاف ’مزید جارحیت‘ کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔